والدین اور خدا، ایک رشتہ ایک تشبیہ


کبھی آپ نے غور کیا کہ اللہ نے دنیا میں صرف دو ہستیوں کو اپنے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ ماں اور باپ۔ ماں کا ذکر کیا تو جنت ماں کے قدموں تلے رکھ دی اور جب اپنی محبت کا ذکر کیا تو کہا کہ میں اپنے بندوں کا ستر ماؤں سے زیادہ چاہتا ہوں۔ باپ کا ذکر کیا تو باپ کی رضا رب کی رضا اور باپ کی ناراضگی رب کی ناراضگی بنا دی۔

اس بات کا احساس تو مجھے کافی وقت سے ہے کہ دنیا میں والدین سے بڑھ کر انسان کے لئے کوئی تحفہ نہیں ہو سکتا مگر پردیس آنے کے بعد یہ احساس شدت پکڑتا گیا۔ اگر میرے باپ کی تربیت میں باہمت رویہ نہ ہوتا تو پردیس میں اکیلے رہنا سچ میں ”خالہ جی کا گھر نہیں“ ۔ جہاں یہ سچ ہے کہ پردیس آپ کو بہت کچھ سکھاتا ہے یہ بات بھی کافی حد تک درست ہے کہ ایسی سیکھی چیزیں جو آپ کو ساری زندگی کام نہیں آتیں پردیس میں کام آتی ہیں۔

میں اب اکثر یہ سوچتی ہوں کہ اگر میری ماں نے کفایت شعاری اور سلیقہ مندی میری تربیت کا حصہ نہ بنائی ہوتی تو پردیس میں محدود وسائل کے ساتھ معیاری زندگی گزارنا آسان نہیں تھا۔ یہاں یہ واضح کرتی چلوں کہ میرے لئے یہ دونوں صلاحیتیں انہی صلاحیتوں میں سے ہیں جن کا میں نے ساری زندگی کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔ اگر والدین تربیت میں ثابت قدمی اور مضبوط قوت ارادی شامل نہ ہوتی تو شاید میں بھی وقت کی رو میں بہہ نکلتی۔ یہ میری کتھا نہیں بلکہ میری طرح کہ بہت سے پردییسیوں کی کتھا ہے۔ ہمیں منزل پر پہنچنے کی فکر کے ساتھ ساتھ بنیاد کے ساتھ وابستگی کی ذمہ داری بھی نبھانی ہے۔

ان تجربات کا براہ راست سامنا آپ کا ایمان مضبوط کردیتا ہے۔ بہت بار آپ کو احساس ہوتا ہے کہ کیوں خدا نے ماں باپ کو خود سے تشبیہ دی ہے کیونکہ دنیا میں کوئی اور رشتہ اس معیار پر پورا نہیں اتر سکتا جہاں آپ کے والدین آپ کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں۔ خدا کی والدین کی تشبیہ سے ایک اور وجہ یہ بھی ہے ہماری ناشکری کے باوجود خدا ہم پر اپنی عنایات بند نہیں کرتا۔ اس طرح والدین نافرمانی اور حکم عدولی کے باوجود آپ کا کبھی برا نہیں چاہتے۔

جیسے خدا ہر ایک کو رزق دیتا ہے اور اس پر اس نے یہ حد نہیں لگائی کہ اگر مجھے نہیں مانو گے تو رزق کا سلسلہ بند کردوں گا ویسے ہی والدین یک طرفہ رشتہ بھی نبھاتے ہیں۔ والدین کے علاوہ کوئی بھی تعلق یا رشتہ باہمی مفاد کی بنیاد پر ہی مضبوط رہتا ہے۔ والدین کا ہی ایسا غیر مشروط رشتہ ہے کہ وہ آپ کو اس وقت سے پیار کرتے ہیں جب آپ چلنے پھرنے کے قابل بھی نہیں ہوتے اور آپ کو پال پوس کر بڑا کرنے کی کوئی اجرت طلب نہیں کرتے۔ کسی قسم کا احسان نہیں جتاتے۔ اگر باقی تعلقات کی طرح خدا اور والدین بھی احسان جتلانا شروع کردیں تو انسان احسان کے بوجھ تلے ہی دم گھٹ کر مر جائے۔

تو اس پردیس والے تجربے میں اب تک جو سب سے اہم بات ہوئی وہ یہ کہ خدا نے ماں باپ کو اپنے ساتھ کیوں تشبیہ دی؟ اس تجربہ کا ایک نتیجہ تو یہ ہے کہ جس جس موقع پر آپ کو خدا یاد آتا ہے عین انہیں مواقع پر آپ کو والدین کی بھی یاد آتی ہے چاہے وہ خوشی کی صورت پر شکر بجا لانا ہے یا تکلیف وآزمائش کے موقع پر ہمت اور ساتھ کی ضرورت ہو۔ ایسی مشکلات کا سامنا جن کا آپ نے خود کبھی سامنا نہ کیا ہو بلکہ آپ کے والدین اس جگہ آپ کا سہارا بنے ہوں تو ایسے اوقات میں آپ اپنے رب سے رجوع کرلیتے ہیں۔ بعض اوقات ایسی آزمائش جن سے نکلنا آپ کے بس سے باہر ہو والدین کی دعائیں آپ کی ڈھال بن جاتی ہیں۔

یہ سب جان، دیکھ، پرکھ لینے کے بعد دل سے ایک ہی دعا نکلتی ہے
رب ارحمھما کما ربیانی صغیراً


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments