نیب کے دانت کون نکالے گا؟


پیراگون سٹی کیس میں خواجہ برادران کی ضمانت منظور کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ نے حال ہی میں جو تاریخی فیصلہ دیا اس کا ”جواب الجواب“ آگیا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے دورکنی بینچ کے سربراہ جسٹس مقبول باقر کے تحریر کردہ اس فیصلے میں نیب کو خاصا رگڑا لگایا اور فیصلے میں وہ باتیں کہی گئیں جو زبان زدعام ہیں کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے اور احتساب کا یہ ادارہ صرف اپوزیشن کے سیاستدانوں کو ٹارگٹ کرتا ہے۔

 شاید نیب کے خلاف عدالت عظمیٰ کی لمبی چوڑی چارج شیٹ کے جواب میں ہی چودھری برادران کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام میں کیسز کھول دیے گئے ہیں۔ ان پر الزام ہے کہ چودھری شجاعت اور ان کے بیٹوں نے بے نامی اکاؤنٹس سے بھاری رقوم وصول کیں، چودھری پرویز الٰہی فیملی پر بھی ایسے ہی الزامات ہیں۔ چودھری برادران کے ترجمان کا کہنا ہے کہ نیب سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہو رہا ہے یعنی اب وہ بھی کہہ رہے ہیں۔

چودھری برادران سے میرا بہت پرانا تعلق ہے۔ بالخصوص چودھری شجاعت کی میلان طبع سے میں اچھی طرح واقف ہوں۔ جمعہ کو انہوں نے مجھے ظہرانے پر مدعو کیا وہاں حالات حاضرہ پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔ چودھری شجاعت اور کسی حد تک پرویز الٰہی حکومت کے اتحادی ہونے کے باوجود اپنی بات کھل کر کہہ دیتے ہیں۔ انھیں عمران خان سے سیاسی کے علاوہ کچھ ذاتی گلے بھی ہیں۔ چودھری شجاعت اپنے والد مرحوم چودھری ظہور الٰہی کی طرح سیاست میں وضع داری اور جیو اور جینے دو کے فلسفے پر یقین رکھتے ہیں۔

 عملی طور پر یہ باور کیا جاتا ہے کہ چودھری برادران اور مسلم لیگ ن کے درمیان پہلے جیسی دوریاں نہیں رہیں بلکہ عام خیال ہے کہ براہ راست نہیں تو بلاواسطہ رابطے بحال ہو چکے ہیں اور کسی حد تک اچھا تال میل بھی ہے۔ چودھری صاحب سے جب میں نے پوچھا کہ میاں نواز شریف یا شہباز شریف سے براہ راست کوئی رابطہ ہے تو انہوں نے نفی میں جواب دیا۔ تاہم انہوں نے انکشاف کیا کہ جب میاں نواز شریف کی صحت بہت خراب تھی تو میں نے بیان دیا تھا کہ مسلم لیگ ن کے قائدکو بغرض علاج بیرون ملک جانے دیا جائے۔  اس پر انہوں نے اپنے ڈاکٹر کے ذریعے جو میرے بھی معالج ہیں کے ذریعے شکرئیے اور ممونیت کا پیغام بھیجا تھا۔

قومی اسمبلی کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں جس کے پرویز الٰہی سپیکر ہیں مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے درمیان تال میل موجود ہے۔ چودھری پرویز الٰہی نے بطور سپیکر حمزہ شہباز کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے میں کبھی لیت و لعل سے کام نہیں لیا۔ سیاسی طور پر چودھری برادران کو گلہ ہے کہ ان سے کیے گئے معاہدے پر تاحال عمل نہیں ہوا۔

بہت پہلے خان صاحب اور چودھری برادران کی میٹنگ ہوئی تو وزیراعظم نے پیشکش کی کہ ہم پرویز الٰہی کے صاحبزادے مونس الٰہی کو وزیر بنانے سے قاصر ہیں تاہم چودھری شجاعت کے صاحبزادے چودھری سالک کو کابینہ میں شامل کر سکتے ہیں لیکن چودھری صاحب نے اس پیشکش کو قبول نہیں کیا اور واضح کیا کہ میں خاندان کا سربراہ ہوں اگر آپ نے مونس کو وزیرنہیں بنانا تو نہ بنائیں لیکن سالک کابینہ میں شامل نہیں ہوگا۔ ذاتی طور پر چودھری شجاعت کو بجا طور پر گلہ ہے کہ جب وہ شدید بیمار تھے تو خان صاحب نے انہیں فون تک کرنے کی زحمت نہیں کی بلکہ الٹا یہ عذر لنگ پیش کیا کہ انہیں تو علم ہی نہیں تھا کہ چودھری صاحب بیمار ہیں لیکن بعد میں بھی وزیراعظم نے اپنی حلیف جماعت کے سربراہ کے گھر جا کر تیمارداری کا تکلف نہیں کیا۔

جہاں تک منی لانڈرنگ کے کیسز کا تعلق ہے چودھری برادران نے اس کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہوا ہے، لگتا نہیں کہ ایسا خان صاحب کی مرضی سے ہوا ہے لیکن اگر ایسا ہوا ہے تو سیاسی انجینئرنگ کا الزام چہ معنی دارد۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ تحریک انصاف چودھری برادران سے اتحاد کو خطرے میں ڈالنے کی متحمل نہیں ہو سکتی ایسا کرنے کے دور رس مضمرات ہوں گے۔ اس سے پنجاب اور وفاق دونوں میں پی ٹی آئی کی حکومت کا سنگھاسن ڈول سکتا ہے۔

حال ہی میں خان صاحب کے وسیم اکرم پلس وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے مسلم لیگ ن کے چند ارکان صوبائی اسمبلی سے ملاقات کی جس سے مسلم لیگ ن میں خاصی ہلچل پیدا ہوئی۔ ابھی تک تو عثمان بزدار کا اقتدار چودھری برداران کے مرہون منت ہے لیکن لگتا ہے کہ وہ ہاتھ پیر مار رہے ہیں کہ وہ اب اس بیساکھی کے بغیر بھی چل سکیں۔ اس وقت تو ”سٹیٹس کو“ بلکہ ایک قسم کا ڈیڈلاک ہے۔ چودھری برداران عثمان بزدار کے پیچھے کھڑے ہیں انہیں وزیراعلیٰ پنجاب سے کوئی محبت نہیں تاہم ان کا خیال یہ ہے کہ ڈیرہ غازی خان کا ایک نوآموز جس کی اپنی سیاسی بیس نہیں ہے ان کو سوٹ کرتا ہے۔

اس کے باوجود پنجاب اسمبلی کے کئی ارکان وزیراعلیٰ بننے کے خواہشمند ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی سنجیدہ اور اہم نہیں ہے جسے خان صاحب کی تائید و حمایت حاصل ہو۔ چودھری برادران کا سادہ سا استدلال ہے کہ اگر بزدار نہیں رہتے تو پرویز الٰہی کے وزیر اعلی بننے میں کیا اعتراض ہے۔ جہاں تک وزیراعلیٰ پنجاب کا تعلق ہے ان کا کلہ فی الحال مضبوط نظر آتا ہے۔ بعض حلقوں کے مطابق مقتدر ادارے بھی بزدار کے زیادہ حق میں نہیں ہیں۔

ظاہر ہے کہ اس تناظر میں خان صاحب کے لیے نہ جائے رفتن نا پائے ماندن کی صورتحال ہے۔ پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانا ایسا فیصلہ ہوگا جسے پی ٹی آئی میں آسانی سے شرف قبولیت نہیں ملے گا لیکن وہ اگر کسی دوسرے کو وزیراعلیٰ بناتے ہیں تو یہ چودھری برداران کے لیے قابل قبول نہیں ہوگا لہٰذا بزدار کی خوش قسمتی ہے کہ وہ ان وجوہات کی بنا پر وزیراعلیٰ برقرار رہیں گے۔ ان کی بظاہر مرنجان مرنج طبیعت بھی ان کے حق میں جاتی ہے۔

ویسے چودھری شجاعت حسین روز اول سے ہی احتساب کے نام پر انتقام کے حامی نہیں ہیں۔ جب نواز شریف نے بھاری مینڈیٹ سے سرشار ہو کر اپنے دور وزرات عظمیٰ میں احتساب بیورو بنایا اور اپنے دست راست سیف الرحمن کے ذریعے بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر نامدارکے خلاف کرپشن کے الزامات کے تحت کئی کیسز کھول دیے اور زرداری صاحب کو جیل کی ہوا کھانا پڑی تو اس پر چودھری شجاعت نے جو وزیر داخلہ تھے مجھے کہا تھا کہ نواز شریف کو یہ انتقامی پالیسیاں ایک دن مہنگی پڑیں گی اور یہ جال جو انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے لیے بچھایا ہے ایک دن خود بھی اس میں پھنس جائیں گے اور ایسا ہی ہوا۔

نواز شریف نے نیب کے قانون کو بدلنے میں کوئی دلچسپی نہ دکھائی کیونکہ ان کا خیال تھا کہ سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے یہ ایک اچھا ہتھکنڈا ہے۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ تیسری قوت برسراقتدار آجائے گی اور مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی قیادتوں کے خلاف احتساب کے نام پر بدترین سلوک ہوگا اور ایسا ہی ہوا۔ نیب آرڈیننس میں ترمیم کے لیے اپریل میں پارلیمنٹ کے اندر حکمران جماعت نے اپوزیشن سے مذاکرات کے لیے کمیٹی بنائی تھی جس میں اب پھر وزیر قانون کا حلف اٹھانے والے فروغ نسیم، اسد عمر اور پرویز خٹک بھی شامل ہیں، لیکن یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی کیونکہ حکمران جماعت نیب کا زہر نکالنے کے لیے تیار نہیں اور دوسری طرف میاں نواز شریف کے قریبی ساتھیوں میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ ہمارے ساتھ حکومت اور نیب نے جو کرنا تھا کر لیا، مستقبل میں پی ٹی آئی کی باری آئے گی لہٰذا اس قانون میں اب ترمیم کیونکر کی جائے لیکن بعد از خرابی بسیار شنید ہے کہ اپوزیشن نیب کو ختم کرنے کے حوالے سے ایک صفحے پر آگئی ہے لیکن ایک نام نہاد احتسابی ادارہ جوایک آمر پرویز مشرف کے ہاتھوں بنایا گیا تھا جس نے سیاسی انجینئرنگ کر کے مسلم لیگ ن سے مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی سے پیٹریاٹس بنائے حکمران کیونکر اس کے دانت نکالنے پر راضی ہوں گے۔

بشکریہ: 92 نیوز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments