گریش کرناڈ: طاق میں چراغ
گریش کرناڈ کو رخصت ہوئے سال بھر سے زیادہ کا وقت گزر گیا۔ ’’زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی…‘‘ اگر محمود الحسن (لاہور) نے ایک دھندلی ہوتی ہوئی یاد کی طرف توجہ نہ دلائی ہوتی۔ جنوبی ہندوستان کے کئی مشہور لکھنے والوں سے دور اور پاس کا تعلق رہا۔ ایپاپنکر، سچدا نندن، سلمیٰ، یو آر اننت مورتی، گریش کرناڈ۔ اپنے رہن سہن، وضع قطع، بات چیت اور مزاج کے اعتبار سے ان میں اور شمالی ہندوستان کے ادیبوں میں بہت نمایاں فرق ہے۔ کیرالا، تمل ناڈ، کرناٹک کے ادیبوں میں سادگی، طبیعت کا دھیما پن، مصوری، موسیقی، رقص اور تمام فنون سے شغف بہت ہے۔ تصنع نام کو نہیں۔ گریش کرناڈ اور اننت مورتی کا تعلق کرناٹک سے تھا۔ انگریزی پر اہل زبان جیسی گرفت، مگر دونوں نے ادب میں ذریعہ اظہار اپنی مادری زبان کنڑ (Kannada )کو بنایا۔ دونوں فرقہ پرستی، تعصب اور معاشرتی تقسیم اور تصادم کے خلاف، روز بروز پھیلتے ہوئے اندھیرے میں روشنی کی علامت تھے۔ ضمیر کی آزادی کے علم بردار، بغیر کسی جھجک اور خوف کے اپنی بات کہنے والے۔ اننت مورتی جن کا ناول ’سنسکار‘ جدید دور کے ہندوستانی فکشن میں ایک کلاسیک کی حیثیت رکھتا ہے۔ (اس ناول پر فلم بھی بن چکی ہے اور اردو میں ترجمہ کیا جا چکا ہے) وہ بھی اس قبیل کے انسان تھے۔ اننت مورتی اور گریش، دونوں ادب اور اخلاق، سیاست اور اخلاق کے تعلق میں گہرا یقین رکھتے تھے۔ دونوں معتوب ہوئے، دونوں نے کیریئر کے لحاظ سے ممتاز اور معروف سطحو ں پر زندگی گزاری، دونوں کا شمار ہمارے دور کے سب سے بااثر پبلک انٹلکچوئلز میں کیا جاتا ہے۔
اننت مورتی کی دوستی انتظار صاحب سے بھی تھی اور وہ بھی انتظار صاحب کے ساتھ بکرز کے لیے شارٹ لسٹ ہوئے تھے۔ آصف فرخی نے ’’سفر کے خوش نصیب ‘‘ میں ان کا تفصیلی ذکر کیا ہے۔ دیار مغرب میں جب اننت مورتی اور انتظار والہانہ انداز سے گلے ملے تو سب کو حیرت ہوئی کہ بظاہر ایک دوسرے کے حریف ملکوں سے تعلق کے باوجود، یہ کیسی محبت ہے؟ گھر پر لڑتے ہیں، باہر محبت کرتے ہیں۔ گریش کرناڈ سے بھی انتظار صاحب کی پرانی ملاقات تھی۔ دونوں میں تخلیقی رویے کی سطح پر خاصی مماثلت ہے۔ ٹامس مان کی کہانی The Transposed Head سے دونوں نے استفادہ کیا ہے۔ انتظار حسین نے نرناری میں اور گریش کرناڈ نے ہیاوادن میں۔ ان کے متعدد ڈراموں کے ترجمے دیسی بدیسی زبانوں میں کئے جا چکے ہیں۔ ان میں اردو بھی شامل ہے، تغلق کی وجہ سے۔ اردو میں یہ ڈرامہ آصف فرخی نے منتقل کیا تھا۔ گریش کو کچھ لوگ اپنے زمانے کے ہندوستان کا سب سے اہم اور بڑا ڈرامہ نویس کہتے ہیں جس نے دیومالا اور تاریخ کو اس دور کے معاشرے اور مسائل کی فنکارانہ پیشکش کا وسیلہ بنایا۔
گریش کرناڈ کی شہرت کا آغاز ان کے ڈرامے ’ییاتی‘ سے ہوا تھا۔ مہا بھارت کے اس معروف کردار کو انہوں نے انسان کی کبھی نہ ختم ہونے والی ہوس پرستی کی علامت کے طور پر دیکھا ہے۔ اس طرح دو زمانے ایک مرکزپر سمٹ آئے ہیں اور وقت، مقام کی قید سے آزاد ایک لازوال سچائی کے بیان کا وسیلہ بن گئے ہیں۔ اسی کردار کو مرکز میں رکھ کر رام چندرن نے چار مہیب پینلز پر مشتمل اپنا میورل ییاتی خلق کیا تھا جس کی نمائش عالمی پیمانے پر کی گئی، ابراہم القاضی کی طرف سے، اب یہ مہیب میورل نیشنل گیلری آف ماڈرن آرٹ، نئی دہلی کی ملکیت ہے۔ بلراج مین را نے میورل کی تکمیل کے موقع پر اپنے جریدے شعور کی طرف سے رام چندرن کی ڈرائنگز پر مشتمل ایک کتابچہ شائع کیا تھا۔
گریش کرناڈ سے میری ملاقات ایک اتفاق کا نتیجہ تھی۔ کوئی بتیس تینتیس برس پرانی بات ہے۔ وہ اپنی دو دستاویزی فلمیں بنا رہے تھے Lamp in A Niche اور The World is a Bridge ۔ ان میں پہلی فلم تصوف پر تھی، دوسری بھکتی کے موضوع پر۔ ایک صبح ان کا فون آیا کہ ملنا چاہتے ہیں۔ شاید اسی روز شام کا وقت طے ہوا۔ وہ آئے۔ اپنی عام روش کے مطابق کھادی کے کرتے پاجامے میں ملبوس، پسینے میں شرابور۔ تصوف والی فلم کے سلسلے میں انہیں کچھ مدد چاہیے تھی۔ کچھ شوٹنگ دلی میں مہرولی کے علاقے کی، کچھ بستی حضرت نظام الدین اور چراغ دلی کے آس پاس ہونی تھی۔ اس کے بعد آگرہ، فتح پور سیکری اور اجمیر شریف جانا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ اس سفر کے دوران میں ساتھ رہوں۔ فلم کا سکرپٹ شمع زیدی نے لکھا تھا۔ پروگرام طے ہونے کے بعد کام شر وع کیا گیا، حضرت خواجہ بختیار کاکی کے مزار اور قطب مینار کے علاقے سے جو دور دور تک حیرت انگیز آثار سے بھرا ہوا ہے۔ (اناماری شمل Annemarie Shimmel ) اپنے لیکچرز کے دوران قطب مینار کو ہمیشہ اپنا محبوب (My Beloved Qutab Minar ) بتاتی تھیں۔ سو سیڑھیوں سے بنے ہوئے مینار کا حسن ایک لازوال صلابت اور شکوہ رکھتا ہے۔
گریش کرناڈ کے مزاج میں ایک عجیب غریب سادگی اور کام کرنے کے انداز میں ڈسپلن بہت تھی۔ وہ بڑے اور اہم مناصب پر فائز رہے۔ جہاں بھی رہے نیک نام رہے۔ پونا فلم انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر، انگلستان میں نہرو انٹرنیشنل سینٹر کے سربراہ، سنگیت ناٹک اکیڈمی کے صدر، مغرب کی کئی یونیورسٹیوں میں وزٹنگ پروفیسر، مگر راہ چلتے پہچان لیے جانے کے باوجود کوئی ناز نخرہ نہیں، کوئی تصنع اور نخوت نہیں۔ کوئی ہائو بھائو نہیں۔ عام انسانوں سے انہی کی سطح پر ملنا اور بے تکلف باتیں کرنا اور کیسی بے مثال! گونجیلی آواز! ہم صبح سویرے مہرولی کی طرف چل پڑتے تھے تاکہ دھوپ میں تیزی آنے سے پہلے اپنا کام پورا کر لیں۔ کسی کتبے یا پتھر کا ایک چھوٹا سا شاٹ لینے سے پہلے بھی وہ اپنے آپ کو پوری طرح مطمئن کرنا چاہتے تھے۔ اس کا مفہوم کیا ہے؟پس منظر کیا ہے؟ … عمر کیا ہے؟ قطب مینار کے اطراف آج بھی ایک ایک گم گشتہ زمانے کا اور مہرولی کی آبادی میں ایک کھوئی ہوئی دلی کا سراغ ملتا ہے۔اپنی فلم میں انہوں نے دونوں کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔
مہرولی کے بعد بستی حضرت نظام الدین، حسن ثانی نظامی صاحب کا گھر، قرۃ العین حیدر کے، لفظوں میں مرحوم دلی کی بھولی بسری روایات کا آخری مرکز ! وہاں دو تین روز کی مصروفیت تھی۔ گریش کو حیرانی اس بات پر ہوئی کہ حسن ثانی صاحب صبح کے ناشتے پر بھی اصرار کرتے تھے۔ اپنی وضع اور روایت کے مطابق ان کا اہتمام بھی زبردست ہوتا تھا۔ پہلی صبح ہم وہاں پہنچے تو حسن صاحب کے ایک خدمت گار نے ہمیں بیٹھتے ہی ایک سینی میں ناشتہ لا کر رکھ دیا … دلی کا روایتی قورمہ اور چپاتیاں۔ گریش بلاتکلف بیٹھ گئے۔ چند منٹ بعد حسن صاحب آئے اور یہ منظر دیکھا تو اپنے ملازم سے خفا کہ اس نے ان کے عام مریدوں کے لیے بھاری مقدار میں تیار کیا جانے والا ناشتہ لا کر رکھ دیا تھا۔ دیر تک معذرت کرتے رہے، پھر سب کو ساتھ لے کر ایک الگ کمرے میں داخل ہوئے۔ وہاں میز انواع و اقسام کے پکوانوں سے آراستہ تھی … حلوے، پراٹھے، کباب، کوفتے، پھل، مٹھائیاں … گریش یہ سب دیکھ کر بس مسکرائے اور بیٹھ گئے۔ ان کے لیے یہ اتفاق ایک معاشرتی تجربہ بھی تھا۔
آگرہ، فتح پور سیکری اور اجمیر شریف کا سفر، ایک الگ قسم کا تجربہ تھا۔ راستے میں جگہ جگہ ڈھابے۔ ہم بالعموم وہیں کہیں رک کر کھانا کھا لیتے تھے۔ کھانے کے معاملے میں گریش کا مزاج بھی انتظار صاحب جیسا تھا۔ ڈھابوں میں آلو گوبھی کے پراٹھے سے لے کر کھوئے کے پراٹھے تک، ہر قسم کی بدپرہیزی کا سامان ملتا تھا۔ ایک بار بستی نظام الدین میں انتظار صاحب اور میں ٹہل رہے تھے۔ رات کے کوئی آٹھ بجے۔ بھوک محسوس ہوئی تو وہیں ایک ہوٹل میں کھانا کھا لیا۔ وہاں سے نکلے تو حلوے پراٹھے کی دکان پر نظر پڑی۔ انتظار صاحب نے کہا … کھانا ہمیں یہاں کھانا چاہیے تھا۔ تو گریش کرناڈ کا بھی یہی حال تھا۔ جو سامنے آیا، کھا لیا۔ کہیں کوئی تکلف نہیں، بس منہ کا مزہ نہ بگڑے۔
اجمیر شریف میں ہمارے علی گڑھ کے فارغ التحصیل ایک دوست وہاں کے گدی نشینوں میں تھے۔ انہوں نے گریش کرناڈ کے لیے درگاہ کے پرانے تبرکات کی فلم بندی کا انتظام بھی کردیا۔ مگر پہلی ہی صبح کو ایک انوکھا تماشا سامنے تھا۔ کیا دیکھتے ہیں کہ گریش سر پر ایک بڑے سے ٹوکرے میں، پھولوں سمیت، ریشمی چادر اور غالباً نذرانے کا لفافہ لیے ہوئے چلے آرہے ہیں۔ میں نے کہا، یہ کیا؟ بولے۔ شمیم صاحب رسم تو نبھانی ہی چاہیے، پھر متین صاحب (ہمارے دوست)… کچھ کہتے کہتے رک گئے۔
درگاہ شریف کے صحن میں مغلیہ عہد کے دو عظیم الجثہ دیغوں (دیگوں) میں زائرین اپنے نذرانوں کی رقم ڈالتے رہتے ہیں۔ شام تک کوئی کہتا ہے ہزاروں، کسی کا اندازہ یہ ہے کہ لاکھوں جمع ہو جاتے ہیں۔ انہیں دیغوں میں لنگر کا کھانا پکتا ہے۔ لنگر کی تقسیم کا منظر بہت دل خراش ہوتا ہے۔ دھکم پیل، شور شرابہ اور کچھ سخت کلامی کا سلسلہ، آپس میں ناقابل بیان بے تکلفی، غرضیکہ اس منظر کو کیمرے میں منتقل کرتے وقت گریش کرناڈ اور ان کی پوری ٹیم بہت بدحظ ہوئی۔ اس آزمائش سے نکلنے کے بعد گریش نے کہا۔ اس کے لیے تو ہمیں ’کچھ اور انتظام کرنا ہو گا‘۔ کچھ اور انتظام سے مراد یہ کہ چالیس پچاس افراد کے لیے کھانے کا الگ سے انتظام ہو، بطور لنگر۔ متین صاحب نے سارا انتظام کر دیا۔ ایک حجرے میں لنگر کا کھانا ہوا، خاموشی کے ساتھ۔ گریش کرناڈ کو الجھن اس بات کی تھی کہ ان کی فلم میں لنگر کی تقسیم کے منظر سے عام دیکھنے والے، جو تصوف اور درگاہوں کی روایت سے، رسموں سے واقف نہیں، بدمزہ نہ ہوں۔ گریش کرناڈ اسی فلم کے سلسلے میں کسی ’زندہ صوفی‘ سے ملنے کے متمنی بھی تھے۔ میں نے کہا، زیادہ تو بہروپیے ہیں، ہاں دلی میں ایک بزرگ ہیں، زید ابوالحسن فاروقی صاحب، نقشبندیہ سلسلے کے بزرگ۔ وقت طے کرنے کے بعد ہم نے ان کی خانقاہ کا رخ کیا۔ ترکمان گیٹ کے قریب اس گلی میں جہاں رضیہ سلطانہ کی قبر ہے۔ یہ خانقاہ بھی اپنے آپ میں ایک دنیا ہے۔ زید میاں کے حجرے کے سامنے مرزا مظہر جان جاناں کی قبر، کچھ اور قبریں۔ ایک بیش قیمت کتب خانہ۔ ہر طرف خاموشی اور پاکیزگی۔ اس فضا کو بہت خوبصورتی کے ساتھ فلمایا گیا۔
گریش کرناڈ ہمارے زمانے کے سب سے روشن خیال، بے تعصب اور روادار انسانوں میں تھے۔ مسلمان اقلیت جن حالات سے دوچار ہے، اس سے گریش بہت فکرمند تھے۔ گوری نیکش کی ہلاکت سے پہلے تین معروف دانش وروں اور اساتذہ کا (پروفیسر پنسارے، پروفیسر دھایولکر، پروفیسر کال برگی) یکے بعد دیگرے قتل اور روز بروز بگڑتے ہوئے ماحول سے پروفیسر اننت مورتی اور گریش کرناڈ، دونوں بہت دل گرفتہ تھے۔ دونوں نے زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھائی، دونوں سماجی سطح پر سرگرم رہے۔ دونوں کو بہت خراب حالات سے گزرنا پڑا۔ دونوں نے کیا کچھ نہ سہا۔ مگر اپنے ضمیر اور اظہار کی آزادی کا سودا نہ کیا۔
گریش کرناڈ سے پہلے اننت مورتی رخصت ہوئے۔ ان کے مخالفین نے انہیں ہوائی سفر کا ٹکٹ بھیج دیا تھا کہ اگر یہاں رہنا انہیں پسند نہیں تو جب چاہیں یہاں سے پڑوس کے ملک منتقل ہو جائیں۔ طعنے، تشنے، گالیاں، دھمکیاں، آئے دن کا قصہ۔ روشن نظری اور رواداری کے لیے یہ زمین بہت تنگ ہے، ادھر بھی اور ادھر بھی۔ ہماری دنیا ایک نئے دور، ظلمت کے دائرے میں داخل ہو چکی ہے۔
اور گریش کرناڈ نے تو ہمیشہ زندگی کا وہ انداز اختیار کیا جب بہرحال نامقبول ہونا تھا۔ انہوں نے ٹیگور کے بارے میں اپنی یہ رائے کبھی نہیں چھپائی کہ وہ ڈرامہ نگار دوئم درجے کے تھے۔ اسی طرح نائیال کو نوبیل انعام ملنے پر انہوں نے بیباکانہ کہا کہ جو ادیب کسی خاص قوم یا فرقہ کو مسلسل تعصب اور نفرت کا نشانہ بناتا چلا آرہا ہے (اپنی دونوں متعلقہ کتابوں Among the Believers اور Inside Islam میں) اسے اس (عالمی) اعزاز کا حق نہیں پہنچتا۔ بنگلور ایئرپورٹ کو وہ ٹیپو سلطان کے نام سے منسوب کرنا چاہتے تھے۔ زندگی کے بہت سے معاملات میں اجتماع کے بالمقابل ایک اکیلی اواز سچائی کی آواز ہوتی ہے، مبنی برحق اور معقول۔
انسانی تعلقات کی سطح پر گریش کرناڈ ہمیں پرانے دور کی شرافت، وضع داری اور رکھ رکھائو کی یاد دلاتے تھے۔ ہمارا ملنا جلنا زیادہ نہیں تھا، اکا دکا خط اور گھریلو تقریبات میں شرکت، مگر ان تمام آداب اور روایات کے ساتھ جواب ماند پڑتی جا رہی ہیں۔ انہیں ہماری مشترکہ تاریخ سے، طرز زندگی سے، زبان اور کلچر سے غیر معمولی دلچسپی تھی۔ انہیں اپنی قدیم روایت، دیومالا، فکری اور تہذیبی میراث کے ساتھ ساتھ انسان دوستی اور عقلیت پسندی کے نئے میلانات سے بھی قلبی تعلق تھا۔ اس شیرازے کو بکھرتے ہوئے دیکھنا اتنا ہی غم آلود تجربہ تھا جتنا گھر کے طاق میں رکھے ہوئے چراغ کا ناوقت بجھ جانا۔ مگر آندھی میں اپنے چراغوں کی حفاظت کہاں تک کی جا سکتی ہے۔ سو، گریش کرناڈ بھی ایک پرچھائیں کی طرح بالآخر چپ چاپ چلے گئے۔
ہمارے مشترکہ ماضی میں ہندوستانی ڈرامے کی تاریخ بہت شاندار رہی ہے۔ اس تاریخ کو جاننے والے کہتے ہیں کہ گریش کرناڈ، کالی داس کے بعد ہمارے سب سے بڑے ڈرامہ نگار تھے ! زمانے کو ابھی ان کی ضرورت تھی …
(محمود الحسن کی فرمائش پر، ہم سب کے لیے)
- شہر مدفون کی ایک گلی اور حسن کوزہ گر - 13/05/2023
- یہ کوئی کتاب نہیں - 30/04/2022
- مسعود اشعر: اپنے آپ کو کہانیاں سنانے والا - 05/07/2021
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).