گٹھڑی اور گھڑی


ٹرین میں بیٹھی حنا کی زندگی کسی ٹرین ہی کی طرح بھاگتی دوڑتی دھواں دیتی، مسافتیں ناپتی منزلیں سر کرتی آخری منزل کی طرف بڑھے جا رہی تھی۔ اور اس ٹرین میں کھڑکی کے شیشے سے لگی وہ ایک بوسیدہ گٹھڑی اور ایک درذیدہ گھڑی سینے سے لگائے بیٹھی تھی۔ بوسیدہ پھٹی پرانی اڑے ہوئے رنگوں والی گٹھڑی جس میں بہت سی یادیں بندھی تھیں۔ کچھ ٹوٹ چکے خواب، ایک گمشدہ محبت، سالوں کی دھوپ میں سڑ چکے کچھ خوبصورت فقرے اور چند ایک فرصت کی نگاہیں۔

وہ زنگ آلود گھڑی جس میں اس کے محبوب کی آنکھیں سجی تھیں، پکارتی ہوئیں، التجا کرتیں، صدائیں دیتیں۔ یہ عزیز از جان گھڑی اور گٹھڑی اس کی زندگی کی ہر مسافت سے زیادہ اہم تھیں۔ ہر منزل سے زیادہ قیمتی تھیں۔ اس گٹھڑی میں اس کی زندگی کی سانسیں تھیں۔ اس کی بندھی گرہوں میں اس کا دل دھڑکتا تھا۔ اگر جو یہ گٹھڑی اس کے سینے سے جدا ہو جاتی تو حنا کی سانسیں رک جاتیں، دھڑکن بند ہو جاتی، آنکھوں کی بینائی اندھیروں میں بھٹکنے لگتی اورکانوں کی سماعت میں خموشی کا راج ہو جاتا۔ قدم زمین پر بے جان ہو کر گر جاتے، منزلیں بے نشاں ہو کر دھواں ہو جاتیں۔ اور یہ پل پل ٹک ٹک کرتی گھڑی، جو اس کی جدائیوں کے دن گنتی تھی۔ ۔ ۔ ایک اور گیا، ایک اور، کی گردان کرتی تھی۔ وہ لمحے جو قیامت تھے، وہ پل جو عذاب تھے مگر اس کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت تھے۔

اسکے قریب اس کی بازو سے جڑے بیٹھے تھے اس کے جسم و جاں سے لپٹے کچھ ذمہ داریوں بھرے رشتے، حنا کے دو بچے، ہر وقت رونے دھونے والے، ہر وقت خفا رہنے والے، ناآسودگی انہیں ماں سے ورثے میں ملی تھی۔ ناآسودہ ماں ناآسودگی کے سوا کچھ نہ جنم دے سکی۔ ان کے ساتھ بیٹھا گمبھیر صورت اور سنجیدہ مزاج والا کاغذ کے خشک کڑک کڑک کرتے ورق جیسا حنا کاشوہر۔ ۔ ۔ کہ جس پر کبھی کوئی محبت کی میٹھی تحریر نہ لکھی گئی ہو، جس کی سختی میں کبھی کسی سیاہی کی نرمی نہ گھلی ہو۔ سامنے والی سیٹ پر منہ پر دوپٹہ اوڑھے، ماتھے پر بازو ٹکاے اس کی بیزار ساس، سیٹ کے اوپر والی برتھ پر سویابے نیاز خراٹے لیتا سسر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ان سب کے ساتھ کھڑکی سے جڑ کر بیٹھی باہر سے گزرتے فاصلے گنتی، اندھیرے ناپتی، مسافتیں گنتی اور ان کی سختیاں اعصاب پر جھیلتی حنا۔

سالوں پہلے جب وہ اپنے نئے نویلے شوہر کے ساتھ لال رنگ کے کفن میں لپٹی اس ٹرین میں بیٹھ کر اس سفر میں نکلی تھی جو اس کی زندگی کی سب سے بڑی اذیت بن گیا تھا۔ شملے، رشتے اور عزت کے بدلے میں اس نے محبت کو ہارا تھا اور خالی خسارہ دامن میں بھرا تھا۔ ایک

تولا قدر کا مقدر نہ ہو سکا تھا۔ وہ دعائیں دے کر رخصت کرنے والے شملے سجا کر اس کی قبر پر وداع کا کتبہ لگا کر اب حالت سکون میں تھے مگر حنا کے لئے جزا و سزا کا میدان ہر پل مقدر ہوچکا تھا۔ اس کے رستے کی ہر شرط کڑی تھی جس میں ڈوب ڈوب، ابھر ابھر اس نے دیکھا تھا مگر پھر بھی پار نہ کر سکی تھی۔ رخصتی سے پہلے جب آخری بار گہری لال سوجی آنکھوں والے محبوب نے اس کا ہاتھ تھاما تھا تو کہا تھا۔ ”مت جاو٬!“ مگر حنا کی رگوں میں بہتی شرافت اس کے رشتوں کی عزت پر نثار ہونے کو بیتاب تھی، قربانی کا اسے بخار چڑھا تھا سو ہجر کے زہر کا پیالہ سر جھکائے پیا تھا اور سب کچھ ہار دیا تھا۔

وہ بار بار روکتا اور کہتا تھا ”محبت کھو کر کچھ نہ پا سکو گی!“ اور وہ کچھ بھی نہ پا سکی تھی۔ اب اپنی راکھ کو کاندھے پر اٹھائے پھرتی تھی، کالی بارشوں میں سے قوس قزح تلاشتی تھی، بے رحم سنگدل نگاہوں میں محبت دیکھنے کو ترستی تھی۔ کبھی بڑا بیٹا چھوٹے سے لڑتا اور چھوٹا حلق پھاڑ پھاڑ روتا، ماں کا پلو پکڑ کر کھینچتا، چیختا چلاتا، شوہر سخت نظروں سے گھورتا کبھی حنا کو کبھی بچوں کو، ساس پلو کے نیچے سے غراتی، اور حنا تھی کہ اک بے جان بے حس مورتی کی طرح باہر تاریک رستوں پر پلکیں ٹکاے بیٹھی۔

پھر وہ اسٹیشن آ گیا جس پر انہیں نہیں اترنا تھا مگر ٹرین کسی مجبوری کے تحت کچھ گھڑی وہاں رکی تھی۔ وہ اسٹیشن جس نے اس کے چہرے پر جمی برف پر ہتھوڑا مار کر اسے کرچی کرچی کر دیا تھا جیسے اس کے بے حس بے جان جسم میں کوئی زلزلہ برپا کر دیا۔ ”مت جاو! مجھے چھوڑ کر مت جاو!“ چھوٹے سے اسٹیشن کی لال دیواروں سے پرے کوئی اسے چیخ چیخ کر صدائیں دے رہا تھا۔ دور سے سورج کی پھوٹتی ہوی مٹھی بھر روشنی میں کھڑا جیسے کوئی اسے شدت سے بلاتا تھا۔

حنا ہڑبڑا کر اٹھی۔ بوسیدہ گٹھڑی اور زنگ آلود گھڑی سینے سے لگائے گرتی پڑتی سب کے پیروں کو پھلانگتی باہر کو لپکی، کسی بچے نے پلو پکڑ کر کھینچا اور وہ سر سے گر کر کاندھے سے ہوتا فرش پر جا پڑا۔ شوہر نے سخت سوالیہ نگاہوں سے لتاڑا۔ پیچھے سے نجانے کس کس نے پکارا جو اس نے نہ سنا اور اس اسٹیشن پر جہاں انہیں نہ اترنا تھا وہ اتر گئی تھی۔ یہ جانے بغیر کہ اس کی زندگی بھر کا اثاثہ، اس کے سب مغرور مالک پیچھے رہ گئے۔

اس کی ذمہ داریاں اور فرائض اس کی چھوڑی خالی نشست پر گرے بین اور نوحوں میں محفوظ تھے۔ حنا ایک مست ملنگ کی طرح ایک ایسے اسٹیشن پر اتر چکی تھی جو اس کا مقدر نہیں تھا، جس کے دروازے اس کے لئے نامحرم تھے اور جس کے ہر اندرونی رستے پر کفر اور شرک کے، رسوای کے تمغے اور فتوے تھے۔ بدنامی کی ہوائیں اور موت کے موسم اس شہر کی دہلیز پر اترنے والوں کا مقدر تھے۔ حنا جانتی تھی مگر پھر بھی اس رسوائے محبت کی آسیب زدہ حویلیوں کے شہر میں وہ اپنے گمشدہ خوابوں، ویراں دھڑکنوں اور پراسرار آوازوں کے تعاقب میں اتر چکی تھی۔ قدم زمین پر پڑتے ہی ٹرین ہچکی کھا کر یوں چل دی جیسے وہ محض اسی لئے تو رکی تھی۔ رات کی پھیلی تاریکی کو الوداع کہتے سویرے میں وہ اس لال اینٹوں والی قدیم عمارت کے سرمئی فرش پر بھاگتی باہر کی طرف جاتے راستے کو لپکی تھی۔

ٹرین ٹوٹے بندھن اور ادھورے رشتے لئے چل پڑی نجانے کسی نے اسے روکا کہ نہیں، نجانے کوئی اس کی طرف بڑھا کہ نہیں، کچھ بھی جانے بنا حنا عشق ممنوع کے اخلاق باختہ شہر کی ویران گلیوں میں بھاگتی چلے گئی۔ وہ رستے جن سے منہ موڑ کر نکلی تھی آج اسے اپنے ساتھ بھگائے لئے جا رہے تھے، وہ موسم جو اس کی روح کی گہرائیوں میں دفن تھے جیسے آج اک تکلیف دہ اذیت سے جی اٹھے تھے۔ اس ناراض شہر کی ہریالی گرچہ مانند تھی مگر وہی تھی اور ماتم کناں سی دکھتی تھی۔

ہوائیں یوں محسوس ہوتا جیسے گلے لگا کر بین پر آمادہ ہوں، اس شہر کا ظالم خدا آج بھی محبت تھی مگر اس پر نجانے کیوں شب مرگ سی طاری تھی۔ ۔ ۔ وہ محبت جسے وار کر وہ ایک بھی روز سکوں سے جی نہ سکی تھی۔ اک صور تھا کہ پھونکا جاتا تھا وہ جس کے تعاقب میں گمشدہ بند آنکھوں اور بند کانوں سے بھاگتے چلے جاتی تھی۔ محبوب کا چوبارہ اٹھ اٹھ کر اسے صدائیں دے رہا تھا اور وہ لبیک لبیک کہتی دل کو ہاتھوں میں سنبھالے دوڑتے جاتی تھی۔

اسٹیشن سے ذرا دو کوس آگے اس کے پیروں میں کچھ چبھا تھا اور توازن بگڑا تھا۔ سر جھکا کر دیکھا تو نجانے کب کہاں اک جوتا پیروں سے جدا ہوا اور ایک شیشہ پیروں میں کھبا، رستے کو لال کیا جاتا تھا۔ محبوب کے شہر کا زخم پہلے ہی موڑ پر لگا تھا مگر اب رکنا محال تھا۔ آج اس کی نگاہ میں تھا محض ایک راستہ، ذہن میں صرف ایک صدا، دل میں محض ایک طلب! آج زندگی کی سب حاکم قوتیں، پیروں کی زنجیریں، معاشرتی لباس وہ ٹرین میں پٹخ کر خود پاتال میں کود گئی تھی۔

اگر مہربان زندگی کی معراج وہ تھی جو اس نے پای تھی تو اسے اب موت سے محبت ہو چلی تھی۔ اگر نعمتیں وہ تھیں جن سے وہ بھاگ کر آئی تھی تو پھر وہ کیسی نعمتیں تھیں؟ اب وہ جہنم کی آگ پی کر سیر ہونا چاہتی تھی، شاید وہ اپنے ہی ہاتھوں سے خودکو بھسم کر لینا چاہتی تھی۔ صبح صادق کے وقت شہر کی خموش گلیوں میں مسجد کے سپیکر کھنکھارنے لگے اور چند ایک روشن پیشانیوں اور سفید ٹوپیوں والے عمر رسیدہ چہرے ہر نکڑ سے نکلنے لگے۔

کئی سفیدٹوپیوں نے مڑ کے دیکھا، اور سر جھٹکا ”پاگل بیچاری“ ۔ پاگل بیچاری سیانے راستوں پر دوڑتی جاتی اور ذی شعور رستے تھے کہ سر نہ ہوتے۔ کچھ گلیوں کا سفر جیسے حشر کا امتحاں ہوا تھا،

آخری گلی پر پہنچ کر بس اک نکڑ مڑنا باقی تھی اور دوسرا لکڑی کا دروازہ اس کی زندگی کا مظہر تھا جب اس کے دل کی ذمینوں پر کئی بھسم کرتی بجلیاں ایک ساتھ گری تھیں۔ نظروں میں اک اندھیرا سا چھایا۔ نکڑ سے نکلتا لوگوں کا اک جم غفیر اپنے کندھے پر کسی کو اٹھائے کلمہ شہادت کا ورد کرتا اس کے قریب سے گزرا تھا ایسے جیسے کوئی مٹی مٹی بگولہ اسے اپنی بانہوں میں لے اڑا ہو، کئی صورتیں شناسا، اس سے بے خبر اس کے قریب سے گزریں، جھکی ہوئیں، کچھ نہ دیکھنے والیں، کچھ نہ کہنے کے قابل۔ اسے پکارنے والی سب صدائیں جیسے رخ موڑ کر اس ہجوم کے پیچھے چل پڑیں تھیں، سر کی چادر تو نجانے کہاں گری تھی مگر اب اس کے قدموں سے زمیں بھی کھسک کر پاتال اتر آیا تھا۔ اب اس کے ہاتھوں سے گھڑی اور گٹھڑی چھن چکی تھی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments