وزیر اعظم صاحب خدارا نوٹس لینا بند کریں


سوشل میڈیا پر اکثر ان جملوں کو دہرایا جاتا ہے کہ کبھی تنہائی یا ویرانے میں محافظوں کو موجود پاکر گھبرا یا ہوا دل ٹھیر جایا کرتا تھا اور دل و دماغ پر چھائے خوف کے سائے چھٹ جایا کرتے تھے لیکن اب یہ زمانہ آ گیا ہے کہ دن کی روشنی میں بھی چوک چوراہوں یا گلی کوچوں میں محافظوں کو دیکھ کر دل سہم جاتا ہے اور عدم تحفظ کے احساس سے کلیجہ منھ کو آنے لگتا ہے۔

کسی بھی ملک کے حالات ہمیشہ یکساں تو رہا نہیں کرتے اور خاص طور سے پاکستان میں تو یہ اتھل پتھل معمول کا حصہ ہی رہی ہے۔ قیام پاکستان سے تا حال ملک ہر دور میں کسی نہ کسی بحران کا شکار رہتا ہی چلا آیا ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر دور کے حکمران ہر آنے والے بحرانوں کا مقابلہ بڑی پا مردگی کے ساتھ کرتے اور ان پر قابو پاتے رہے ہیں۔ ایوب خان کے زمانے میں جب چینی اور آٹے کی شدید قلت کا سامنا درپیش ہوا تو پورے ملک میں راشن کارڈوں کے ذریعے سستی چینی اور سستا آٹا عوام تک پہنچانے کے عمل کو یقینی بنایا گیا۔

بھٹو کے دور میں سقوط مشرقی پاکستان کے معاملے کے بعد جب باقی بچ جانے والے پاکستان کی شیرازہ بندی کا معاملہ درپیش ہوا اور اس بات کا خدشہ پیدا ہوا کہ سرمایہ دار راتوں رات ملک کی ساری دولت ملک سے باہر منتقل نہ کر جائیں تو پورے پاکستان کی ملوں، کارخانوں اور اداروں کو قومیا کر متوقع سنگین بحران پر فوری طور پر قابو پایا گیا اور عوام تک سستی اشیا پہنچانے کے لئے ایک مرتبہ پھر راشن کارڈ سسٹم متعارف کرکے سستی اشیا کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔

ضیا الحق کے دور میں افغانستان کے حالات خراب ہوئے اور روس افغانستان پر قبضہ کرنے کے بعد پاکستان کی سرحدوں کی جانب بھی میلی نظر سے دیکھنے لگا تو اس کی پیش قدمی کو روکنے اور افغانستان سے اسے بیدخل کرنے کی ساری منصوبہ سازی عمل میں لائی گئی اور اس عظیم بحران پر کامیابی کے ساتھ قابو پا لیا گیا۔ بعد میں آنے والی حکومتوں نے بجلی پانی اور گیس کے سنگین ہوتے بحرانوں پر قابو پانے کی کامیاب منصوبہ بندی سے کام لے کر قوم کو درپیش خطرات سے محفوظ رکھا۔ پرویز مشرف کے دور میں بھی چند مشکل فیصلے سامنے آئے اور نہ صرف ملک کا تحفظ یقینی بنایا گیا بلکہ عوام کو بھی شدید مشکلات در پیش نہیں ہونے دیں۔

گزشتہ حکومتوں کے دوران جب جب بھی عوام کسی بحرانی کیفیت یا مشکلات کا شکار دکھائی دیتے، حکمرانوں کے جانب سے ان بحرانوں اور مشکلات کے حل کے لئے نوٹسز سامنے آتے تو عوام اطمنان کا سانس لیا کرتے تھے کہ اب ان کے لئے کوئی نہ کوئی مثبت راہ نکل ہی آئے گی لیکن اب معاملہ ایسا الٹ گیا ہے کہ کسی بھی مشکل یا بحران کے سامنے آنے پر مسجدیں آباد ہوجایا کرتی ہیں، راتوں کو چھتوں پر عوام اذانیں دینا شروع کر دیتے ہیں اور گھروں میں خواتین و مرد تہجد میں اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعائیں مانگنا شروع کر دیتے ہیں یا اللہ تو موجودہ حکمران کو ”نوٹس“ لینے سے باز رکھ اور جو مصیبت ہم پر نازل ہو گئی ہے یا ہونے والی ہے اس کو دور کرنے کی خود ہی کوئی راہ نکال دے۔

یہ کیسا المیہ ہے کہ کسی ملک کے عوام حاکم کے ”نوٹس“ لینے کے اقدام سے ہی لرزنے اور کانپنے لگیں۔ پٹرول اگر کمیاب ہو جائے تو نوٹس کے نتیجے میں قیمتیں آسمان کو چھونے لگیں۔ چینی اور آٹا نایاب ہو جائے تو نوٹس لینے پر 100 فیصد مہنگا ہو جائے۔ عام اشیا صرف کی قیمتوں کا نوٹس لیا جائے تو وہ قوت خرید سے باہر ہو جائیں۔ پی آئی اے کی کارکردگی کے خلاف نوٹس سامنے آ جائے تو پوری دنیا میں نہ صرف پروازوں کا داخلہ بند ہو جائے بلکہ دنیا بھر میں جس جس ائر لائن میں پاکستانی پائلٹ اپنی خدمات انجام دے رہے ہوں ان کو دیس نکالا ملنے لگے۔ بجلی کے ٹیرف میں اضافے کے خلاف حاکم وقت نوٹس لے تو فی یونٹ قیمت کم ہونے کی بجائے بڑھادی جائے۔

نہ بازار ان کے قابو میں، نہ بزدار ان کی دسترس میں، نہ سندھ ان کے کہے میں نہ بلوچستان کوئی بات ماننے کے لئے تیار اور نہ ہی کے پی کے اونٹ کی کوئی کل سیدھی۔ حد یہ ہے کہ ترجمان وزیر اعظم کے، ترجمانی حسب اختلاف کی، وزیر و مشیر حاکم وقت کے لیکن مرضیاں اپنی اپنی۔

کراچی کی صفائی کا نوٹس، کچروں کے ڈھیروں میں اضافہ، نالوں کی صفائی کا نوٹس، مزید کوڑا کرکٹ سے بھر دیے گئے، پانی مافیا کے خلاف نوٹس، گلی محلوں میں بھی پانی آنا بند، کے الیکٹرک کی من مانیوں کے خلاف ایکشن، لوڈ شیڈنگ حد سے بڑھنے لگی اور جب فی یونٹ قیمت بڑھانے کے خلاف ناگواری کا اظہار کیا گیا تو 3 روپے کے اضافے کی خوشخبری سنادی گئی جس کو مؤخر تو کیا گیا ہے لیکن تنسیخ نہیں کی گئی۔

ان سارے حالات کو دیکھتے ہوئے پورے ملک کے عوام دونوں ہاتھ جوڑ کر وزیر اعظم پاکستان جناب عمران خان صاحب سے پرزور انداز میں اپیل کرتے ہیں کہ خدارا آپ کسی بھی معاملے میں ”نوٹس“ لینا ترک کردیں ورنہ حالات بد سے بد تر ہوتے چلے جائیں گے اور غریب غربا کا جینا حرام ہو کر رہ جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments