تعلیمی ادارے اور جنسی ہراسگی کے واقعات


پچھلے کچھ عرصے میں درجنوں تعلیمی اداروں میں ایسے واقعات میڈیا کی زینت بنے جس میں یا تو قابل اساتذہ کی طرف سے طالبات کو جنسی ہراسمنٹ کا سامنا رہا یا پھر دوسرا پہلو بھی سامنے آیا جس میں طالبات کی جانب سے بھی ایسا منفی عمل دیکھنے میں آیا جس کا مقصد کسی نہ کسی استاد کو بدنام کرنا یا پھر اس کی علمی و معاشرتی تشخص کو خراب کرنا مقصود تھا۔ اول الذکر واقعات کی تعداد زیادہ نظر آئی اور اس کا سد باب پچھلے اتنے سالوں میں نہ ہو سکا۔

کچھ روز قبل ایک نجی برانڈڈ سکول کے واقعات کی ویڈیو وائرل ہوئی تو میڈیائی دانشوروں نے پروگرامز کی لمبی لائن لگا دی مگر سوال یہ ہے کہ کیا ٹی وی پروگرامز یا صحافیوں کے تبصروں اور کالموں سے ایسے واقعات کا خاتمہ ممکن ہے؟ جبکہ حکومت اس معاملے میں ہمیشہ ہی خاموش نظر آئی، جب جب ایسے واقعات سامنے آئے، چند روز میڈیا نے ان واقعات کو اچھالا تو حکومت کو ہوش آیا مگر افسوس کچھ ہی روز بعد ایسے واقعات قصہ پارینہ بن جاتے ہیں۔

مسئلہ یہ ہے کہ جب نجی تعلیمی اداروں میں جنسی ہراسگی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تووہ اس لیے بھی زیادہ دیر میڈیا میں زندہ نہیں رہتا کہ تعلیمی اداروں کے مالکان معاشی یا سیاسی طور پر اتنے مضبوط ہوتے ہیں کہ وہ اپنا اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے ان واقعات کو دبا دیتے ہیں۔ اگر کوئی واقعہ میڈیا میں آتا بھی ہے تو اس کی وجہ والدین بنتے ہیں جن کے بچوں کو ایسی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے۔

مثلاً کچھ روز قبل سوشل میڈیا پر راقم الحروف نے صرف اتنا لکھا کہ ”وہ اس موضوع پر کالم لکھنا چاہ رہا ہے اور معلومات درکار ہے“ تو درجنوں طالبات نے نہ صرف رابطے کرنا شروع کر دیے بلکہ باقاعدہ ثبوتوں کے ساتھ راقم سے ملاقاتیں بھی کیں جن کے بقول پاکستان کے کئی بڑے اداروں میں اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں۔ ثبوت دیکھنے پر اس بات کا انکشاف ہوا کہ ادارے کے مالکان یا ہیڈز بھی ایسی صورت میں اساتذہ ہی کو سپورٹ کرتے ہیں جنہیں استاد کہنا بھی جرم ہے۔

جب میں اس تہہ تک پہنچنے میں لگا کہ آخر ادارے کا ہیڈ ایسے استاد کو کیوں سپورٹ کرے گا جس کا کردار اتنا گھناؤنا ہے اور جس کے بارے میں طالبات خود شکایت جمع کرواتی ہیں تو پتا یہ چلتا ہے کہ وہ استاد یا تو خاصا اثرورسوخ رکھتا ہے یا ادارے کا بزنس پارٹنر ہے یا پھر ہیڈ کا قریبی دوست یا رشتہ دار۔ یعنی کیا کوئی بھی ادارہ مالک یا ہیڈ محض اس بنیاد پر کسی استاد کے گندے کردار کو بھی چھپا سکتا ہے کہ وہ اس کا تعلق والا ہے یا بزنس پارٹنر؟

میں نے ان واقعات کے بعد اداروں کے ہیڈز سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر یہ کوشش ناکام بنتی رہی اور ادارے کے ہیڈز بھی کوئی بہتر جواب نہ دے سکے۔ مجھے یہ جان کر مزید دکھ ہوا کہ وہ اساتذہ جو ایسے واقعات کی نشان دہی کرتے ہیں، ان کو زبردستی فارغ کر دیا گیا اور مزید ان کے واجبات تک روک دیے گئے کہ یہ ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ حالانکہ ساکھ تو وہ اساتذہ پہنچا رہے ہیں جو یہ کالے کرتوت کرتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں ادارے کو ایسے اساتذہ کا شکر گزار ہونا چاہیے جو اپنا فرض سمجھتے ہوئے ان واقعات کی نشان دہی کرتے ہیں تاکہ ادارے کی ساکھ خراب نہ ہو مگر یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔

ایسے واقعات کی دوسری صورت بھی سامنے آئی جس میں یونیورسٹیز یا کالجز کے طلبا و طالبات اساتذہ کا تشخص محض ذاتی رنجش یا منفی عزائم کے حصول کے لیے خراب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے اساتذہ اپنے اصولوں کے معاملے میں سخت ہوتے ہیں اور سٹوڈنٹس کو کسی بھی طرح کا ناجائز کام کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہاں تیسری صورت بھی (انتہائی شدت کے ساتھ) موجود ہے جس میں اساتذہ ذاتی رنجش کی وجہ سے طلبا و طالبات سے تعلق بگاڑ لیتے ہیں اور ان سے بدلہ لینے کے لیے تعلیم سمیت دیگر جگہوں پر انہیں ڈی گریڈ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

یہ ساری وہ صورتیں ہیں جن کی وجہ سے اس سماجی برائی کے واقعات میں روز بروز شدت آتی جا رہی ہے اور افسوس یہ کہ اس بارے میں کوئی زبان نہیں کھولتا۔ اگر طلبا زبان کھولیں تو ان کا تعلیمی کیریئر تباہ کر دیا جاتا ہے، وہاں کے اساتذہ زبان کھولیں تو ان کے ساتھ دشمن داری شروع کر دی جاتی ہے اور ان کو وہاں سے نکلوانے کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر طالبات جنسی ہراسمنٹ کا معاملہ اٹھائیں تو ان کے کیریئر کے ساتھ کھیلا جاتا ہے جس سے درجنوں طالبات نے اس ”شدید مشرقی“ معاشرے میں خود کشی بھی کی۔ ایسا کیوں ہے؟ ہم ان واقعات کا الزام کسے دیں؟ بچوں کو، اساتذہ کو یا پھر ایسے اساتذہ کو جو اس مقدس لبادے میں شیطان کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

میں گزشتہ ایک ماہ سے ایسے واقعات کی چھان بین کر رہا ہوں اور روزانہ کوئی نہ کوئی حیران کر دینے والا واقعہ نظر سے گزرتا ہے۔ پاکستان سمیت آزاد کشمیر کی یونیورسٹیوں سے بھی ایسے واقعات کی کہانیاں مجھ تک پہنچیں جہاں یہ واقعات ہو رہے ہیں۔ اس ایک ماہ کے دوران میں کئی حکومتی عہدیداروں سے بھی ملا، ان سے گزارش کی کہ خدارا ان واقعات کا سد باب کریں کیونکہ کہانیاں شدت اختیار کرتی جا رہی ہیں۔ میں انگلی پر ان اداروں اور اساتذہ کا نام بتا سکتا ہوں جہاں یہ سب ہو رہا ہے اور میں ایسی طالبات کو جانتا ہوں جنہوں نے حلف اٹھا کر کہا کہ ہم عدالت جانے کے لیے بھی تیار ہیں، بس میں یہ گارنٹی دی جائے کہ ہمارا تعلیمی کیریئر خراب نہیں ہوگا۔

افسوس ایسی گارنٹی شاید ہمارے حکومتی ادارے بھی نہ دے سکیں کیونکہ تاریخ گواہ ہے جب جب کسی سٹوڈنٹ نے ایسے واقعات، ادارے یا استاد کے خلاف آواز اٹھائی، اس کی نہ صرف زبان بندی کرنے کی قانونی کوششیں ہوئیں بلکہ کئی ایسے آوازوں کو ہمیشہ کے لیے دبا بھی دیا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟ میرے نزدیک جہاں پر حکومت کو اس ضمن میں قانون سازی کرنے کی ضرورت ہے وہاں ان داروں کے سربراہان پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ ایسے معاملات میں خاموشی اختیار کرنے کی بجائے اپنا حق ادا کریں۔

جنسی ہراسگی ایک جرم ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہت بڑی سماجی برائی بھی ہے جس میں ہر شہری کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ مزید ہر طالب علم یا استاد کا بنیادی فریضہ ہے کہ ایسے واقعات کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ میرا خیال ہے کہ واضح قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کے معاملے میں آج تک کسی کو عبرت کا نشانہ نہیں بنا گیا لہٰذا اداروں کا مانیٹرنگ سسٹم بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ (جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments