ماسٹر سارنگ شر کا زناٹے دار تھپڑ: مزا آیا؟


بچپن گزرا، فاروق قیصر کے پروگرام کلیاں میں طنز و مزاح بھرے فقرے سن کے، کچھ سمجھ میں آتے، کچھ نہیں۔ انکل سرگم اور ہیگا اشاروں کنایوں میں بہت سے اسرار و رموز کھولتے۔ گھر کے بڑے ہر لفظ پہ لوٹ پوٹ ہو جاتے پر ہم تو ایک ہی جملہ ازبر کیے بیٹھے تھے، “کر لو جو کرنا ہے”۔ بہت بعد میں پتہ چلا کہ معروف دانشور خالد احمد گزشتہ صدی کے آخری برسوں میں ہفت روزہ آج کل کی ادارت کر رہے تھے۔ ایک روز مالک اخبار کی بیگم کی طرف سے چینی اور کھانڈ کے مترادفات پر بلاوجہ کی توتکار سے تنگ آ کر خالد صاحب نے بھی کچھ اسی طرح کی چنوتی دی تھی، فرق صرف یہ کہ خالد احمد ہفت زبان ہیں۔ فاروق قیصر کے معصوم  مکالمے پر پنجابی محاورے کی دھار رکھ دی تھی۔

ہمیں یہ سب کچھ یاد آیا ہے وہ خبر پڑھ کے جس میں سندھ میں ایک استاد نے سو سے زیادہ بچوں کو نہ صرف جنسی تشدد کا شکار کیا ہے بلکہ ان کی وڈیوز بنا کر یاروں کی دل لگی کا اہتمام بھی کیا۔ یہ خبر پڑھ کے ایک طرف ہماری آنکھوں سے اشک بہتے ہیں تو دوسری طرف جی چاہتا ہے کسی دیوانے کی طرح پاکستانی معاشرے کی تعفن، سڑاند اور بے حسی پہ زور زور سے قہقہے لگائیں۔ قصور یاد آ گیا بھئی، بلھے شاہ کا شہر قصور!

ہم سوچوں کے بھنور میں الجھ کے اپنے آپ سے سرگوشی کرتے ہیں، کیا واقعہ قصور کے زخم مندمل ہو چکے؟ کیا کسی کو خبر کہ مجرموں کو سزا ملی کہ نہیں؟ کیا انہیں نشان عبرت بنایا گیا کہ کوئی پھر سے یہ جرات نہ کرے۔ کیا کسی کو یہ علم ہے کہ ان بچوں کی ذہنی یا جسمانی کیفیت کو بہتر بنانے کے لئے کچھ اقدام ہوئے کہ نہیں؟ ان بچوں کی بھرے بازار میں جسم کی تذلیل بھری خرید و فروخت نے کیا معاشرے کو کچھ سوچنے اور کچھ سیکھنے پہ مجبور کیا؟

جانتے ہیں یہ اشک بھرا بے بس زہرخند ہمارے چہرے پہ کیسے اترا؟ ہمیں “ہے گا ” یاد آ گیا اور ہم نے ہے گا اور ماسٹر سارنگ کے درمیان پایا جانے والا تعلق ڈھونڈ لیا۔ ماسٹر سارنگ شر ہمارے معاشرے کا خوب نباض نظر آتا ہے، یہ بربریت بھرا کھیل کھیل کے اس نے انتہائی سفاکی سے سب سے کہہ دیا ہے “کر لو جو کرنا ہے” کیونکہ سارنگ جانتا ہے کسی نے، کہیں بھی، کچھ نہیں کرنا۔

سارنگ کی جڑیں اس زمین میں گہری ہیں سو اچھی طرح جانتا ہے کہ اس سارے قضیے میں کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ کچھ دن ایسے گزریں گے جیسے باسی کڑھی میں ابال آ جائے۔ ہمارے جیسی کچھ بد دماغ موم بتی والی عورتیں روئیں پیٹیں گی، آسمان سر پہ اٹھائیں گی، کچھ انسانی حقوق والے آ جائیں گے۔ ان کے شور وغوغا کے نتیجے میں کچا پکا کیس بنایا جائے گا، بیان داغے جائیں گے، پھر دھول بیٹھ جائے گی اور لوگ باگ زندگی کے دوسرے طوفانوں کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔ لیجیے جناب کہیں نہیں ہے، کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ، سارنگ اور سارنگ جیسے کئی اور کھل کھیلنے کو پھر آزاد۔

سارنگ مذہبی مدرسوں میں مروج علت مشائخ سے بھی واقف ہے۔ اسے معلوم ہے کہ عالمی شہرت یافتہ مقتول عالم دین کا پوسٹ مارٹم کیوں نہیں کروایا جاتا؟ سارنگ چہرے پہ مکروہ ہنسی سجائے سوچتا ہے کہ جب اس حمام میں سبھی کا رنگ ڈھنگ سارنگ جیسا ہی ہے تو اسے کیا فکر؟ اسے علم ہے کہ کوئی مولانا طارق جمیل، کوئی مولوی عبدالعزیز، کوئی خادم رضوی یا قبیلے کا کوئی اور ملا جمعے کے خطبے میں اس بات کو اپنا موضوع نہیں بنائے گا کہ خدارا ننھی جانوں پہ یہ عذاب اتارنا بند کر دو۔ کوئی تبلیغی جماعت گھر گھر جا کے یہ پیغام نہیں پھیلائے گی کہ بچوں کی معصومیت اور زندگی سے کھیلنا چھوڑ دو۔ کوئی آپا فرحت ہاشمی اپنے وڈیو کلپس میں اس ناسور کی طرف اشارہ نہیں کریں گی کیونکہ ان کا کام صرف عورتوں کو بلا مشروط اطاعت کی دوا پلانا ہے۔

بہت برس گزرے، ہم گوجرانوالہ کے ایک دیہی ہسپتال میں تعنیات تھے۔ کار سرکار سے ہمارا تعلق تو بس اتنا ہی تھا جتنا ہماری سرکار کا رعایا کی صحت سے ہو سکتا ہے البتہ ہمارے صاحب ریاست کے بازوئے شمشیر زن سے تعلق رکھتے تھے۔ سو افسر شاہی کے حلقوں سے کچھ ربط ضبط رہتا تھا۔ اس زمانے میں ضلع کے ایک بڑے پولیس افسر سے معنی خیز انداز میں سننے کو ملا کہ کم سن بچوں کے ساتھ زیادتی کا معاملہ سامنے آتے ہی شہر کے اصحاب زہد و اتقا ملزم کی اعانت کو یوں دوڑے چلے آتے ہیں جس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ معاملہ محض اقربا پروری کا نہیں، ہم مشرب و ہم خصلت کا دفاع کر کے اپنے دمدمے محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔

سارنگ سمجھتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں مغرب کے جنسی طور اطوار کے خلاف تقریریں جھاڑنے والے، اپنے آپ کو گنگا جل سے دھلا ہوا جانتے ہیں اور اپنے اطراف کی گندگی سے منہ موڑ کے زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔ جس ملک کو اسلام کا قلعہ قرار دیا جاتا ہے، جہاں پنجگانہ اذانوں کی گونج میں دن گزرتا ہے، جہاں کوئی گلی، کوئی قریہ مسجدوں سے خالی نہیں، وہاں سندھ کے شہر خیر پور، پنجاب کے شہر قصور اور پختونخوا کے شہر بنوں سمیت ان گنت شہروں اور قصبوں کے بے شمار مظلوم اور گمنام بچوں پہ کیا گزرتی ہے یہ کسی کا درد سر نہیں۔ ثواب کی پوٹلیاں بھاری کر کے جنت کے بیع نامے اور حوروں کے وعدے منبر سے مسلسل جاری ہیں۔ سو جن جن گھروں میں آگ لگی وہ جانیں اور ان کے بچے۔

سارنگ جانتا ہے کہ ریاست مدینہ کا پرچار کرنے والوں کی نظر میں چھوٹے چھوٹے شہروں کے بے کس و مجبور بچوں کا المیہ اتنا اہم نہیں کہ ان کی زبان سے حرف افسوس جاری ہو اور انصاف کئے جانے کا حکم سنائی دے۔ وہ ان والدین کا درد کیسے جان سکتے ہیں جن کے اپنے بچے بہت دور محفوظ ماحول میں پرورش پاتے ہوں۔ ویسے کسی کو یاد دلا دینا چاہیے کہ ریاست مدینہ کو چلانے والے ایک کتے کے پیاسے رہ جانے کی جوابدہی سے لرز اٹھتے تھے۔ مگر شاید یہ بچے ان کتوں جیسا مقام بھی نہیں رکھتے۔

سارنگ بخوبی سمجھتا ہے کہ جن گھروں کے یہ بچے ہیں وہاں کثرت اولاد نے ان کی اہمیت نالی میں رینگنے والے مکوڑوں کی سی بنا دی ہے۔ جتنے چاہو، جیسے چاہو، مسل دو، کوئی گریبان پہ ہاتھ نہیں ڈالے گا۔ ملا کی آشیرباد تلے ان افزائش نسل کے کارخانوں کو کم بچے پیدا کرنے کا خیال دیوانے کی بڑ نظر آتا ہے جو ہم جیسے خبطی لنڈے کے لبرلز پھیلاتے ہیں۔ دنیا میں ان کے قبیلے کا غلبہ تبھی ہو سکے گا جب توپوں کے لئے چارہ بننے والا ہجوم پیدا ہو گا۔ یہ ننھے منے معصوم مجاہدین اس اعلیٰ منزل تک پہنچتے پہنچتے کیسے داغ داغ ہوتے ہیں، کیسے لہو روتے ہیں، یہ تو ملا کا مسئلہ نہیں۔

سارنگ یہ بھی جانتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی آنکھ تب ہی کھلتی ہے جب متاثرین کی تعداد سو سے اوپر نکل جائے۔ دس بیس بچوں کی ابتلا سے ان کے پائے غرور میں لرزش پیدا نہیں ہوتی۔ سو سارنگ کھیلتا ہے اور کھل کھیلتا ہے۔ کسی ایک جگہ شکایت ہوتی ہے تو اندراج ہی نہیں ہوتا، اندراج ہوتا ہے تو دفعہ کمزور اور کہیں کہیں تو معاملہ ہی دبا دیا جاتا ہے۔

ملا کی سجھائی ہوئی راہ تقلید پہ اعتماد ہی اس قدر ہے کہ جو چاہے کر گزرو، ریاکاری کے پانی سے دھل کر ایسے ہوں جائیں گے جیسے ماں کے پیٹ سے نکلا بچہ!

ہم آسمان کی طرف نظر اٹھا کے کراہتے ہیں، خداوندا، کیا یہ گناہ بھی؟ بخدا اگر ہمارے کوکھ جنے کے ساتھ ایسا ہوا ہو تو ہم انصاف والے دن مجرم کو کسی صورت معاف نہیں کر سکتے۔ ہم استاد ہونے کے ناطے سارنگ کی قبیح ذہنیت پہ انتہائی دل گرفتہ ہیں۔ ہم جو بائیس چوبیس سالہ باریش طالب علموں کو اسی نظر سے دیکھتے ہیں جیسے حیدر میاں دکھتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھ ہی نہیں آ رہی کہ زندگی کی تمام علتوں سے بے خبر، اس سفر کا آغاز کرنے والے معصوم پرندوں کی معصومیت کو تباہ کرنے والے کو کیا سمجھیں؟

ایک خواہش ضرور بیدار ہوتی ہے کاش کوئی ان سب سے جو میرا جسم میری مرضی والے نعرے پہ تاؤ کھا جاتے ہیں، یہ ضرور پوچھ لے کہ کیا اگلی دفعہ عورت مارچ پہ ایسا نعرہ لگانے کی اجازت ہے؟

میرا جسم ، ماسٹر سارنگ کی مرضی!

میرا جسم، تھانےدار کی مرضی!

میرا جسم، وڈیو بنانے والے کی مرضی!

میرا جسم، وڈیو دیکھ کے دل پشوری کرنے والے کی مرضی!

میرا جسم، ریاست کے اہلکاروں کی مرضی!

میرا جسم، جنت کے خواہشمند والدین کی مرضی!

میرا جسم، جہاد کی بھرتی کروانے والے مولویوں کی مرضی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments