عہد حاضر کی چند زندہ اشتراکی یادگاریں


سوویت یونین کے انہدام کو تین دہائیاں گزر چکیں۔ آج دنیا میں صرف پانچ ممالک ہیں جو خود کو اشتراکی گردانتے ہیں۔ اس فہرست میں چین، کیوبا، ویتنام، لاؤس اور شمالی کوریا شامل ہین۔ ان تمام ہی ملکوں میں صرف شمالی کوریا ہی اب تک عملاً اشتراکی ہے۔ مگر شمالی کوریا میں بھی اشتراکیت کوئی ولولہ، کوئی انقلاب نہیں، بلکہ بقول غالب ”دین بزرگان“ ہی ہے۔ کیا آج سے 30 سال قبل کوئی کہہ سکتا تھا کہ اشتراکیت کا یوں اتنا خوفناک اس قدر ذلت آمیز انجام ہو گا؟

برصغیر پاک و ہند میں تو خیر اشتراکیت ہمیشہ ہی ایک ناکام نظریہ رہی اور سوائے مغربی بنگال کے اشتراکیت کو کہیں بھی کوئی سیاسی کامیابی کبھی حاصل نہ ہو سکی۔ پاکستان اور بنگلہ دیش میں بھٹو اور مجیب دونوں نے اشتراکیت سے خوب فلرٹ کیا مگر یہ فلرٹ کبھی بھی حقیقی معاشقے میں نہ بدل سکا۔ آج بھی چند زندہ اشتراکی یادگاریں چلتی پھرتی مل جاتی ہیں تو بڑی حیرت ہوتی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور یہ سوچتے کیا ہیں؟ چاہتے کیا ہیں؟ کیا واقعی اشتراکیت ان کے لئے کوئی حقیقی نظریاتی مسئلہ ہے یا یہ محض کسی نوع کا امیج کا چکر ہے؟

میں اپنی زندگی میں کوئی 5 یا 6 اشتراکی یادگاروں سے ملا ہوں اور تقریباً 20 یا 25 ایسے اشتراکیوں کو اخبارات کے کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں ان کے تجزیوں سے پہچان گیا ہوں۔ اسی کی دہائی کے اواخر تک یہ افراد کھلے ہوئے اشتراکی تھے مگر جب اشتراکیت کا سورج غروب ہوا تو نظریاتی بے سرو سامانی کا شکار ہوئے۔ سوویت یونین کا درانتی اور ہتھوڑی والا سرخ پرچم ان کے لئے قبلہ بھی تھا اور قبلہ نما بھی۔ یہ ہر سماجی، سیاسی مظہر کی ماہیت اور حقیقت کا اندازہ اپنے سرخ چشمے سے ہی لگایا کرتے تھے۔

اشتراکیت کے خاتمے نے ان سب کو یک دم نظریاتی یتیم بنا دیا۔ اب ان بیچاروں کے پاس راستہ کیا تھا؟ روس میں تو لوگ مارکس، لینن اور اسٹالن کے مجسمے گرا کر ان کے منہ پر جوتے مار رہے تھے۔ مظاہرین جب سڑکوں پر نکلتے تو ان کے ہاتھوں میں آخری زار روس کی تصویریں ہوتیں۔ چین کے ’تیان مین‘ اسکوائر میں لاکھوں لوگ آزادیاں طلب کر رہے تھے۔ مشرقی یورپ میں تو اشتراکیت کا جنازہ اور بھی دھوم سے نکلا تھا۔

جو یہاں اشتراکیت کے گیت گایا کرتے تھے وہ بیچارے ان خبروں پر کیا کیا ماتم کیا کرتے ہوں گے؟ اب ان کے لئے اشتراکیت کے کیا معنی تھے؟ اب وہ کیسے جدلیاتی مادیت کے تناظر میں بدلتی دنیا کی تشریح کر سکتے تھے؟ ایسے افراد کی جمیع اکثریت نے ایک بڑی عجیب نظریاتی جست لگائی۔ وہ اپنے پرانے دشمن اور سرمایہ دارانہ دنیا کے مائی باپ امریکا پر ایمان لے آئے۔ اشتراکیت بحیثیت معاشی نظام ان کی نظر میں بھی ناکام تھا۔ اب نہ تو Collective Farms پر ایمان تھا نہ ہی نجی ملکیت پر اعتراض۔

حد تو یہ کہ ارتکاز دولت اور سرمایہ داری کے سارے ہی مظاہر اب بڑے دلکش نظر آنے لگے مگر مذہب اور اس کے تمام سماجی، ثقافتی مظاہر سے دشمنی بالکل حسب سابق برقرار رہی۔ اشتراکی انقلاب کی جگہ اب سماجی انقلاب کے نعرے نے لی۔ اب ان لوگوں نے عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق نعرے لگا کر خود کو دوبارہ ایک سماجی قوت ظاہر کرنے کی سعی کی۔ اب ریاست اور مذہب کی علیحدگی یعنی Secularization کا نعرہ ان کے لئے بچا ہوا دستور تھا۔

2012 ء میں انٹرنیٹ پر ایک سکہ بند اشتراکی ہونے کے دعوے دار سے میرا مکالمہ ہوا۔ میں نے اشتراکی تاریخ کے مظالم کی تاویل پوچھی۔ میں نے سوالات کی ایک فہرست سامنے رکھی،

کیا Gulags بنانا درست تھا؟
کیا Purges درست تھیں؟
کیا چین کا ثقافتی انقلاب درست تھا؟
کیا پول پاٹ کا Agrarian Communism درست تھا؟
اور کیا ان سب ہی باتوں کے نتیجے میں کروڑوں لوگوں کی اموات درست تھیں؟

تو مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ ان میں سے 90 فیصد باتوں سے اشتراکی بھائی ناواقف تھے۔ بیچارے کی پیدائش سوویت یونین کے انہدام کے بعد ہوئی اور وہ تو صرف اشتراکیت کا کاسٹیوم پہنے ہوئے تھے۔ انہیں بس ملاؤں سے تھوڑی چڑ تھی مگر محرم میں ماتم بھی کرتے تھے اور نوحے بھی سنتے تھے۔ اشتراکیت کی عالمی تاریخ سے ان کی واقفیت کافی کم تھی۔

آج کل یورپ میں بہت سے لوگ وائی کنگز (Vikings) کا چولا پہن لیتے ہیں تو اس سے وہ وائی کنگ تو نہیں بن جاتے۔ اسی طرح کوئی درانتی اور ہتھوڑی کو ایک ساتھ پکڑ لینے سے اشتراکی نہیں بن جاتا۔ بہت سے لوگوں کے لئے آج کی تاریخ میں اشتراکیت سب سے سستا کاسٹیوم ہے۔ اس کو پہن کر اپنا آپ منفرد بھی معلوم ہوتا ہے اور اس کاسٹیوم کی کوئی قیمت بھی نہیں کیونکہ نہ تو اب کوئی اشتراکی تحریک دنیا میں کہیں موجود ہے نہ ہی کوئی امکان ہے کہ دنیا میں کہیں اشتراکی انقلاب کبھی برپا ہو سکے۔ اشتراکی ہونے کی صورت میں کسی بھی جدوجہد کا کبھی کوئی امکان ہی نہیں۔ اسی وجہ سے سوویت یونین کے انہدام کے بعد بھی اشتراکیت کی زندہ لاشوں کو ابھی تک تھوڑا بہت تازہ خون مل جاتا ہے۔ ان بوڑھی روحوں کو چند اشتراکی امیج اختیار کرنے کے خواہاں نوجوان گھیرے رہتے ہیں۔ اب ان کا موضوع نہ سرمایہ دار ہے نہ جاگیردار۔ موضوع ہے تو بس مذہب اور ملا۔

اپنے زمانہ طالب علمی میں ایک چھوٹا سا اشتراکی گروہ میری نظر سے گزرا تھا جو ایک دوسرے سے ملتے اور رخصت ہوتے ہوئے ”انقلاب زندہ باد“ کا نعرہ کسی سلام کی طرح استعمال کرتے۔ بعد میں ان انقلابیوں نے نجی اداروں میں نوکریاں کیں اور شادی کر کے بچے پیدا کیے۔ وہ انقلابی بھی چھٹی والے دن روہت شٹی کی گول مال ہی دیکھتے ہیں اور ان میں سے بہت سے کینیڈا ہجرت کرنے کی فکر میں ہیں۔ وہ لوگ کوئی اشتراکی انقلاب نہیں لائے، بس اتنا ضرور ہوا کہ زمانہ طالب علمی کا ایک دورانیہ ایک رومان پرست انقلابی تھیٹر میں گزار دیا اور یوں خود کو تھوڑا الگ تھوڑا منفرد محسوس کیا۔

اور رہ گیا مذہب اور اس کے مظاہر سے تعصب تو اس کی تو یہ رہی کہ بوڑھے ہو کر یہ لوگ بھی داڑھیاں رکھیں گے اور ان میں سے کوئی بھی یہ وصیت کر کے نہیں مرے گا کہ اس کی نماز جنازہ نہ پڑھائی جائے یا اس کی لاش کو دفن نہ کیا جائے بلکہ برنر میں جلا دیا جائے۔ اس لیے واقعی یہ اشتراکی لاشیں بڑی بے ضرر چیزیں ہیں۔ یہ اگلے وقتوں کی یادگاریں ہیں، ماضی کے مزار ہیں، ایک ایسے ماضی کے مزار کہ جب اشتراکیت دنیا کی ایک قوی ترین قوت کا درجہ رکھتی تھی۔

ایک ایسا دور کہ جب روس کے سربراہ برزنیف نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سرمایہ داری کو دفن کر دے گا۔ ایک ایسے دور کی یادگار کہ جب اشتراکی انور ہوجا نے کہا تھا کہ وہ البانیہ سے مذہب کا نام مٹا دے گا۔ ایک ایسے دور کی یادگاریں کہ جب سوویت یونین میں کلیسا اور مساجد کو لائبریری اور میوزیم بنا دیا گیا تھا۔ ان اشتراکی مزاروں کو تو بہت سنبھال کر رکھنے کی ضرورت ہے اس لئے کہ Elephant bird، Caspian Tiger اور Dodo Bird کی طرح یہ مخلوقات بھی کچھ عرصے بعد عنقا ہو جائیں گی۔ واقعی یہ بڑی قیمتی یادگاریں ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments