سلطنت عثمانیہ کا توپ خانہ جس نے اسے سُپر پاور بنا دیا، ترکوں کی جنگی تاریخ کے عروج و زوال کی کہانی


 

سلطنت عثمانیہ اور بارود

’عمومی طور پر عثمانیوں نے اپنے یورپی اور مشرق وسطیٰ کے حریفوں سے پہلے آتشیں اسلحہ بنانے اور استعمال کرنے کے لیے کل وقتی اور مرکز سے کنٹرول ہونے والے خصوصی دستے قائم کر لیے تھے۔‘

اگوستون نے اس تاثر کو کہ عثمانی ہتھیاروں کی نئی ٹیکنالوجی کے لیے یورپی ماہرین پر انحصار کرتے تھے۔ انھوں نے کہا ہے کہ مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے ماہرین کا مختلف سلطنتوں میں آنا جانا اس زمانے میں عام بات تھی اور مسلم مسیحی فرق کو حد سے زیادہ اہمیت نھیں دینی چاہیے۔

’تہذیبوں کے ٹکراؤ کا نظریے جو آج کل فیشن میں ہے 15ویں سے 18ویں صدی تک یورپ اور سلطنت عثمانیہ بین الثقافتی رابطوں کو سمجھنے میں زیادہ مددگار نہیں ہو سکتا۔‘

روس کی ملکہ کیتھرین دی گریٹ

روس کی ملکہ کیتھرین دی گریٹ(1762-1796): مشکل اقتصادی صورتحال میں 18ویں صدی میں روس کے ساتھ جنگیں بھی سلطنت کو مہنگی پڑی تھیں جو اس وقت ان کا بڑا مخالف بن چکا تھا

تو پھر سلطنت عثمانیہ کے مسائل کہاں سے شروع ہوئے

صدیوں تک لاکھوں مربع کلومیٹر پر پھیلی سرحدوں اور ہر سمت سے جنگی میدانوں میں اپنی برتری قائم رکھنے کے بعد سلطنت عثمانیہ کے مسائل کہاں سے شروع ہوئے؟ اس کا نہ تو کوئی سیدھا سا جواب ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی ایک مؤرخ وضاحت کر سکتا ہے۔

کتاب ’گنز فار دی سلطان‘ میں مختلف مؤرخین کے بیانیوں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اگوستون کے نزدیک اس کی زیادہ اہم وجہ اقتصادی ماحول میں تبدیلی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ بحیرہ روم کے علاقے میں عمومی طور خراب اقتصادی صورتحال کی وجہ سے اتنے وسیع پیداواری سیکٹر کو قائم رکھنا مشکل ہو گیا تھا۔

اس دوران یورپ میں بڑے پیمانے پر اقتصادی اور انتظامی اصطلاحات کی جا چکی تھیں اور وہ سائنس اور فنانس کے میدان میں بھی آگے نکل گیا تھا۔

’عثمانیوں اور یورپی کی جنگ نے جب نوعیت بدلی تو یہ تبدیلیاں بہت اہم ہو گئی تھیں۔۔۔۔۔ سنہ 1526 سے سنہ 1683 یورپ میں صرف دو بڑی جنگیں میدان میں لڑی گئی تھیں۔۔۔۔ سلطان کی فوج زیادہ تر محاصروں میں مصروف رہی۔‘

مشکل اقتصادی صورتحال میں 18ویں صدی میں روس کے ساتھ جنگیں بھی سلطنت کو مہنگی پڑی تھیں جو اس وقت ان کا بڑا مخالف بن چکا تھا۔

اس دوران استنبول کی شاہی فاؤنڈری میں کیا صورتحال تھی؟ کتاب ’گنز فار دی سلطان‘ میں بتایا گیا ہے کہ 18ویں صدی کے اختتام تک بھی وہ کئی مواقعوں پر سینکڑوں توپیں بنانے کی صلاحیت رکھتی تھی جن کا کل وزن دو لاکھ کلوگرام تک بھی ہو جاتا تھا۔ لیکن بتایا جاتا ہے کہ اصل مسئلہ بارود کی پیداوار کا تھا جس کی پیداوار 16ویں اور 17ویں صدی کے مقابلے میں 15-30 فیصد کم ہو چکی تھی۔

اگوستون اس زمانے کے یورپی اور عثمانی مبصرین کے حوالے سے بتاتے ہیں عثمانی فوج میں ڈسپلن اور تکنیک کی بھی کمزوریاں پیدا ہو گئی تھیں۔

کیا سلطنت کو ان کمزوریوں کا احساس نہیں تھا اور انھیں دور کرنے کے لیے کوششیں کیوں نہیں کی گئیں؟ اس سلسلے میں کتاب میں سنہ 1734 کی ایک ترک دستاویز کا ذکر ہے جس میں ’نظام جدید‘ کے لیے اصلاحات پر زور دیا گیا تھا۔

اگوستون بتاتے ہیں عثمانی قیادت اس کے لیے تیار نہیں تھی کیونکہ وہ کہتے تھے کہ اس سے ’سماجی ڈھانچہ‘ خطرے میں پڑ جائے گا اور جب انھوں نے سنہ 1787-92 کی روس کے ساتھ جنگ میں ناکامی کے بعد ایسی کوشش کی تو بہت دیر ہو چکی تھی۔

سلطنت عثمانیہ کے 28ویں سلطان سلیم سوم (1789-1807) کو اس کوشش کی قیمت، جس میں وہ ایک ’نئی ماڈل آرمی‘ بنانا چاہتے تھے، اپنی جان کی صورت میں دینی پڑی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32550 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp