روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی


گزشتہ نشست میں ہم نے کہا تھا کہ معالجے سے متعلق ہمیں اس عظیم معاشرے (امریکہ) کے چند ایسے پہلو دیکھنے کا اتفاق ہوا جن کو اگر تعصب و ناکامی سے بلند ہوکر دیکھا جائے تو بقول حضرت ذہین شاہ تاجی کے اہل دل کی آنکھ کا سرمہ، شمع کے دل کی ٹھنڈک اور نور دل پروانہ بن سکتے ہیں۔ برا بننے میں دوسروں کی مدد درکار ہوتی ہے۔ اچھے آپ خود بنتے ہیں۔ کردار سے مثال قائم ہوتی ہے۔

مریض نے اپنی علالت، درد کے حوالے سے ایک بہت بڑی مایوسی کا اظہار کیا تھا۔ ڈیوٹی پر مامور نرس کو ہمدرد جو پایا تو آہستہ سے نوحہ کناں ہوا کہ بیماری کے اس حملے سے قبل اعلیٰ تعلیم کے لیے اس کی روانگی میں تمام انتظامات مکمل تھے۔ فیس جمع ہوگئی تھی، کمرہ رہائش لے لیا گیا تھا۔ فلائیٹ تک طے تھی۔ اچانک شدید درد اٹھا جس کی تشخیص اور پھر ایک طویل علاج نے اس کے خواب چکنا چور کر دیے۔ اسی حوالے سے نرس عفافہ سے اس نے اپنے خواب ریزہ ریزہ ہونے کے کرب کا تذکرہ کیا۔ وہ اس بات سے شاکی تھا کہ اللہ نے اس جواں عمری میں اسے اس بڑی تکلیف اور دکھ کے لیے اسے کیوں منتخب کیا۔ روزانہ کی اس موت سے بہترتھا کہ ایک دن چپ چاپ اللہ اسے دنیا سے اٹھا لیتا۔ اس کی وجہ سے اس سمیٹ کتنے لوگ مبتلائے آزار ہوئے۔

نوجوان کو اپنی اس نالہ زاری کے ڈرائونے اور دور رس اثرات سے آگاہی نہ تھی مگر یہ ہسپتال کے لیے یکایک ترجیحی توجہ کا درجہ اختیار کر گئے۔

عفافہ کی ہمدرد ی اور لگائو اپنی جگہ، مگر اس کی پیشہ ورانہ قابلیت اور حس ذمہ داری بھی کم معیار کی نہ تھی۔ جب مریض نے دبے دبے الفاظ میں کہا کہ ایسی زندگی کا کیا فائدہ۔ ایسی زندگی سے تو مرجانا بہتر ہے تو اس نے بڑی خاموشی سے اس جملے کو من و عن اپنی رپورٹ میں لکھ کر ہسپتال کے سسٹم میں ڈال دیا۔ اس سے ایک ممکنہ خودکشی کے ہائی الرٹ کا دائرہ احتیاط گھومنے لگا۔ سب سے پہلے یہ خبر اپنے چینل سے بلا کے باکمال سرجن صاحب کو جاپ ہنچی جنہوں نے مریض کی سرجری کی تھی۔ اس کے چار نتائج بہ یک وقت سامنے آئے، چاروں کا تذکرہ یکے بعد دیگرے…

سب سے پہلے مریض کا کمرہ جو کچھ دیر پہلے ہی الاٹ ہوا تھا وہ تبدیل کر دیا گیا۔ نیا کمرہ کشادہ، روشن، یک طرفہ شیشوں سے مزین، خواب آلود مگر ہر طرف سے پیڈیڈ تھا گویا دبیز گدوں سے یقینی بنایا گیا تھا کہ مریض کسی سخت سطح سے ٹکرا کے خود کو نقصان نہ پہنچا سکے۔ سامنے ہی طبی معاونین کا ایک ورک اسٹیشن کیمرہ اسکرین سے ہمہ وقت مریض کی حرکات کو مانیٹر کررہا تھا۔ مریض کے ہیڈ فون تک ہٹا دیے گئے کہ مبادا اس سے گلہ نہ گھونٹ لے۔

سب سے پہلے تو سرجن صاحب کا مریض کو فون آیا۔ وہ اپنے گھر پر تھے۔ کچھ دیر پہلے ہی ای میل میں یہ رپورٹ انہوں نے دیکھی تھی جس میں زندگی سے مایوسی کا اظہار کیا گیا تھا۔ آدھا گھنٹہ تک انہوں نے مریض سے اس کی کیفیت پوچھی۔ علاج معالجے کے حوالے سے بڑی پر مغزتسلی دی کہ علاج بالکل درست سمت میں جا رہا ہے۔ فون رکھنے کے بعد مریض اور اس کی والدہ صاحبہ کو اپنے سیل فون پر انہیں سرجن صاحب کا ایک ہی میسج ملا:

Consider this health issue a bend in the road not the end of the road. One year down and it all will be in rear view mirror.

(اپنی اس طبی تکلیف کو شاہراہ حیات کا ایک موڑ سمجھو نہ کہ اختتام۔ سال گرز جائے گا تو یہ سب کچھ آئینہ نمائے عقب میں آپ کو پیچھے چھوڑے ہوئے مناظر کے طور پر دکھائی دیں گے۔)

ڈاکٹر صاحب کا مکالمہ ختم ہوئے کچھ دیر ہوئی تو کمرے میں سب سے پہلے ہسپتال کے کلائون لونی لینی چلے آئے۔ آپ بھیجی جانے والی کمک کے لائن اپ کا اندازہ کریں۔ پہلے متعلقہ سرجن، پھر دلدار لینی۔

براڈوے نیویارک میں مہنگا علاقہ ہے۔ اکثر تھیٹر یہیں واقع ہیں۔ ہالی ووڈ کا بہت سا ٹیلنٹ انہیں تھیٹرز کی نرسریوں کا تربیت یافتہ ہے۔ اسکارلیٹ جوہانسن، جولیا رابرٹس، ڈینزل واشنگٹن، رچرڈ برٹن، یل برائنر، مارلن برانڈو کس کس کا نام لیں۔

 ہمارے اس وقت مریض کے وزیٹر لینی بادشاہ وہاں چھوٹے موٹے سیریس رول کرتے ہیں۔ لونی لینی چونکہ اپنے بارے میں ایسی کسی غلط فہمی کا شکار نہ تھے۔ خود ہی کہنے لگے کہ مجھے درجہ سوم یا کبھی کبھار چہارم کا اداکار سمجھیں۔ ہم نے پوچھا اول کا کیوں نہیں۔ کہنے لگے کہ کلائون دوسروں کو بے وقوف بنا سکتا ہے مگر خود کو کبھی بے وقوف نہیں بنائے گا۔ مجھے پتہ ہے میرا کیا مقام ہے۔ بات اچھی لگی۔ وضاحت کرنے لگے کہ مجھے ایک جگہ سے روزی کمانا اچھا نہیں لگتا۔ دن بھر میں میرا موڈ ایک جیسا بھی نہیں رہتا۔

ویسے میں Concept Photographer ہوں۔ شہروں کو دیکھنے کا میرا اپنا انداز اور ان کو برتنے کا میرا اپنا رنگ ہے۔ اس ادارے سمیت مجھے چند ہسپتالوں نے ہاسپٹل کلائون کے طور پر جز وقتی ملازمت دے رکھی ہے۔ Trained Magician  بھی ہوں۔ ہم نے محسوس کیا کہ اپنے حوالوں کے اعتبار سے حضرت اپنی Hospital Clown والی شناخت پر زیادہ نازاں دکھائی دیے۔ جتانے لگے کہ مجھے کھلکھلاتے بچے کی ہنسی سے مدھر اور سریلی دنیا میں کوئی اور آواز نہیں لگتی۔ میں یہاں اکثر مریضوں کی دل جوئی کے لیے آتا ہوں۔

لینی بادشاہ کمرے میں داخل ہوئے تو ان کی شخصیت کا اپنا ہالہ اور ان کی Vibes ہمیں ان کے حلیے اور کام سے بہت مختلف لگا۔

اس وقت مریض کے پاس افریقی ملک گھانا کی جواں عمر مسلمان نرس عفافہ کھڑی تھی۔ عفافہ کا مطلب ہے دوسرے شوہر کی پہلی اولاد۔ وہاں بولی جانے والی اسی زبانوں میں یہ کسی ایک زبان کا لفظ ہے۔ ہمارا دل والدہ کے بعد کے ازدواجی احساس پروگرام کی کھوج لگانے کا تھا مگر ماحول کی اجنبیت اور دست تہہ سنگ ہونے کی وجہ سے اجتناب کیا۔

افریقی نسل کی عفافہ کی فرض شناسی، خوش مزاجی اور صلاحیت پر آپ پاکستان کے دس بارہ ڈاکٹر قربان کر دیں تو یہ گھاٹے کا سودا نہ ہوگا۔ یوں بھی ہسپتال میں چار مریضوں پر ایک نرس کی اوسط ہے۔ اس کی اداس، فہمیدہ نگاہوں میں بلا کا ترحم اور تیمارداری ہے۔ کمرے میں بن آہٹ کسی ہمدرد تیندوے کی مانند آتی جاتی ہے۔ مریض سے اس کا مکالمہ اور اس کی توجہ ایسی ہے کہ اچھا خاصا انسان ان تعلقات کے بارے میں دھوکا کھا سکتا ہے۔

ہسپتال سے ہر دو تین دن بعد سستے اور خوش ذائقہ لنچ پر چلی جاتی ہے۔ مریض کو چونکہ پاکستان کا بنا ہوا ہرے رنگ کا آئس کریم سوڈا پسند ہے۔ یہ آئس کریم سوڈا امریکہ میں کوئی نہیں بناتا۔ اس کے پسندیدہ Pizza Joint کے قریب واقع یہ چھ ڈبوں کا یہ کارٹن ایک بنگالی اسٹور پراچانک دکھائی دیا تو مان لو اسے تابوت سکینہ مل گیا۔ یہ کارٹن ہی اپنے پانچ ڈالر سے خرید لائی۔ مریض کو کہنے لگی بے بی آخر کار مجھے تمہارا پاکستانی سبزکوکا کولا مل گیا۔ پیو اور جیو۔

ہم اس کے لیے یہاں سے چاندی کی پائلیں لے گئے تھے۔ بمشکل قبول کیں۔ ہم نے کہا ان کو پائل کہتے ہیں۔ مریض نے ضد کی نہیں یہ جھانجر ہے۔ بے چاری کنفیوز ہوگئی

عید ملن پارٹی میں ایک پائل تندرست، چمکیلے، گول، سیاہ بازو پر باندھی تھی اور دوسری ایک سیاہ ڈوری سے پیشانی پر۔ ہم نے پوچھا کہ یہ کیا حرکت کی۔ کہنے لگی کوئی پوچھتا تھا کہ ایک ماتھے پر کیوں باندھی ہے دوسری بازو پر۔ جواباً بتاتی تھی کہ سر پر باندھو تو جھانجر کہلاتی ہے۔ پیر میں باندھو تو پائل۔ کہنے لگی شکر ہے سب ہمارے طرف والیاں تھیں۔ کوئی انڈین نہ تھی ورنہ میرا مذاق بنتا۔

 اپنے جادوئی کھیل کرتب دکھا کر لینی بادشاہ مریضوں کے دل کا بوجھ ہلکا کرتے ہیں۔ ہمارے اپنے اداس اور دل گرفتہ مریض کا رخ مغموم دیکھا تو پوچھنے لگے مسکراتے کیوں نہیں۔ بلاوجہ ہی مسکرایا کریں۔ جانے کیوں نیک دل عفافہ کو یہ مشورہ پسند نہ آیا۔ گفتگو کے فن سے بخوبی آشنا تھی۔  براہ راست اس کے مشورے کو رد کرنے کی بجائے لینی سے کہنے لگی کہ’’ بلاوجہ مسکرانا تو منافقت ہوگی۔ ایسی فیک مسکراہٹ کا کیا فائدہ۔ لینی کہنے لگے مسکراہٹ کیسی بھی ہو، خوشیوں کی علامت ہوتی ہے۔ There can never be a fake smile.۔ ہونٹوں اور آنکھوں میں شرارتی مسکراہٹ لیے کہنے لگی

 فرض کریں راہ میں مجھے دیکھ کر کوئی جھوٹی موٹ مسکرائے تو کیا یہ اچھی بات ہوگی؟‘‘۔ لینی بادشاہ کے فلسفیانہ مزاج اور حس مزاح کی تحریک و توضیح کے بارے میں ہماری جو ابتدائی Vibes تھیں۔ ان کی تصدیق ان کے اس جواب سے ہوگئی۔ عفافہ کو کہنے لگے ’’فرض کریں کہ میرے پاس دو چوائسیز ہوں کہ میں راہ کی ملاقات میں آپ کی جانب سچی حقارت و نفرت سے دیکھوں یا جھوٹی مسکراہٹ سے تو آپ کو کونسا عمل زیادہ اچھا لگے گا؟‘‘ عفافہ اس سوال کے لیے تیا ر نہ تھی اس لیے گھبراکر کہنے لگی ’’جھوٹی مسکراہٹ‘‘

لینی بادشاہ چاہتے تو بات یہاں ختم کر سکتے تھے۔ امریکہ میں بگ منی کے مرکز مین ہٹن میں ایک اشتہاری فرم کی کامیاب خاتون ڈائریکٹر کے شوہر ہونے کے ناطے یوں بھی وہ ہر حساب سے کامیاب، مختلف اور من موجی تھے۔ کہنے لگے’’ایسا کیوں ہے۔ آپ کو میں وضاحت کرتا ہوں۔ جب آپ سے نفرت اور حقارت کے جذبات رکھنے والا فرد آپ کی جانب دیکھ کر مسکراتا ہے تو آپ کی شخصیت کا اثر اسے اپنے Comfort Zone سے باہر کھینچ لاتا ہے۔ اس لیے تو اس نے اپنے تاثرات کا لبادہ بدلا ہے۔ یہ آپ کی جیت ہے اور اس کی خیر سگالی۔ مسکرانے سے معاشرے میں کڑواہٹ کم ہوتی ہے۔

 لینی چلے گئے تو عفافہ نے مریض کوبتایا کہ ڈاکٹر لیزلی پانچ منٹ میں آ رہی ہیں۔ نوجوان مریض نے بتایا کہ وہ دو دن پہلے بھی آئیں تھیں۔ آپ چوں کہ کسی دوسری جگہ ڈیوٹی پر تھیں لہذا ان کی آمد کے بارے میں آپ کو علم نہیں۔ ان کا حس مزاح بہت Highbrow  یعنی اعلی معیار کا ہے۔ عفافہ نے اس پر مسکراکر کہا  Bit Cutting Edge. (کاٹ دار)

ڈاکٹر لیزلی کی آمد چار اقدامات کے ایک مربوط سلسلے کی دوسری کڑی تھی

ان کا شمار نیویارک کی اہم pain management ڈاکٹرز میں ہوتا ہے۔ وہ درد پیدا کرنے والے عوامل کا جائزہ لے کر ان کے علاج کو مربوط بناتی ہیں۔ مریض کے دماغ پر اس معذوری نے بھی بہت منفی اثر ڈالا تھا کہ وہ دو ماہ سے چلنے پھرنے سے قاصر ہے۔ ڈاکٹر لیزلی جن کی آمد ایک جھونکے کے مانند تھی، پینتالیس برس سے کچھ اوپر کی خوش پوش اور انتہائی خوش مزاج خاتون تھیں۔ ان کا اپنا بیٹا بھی مریض کا ہم عمر ہے یہ بات ہمیں بعد میں معلوم ہوئی۔ مریض سے گفتگو میں اپنائیت اور توجہ کا وہ عالم اور لگاوٹ تھی جیسے ولیمے کے دن، دلہن کی دولہا پرہوتی ہے۔ یہ پیشہ ورانہ برتائو ہے۔ مریض سے بعد میں کبھی ملاقات ہوگی تو وہ بہت رسمی ہوگی۔ یہ لگائو اور اپنائیت تب اک نقش بر آب لگے گا۔ سب سے پہلے تو مریض کے گلے میں ہاتھ ڈال کر بیٹھیں اور کہنے لگیں مجھے ڈیٹ مارنے کے لیے لگتا ہے بہت بے تاب ہو مگر جان لو کہ  دو ماہ سےBraces میں جکڑی ہوئی تمہاری ٹانگ کو جب موڑا جائے گا تو بہت چیخیں نکلیں گی۔ سو

If you hug me , you are hugging an octopus

تمہارا ایک راز میرے پاس ہے۔ وہ میرے تمہارے درمیاں امانت ہے۔ میری گفتگو اس حوالے سے ہے۔ تم ذہین انسان ہو۔ سمجھ جائو گے کہ میں اس راز کے حوالے سے کیا بات کررہی ہوں۔ تمہارے بارے میں سب کہتے ہیں تم بڑی دلفریب شخصیت کے مالک ہو۔ ہمارے عملے کی آدھی خواتین تمہارے عشق میں گرفتار ہیں اور آدھا اسٹاف اپنے شوہروں سے طلاق لینے کا سوچ رہا ہے۔ ہماری امریکی لڑکیاں بہت معصوم اور شادی کی شوقین ہوتی ہیں۔ ان کو دھوکا مت دینا۔۔ چلو تمہیں تمہارے درد کااحوال سناتے ہیں۔

 ڈاکٹر لیزلی نے کہا کہ درد چار قسم کے ہوتے ہیں۔ سب سے پہلا .Personal Pain۔ آپ کے جسم میں کہیں درد ہے۔ کتنا درد ہے۔ کیسی تکلیف ہے؟ یہ صرف آپ ہی جان سکتے ہیں۔ اس Pain کا علاج سب سے آسان ہے۔ درد کی گولی کھا لی، ورزش کرلی، مساج کر لیا۔ سو گئے۔ درد غائب۔ اس کے بعد Emotional Pain۔ مجھے درد ہے۔ میری گرل فرینڈ کو، بیوی کو، باس کو میری کوئی فکر نہیں۔ ایک کرکے تینوں کو بدل لو۔ بدل نہیں سکتے تو موقع ملنے پر تم بھی ایسے ہی کمینے بن جائو کہ ان کو آئندہ اس بے حسی کی ہمت نہ پڑے۔ پرسنل سے یہ ذرا مشکل پھر بھی Managable Pain ہے۔

اس سے ذرا بڑھ کرPain۔ Social  ہے۔ گرل فرینڈ بھاگ گئی، بیوی کو غلطی کا احساس ہوگیا۔ اس کا پرانا عاشق کزن لوٹ آیا۔ تمہیں چھوڑ دیا۔ بنک خبیث نکلا۔ قرضے کی ادائیگی کے چکر میں ذاتی گھر قرقی ہوگیا۔ بڑے گھر سے کرائے کے چھوٹے گھر میں شفٹ ہونا پڑا۔ باس سے نہیں بنی۔ جاب بدلنا پڑا۔ اس Pain میں آپ کے پاس آپشن بہت ہیں۔ سب کا نعم البدل موجود ہے۔ ممکن ہے یہ پہلے جتنا من بھائونا اور آرام دہ نہ ہو مگر زندگی ہے تو سب کچھ بہتر ہونے کی امید ہے۔

سب سے برا Pain Existential ہوتا ہے، یہ سب سے برا اس لیے سمجھا جاتا ہے کہ اس کی کوئی  Location Physical نہیں۔ نہ ہی اس کا تمہارے موجودہ درد سے کوئی  جسمانی Connection ہے۔ جس ہستی سے تمہیں اس درد کو تم پر تھونپنے کی شکایت ہے وہ تم سے طاقتور بھی ہے اور دکھائی بھی نہیں دیتا۔ تم اسے نہ Sue کرسکتے ہو، نہ کوئی ملا، پادری اس کے بارے میں تمہاری شکایت پر کان دھرے گا۔ تم اپنا موازنہ کئی خراب لوگوں سے کرو گے تو زیادتی کا احساس اور بھی شدید ہو جائے گا۔ بہت سارے لوگ اس درد کی شدت اور اپنی بے چارگی کو اس لیے بھی زیادہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ اچانک ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اس سے جڑے مرض کے لیے علاج بھی مہنگا،  Debilitating (مفلوج کردینے والا) اور طویل ہوتا ہے۔ الجھن یہ ہے کہ ایسے ہر سانحے کے دوران ان کے پاس وقت بہت ہوتا ہے۔ وقت اور حالات کے اس تضاد کا ان پر اعصاب شکن نفسیاتی دبائو پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے ان کا اپنی ذات پر فوکس بہت بڑھ جاتا ہے۔ یہی وہ وجہ ہے جوآپ کی حساسیت میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔

دوران بیماری آپ کی ذہانت میں بھی اس لیے اضافہ ہوجاتا ہے کہ آپ غیر ضروری معمولات سے پرہیز کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ آپ کو ایک روحانی بلوغت کی جانب لے جاتا ہے۔ اصل مسئلہ لیکن وہاں سے شروع ہوتا ہے جب آپ میں یہ احساس اجاگر ہوجاتا ہے کہ آپ اپنے جسم پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔ اس جسم کے ساتھ ہسپتال میں جو بطور علاج سلوک ہو رہا ہوتا ہے اس کی وجہ سے مریض خود بھی اس بات کے قائل ہو جاتے ہیں کہ یہ کم بخت جسم ہے ہی اس لائق۔ ہسپتال کا اپنا ماحول روحانیت سے عاری ہوتا ہے۔ یہ سب مل کر ایک Dark Void پیدا کرتے ہیں۔ زندگی بے وقعت اور موت بھی ایک فوری علاج لگتی ہے۔ ہم سب نے ایسا نہیں ہونے دینا۔ آپ ہمارے پاس مرنے کی درخواست لے کر نہیں آئے تھے۔ آپ کی آمد اس ادارے میں جینے کے حوالے سے ہوئی تھی۔ ہم آپ کی زندگی کی بقا کے لیے آخری دم تک لڑیں گے۔ آپ کی جو ذہنی کیفیت مجھ تک آپ کے سرجن صاحب نے پہنچائی ہے وہ غیر حقیقی تو نہیں مگر قابل علاج ضرور ہے۔ ہم سب  آپ کو شاید ویسا تو نہ بنا سکیں جیسے آپ اس بیماری سے پہلے تھے مگر ہم سے مل کر آپ کو لگے کہ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔

اقبال دیوان
Latest posts by اقبال دیوان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اقبال دیوان

محمد اقبال دیوان نے جوناگڑھ سے آنے والے ایک میمن گھرانے میں آنکھ کھولی۔ نام کی سخن سازی اور کار سرکار سے وابستگی کا دوگونہ بھرم رکھنے کے لیے محمد اقبال نے شہر کے سنگ و خشت سے تعلق جوڑا۔ کچھ طبیعتیں سرکاری منصب کے بوجھ سے گراں بار ہو جاتی ہیں۔ اقبال دیوان نےاس تہمت کا جشن منایا کہ ساری ملازمت رقص بسمل میں گزاری۔ اس سیاحی میں جو کنکر موتی ہاتھ آئے، انہیں چار کتابوں میں سمو دیا۔ افسانوں کا ایک مجموعہ زیر طبع ہے۔ زندگی کو گلے لگا کر جئیے اور رنگ و بو پہ ایک نگہ، جو بظاہر نگاہ سے کم ہے، رکھی۔ تحریر انگریزی اور اردو ادب کا ایک سموچا ہوا لطف دیتی ہے۔ نثر میں رچی ہوئی شوخی کی لٹک ایسی کارگر ہے کہ پڑھنے والا کشاں کشاں محمد اقبال دیوان کی دنیا میں کھنچا چلا جاتا ہے۔

iqbal-diwan has 99 posts and counting.See all posts by iqbal-diwan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments