بے حیا بلیاں ریپ ہی کرواتی ہیں


بلی کا ریپ۔ ہاہاہاہا۔ ہنس لیں۔ اس میں افسردہ ہونے والی کوئی خاص بات تو نہیں ہے۔ شاید ہمارے ہاں تو ہر گز نہیں۔ ان معاشروں میں افسردگی، افسوس ہوتا ہو گا۔ جہاں لوگ ماں باپ کو اولڈ ایج ہوم مین چھوڑ دیتے ہیں۔ یا حرام کی نسل کو بھی انسان سمجھ کر پال لیتے ہیں۔ ویسے ایک بابا یہاں بھی ہوتا تھا۔ جو کہتا تھا کہ میں حرام کے جنے پالتا ہوں۔ اب نہیں رہا وہ۔ کچھ تو بے حیائی کم ہو گئی ہو گی۔

ہمارے ہاں تو کم سن بچے بچیاں ریپ ہوئے کوڑے کے ڈھیر سے ملتے ہیں۔ یہ تو پھر بھی ایک بلونگڑا ہے۔ ویسے بھی ایک گھر کی پالتو بلی۔ آخر اس کا قصور ہو گا۔ کس نے کہا کہ ہر وقت آوارہ بے دھڑک گھومے وہ بھی دھڑلے سے۔ جو پیار سے بلائے اس کی گود میں لیٹنے لگ جائے۔ اس کے پاؤں میں اٹکھیلیاں کرے۔

اور ہاں جی۔ سب سے بڑھ کر اس کی واک مطلب چلنا۔ جی کیٹ واک۔ آپ نے کبھی غور کیا ہے۔ کس قدر بے حیائی ہے اس میں۔ اک دم بے غیرتی۔ یعنی کوئی پرواہ ہی نہیں چلتی جا رہی ہے اعضا کی نمائش کرتے۔ بے حیائی سے بھرپور۔ اسی کیٹ واک کی پھیلائی گئی عریانیت نے ہی تو عورتوں میں بے حیائی کو جنم دیا ہے۔ یقین نہیں آتا تو کوئی بھی، کسی بھی، ماڈل کی کیٹ واک دیکھ لیں۔

جتنی بے حیائی بلی کے چلنے میں ہے۔ عورتوں کی کیٹ واک میں بھی ٹھیک اتنی بلکہ کہوں گا کہ شاید زیادہ ہی۔ کیوں کہ عورتوں کے ریپ کیس بھی تو زیادہ ہیں۔ بلی کا ریپ ویسے قہقہہ بلند کرنے والی بات تو ہے۔ کبھی سنا ہے آپ نے؟

ویسے ایک بات کہوں ذرا شرمندہ مت ہوئیے گا۔ گدھی کے ریپ کیس کی تو ویڈیو آپ نے دیکھ رکھی ہو گی۔ اور گاؤں میں موجود کتیا کی بھی جو اکثر اجنبیوں کے پاؤں میں بھی لوٹنا شروع کر دیتی ہے۔ مگر چھوڑیں جس کی بے حیائی ہے اس کو سزا تو ملنی ہی چاہیے۔

میں نے نوٹ کیا ہے جب یہ بلیاں چلتی ہیں۔ تو ان کی ٹانگیں دیکھی ہیں۔ بلکہ ٹانگیں کہاں رانیں چلتی پھرتی دعوت دیتی ہیں۔ ٹھیک ویسے جیسے کیٹ واک کرتی ماڈلز۔ آؤ پکڑ لو ہمیں۔ اور کیا جناب اب وہ کوئی نیکی کی باتیں تو نہیں بتانے آتی کیٹ واک کرتے وقت۔ میں نے بھی اکثر غلیظ بلیوں کو دیکھا ہے۔ کچھ تو چلتے ہوئے اتنی بے حیا ہو جاتی ہیں کہ یک دم دم اٹھا لیتی ہیں۔ اب جب پوشیدہ اعضا کو دکھائیں گی۔ تو یہ تو ہو گا اب جب دم سے ڈھانپا ہوا ہے تو اس کا استعمال کیوں نہیں کرتیں۔

جناب جب یہ سب کچھ ہو گا۔ تو یہ تو ہو گا، اس کا نتیجہ تو بھگتنا ہو گا۔ جیسے عورتوں کی آوارگی، بے پردگی سے ہوتا ہے۔
زلزلے ایسے ہی تو نہیں آتے نا صاحب یہ جو موٹی موٹی رانوں پے جینز چڑھا کے پھرتی ہیں تو عذاب تو پوری قوم پے آنا ہے نا۔

خیر آپ نے بلیوں کی گول گول آنکھیں دیکھیں ہوں گی۔ رنگ برنگی، گول گول ایک دم دوسروں کو گھورتی۔ آخر ڈھانپتی کیوں نہیں۔ لوگ تو متوجہ ہوں گے ہی۔

ایسی ہی ایک بے حیا، بد چلن آوارہ بلی کے ساتھ ایک واقعہ پیش آیا۔ لاہور کے ایک گھر میں جہاں 15 سال کے لڑکے اور اس کے دوستوں نے مل کے ایک بلی کے بچے کا ریپ کیا ہے۔ اور کچھ دنوں تک سلسلہ چلتا رہا۔ یہاں تک کہ اس کے اندرونی اعضا باہر آنا شروع ہو گئے۔ اور وہ چل نہیں سکتی تھی۔ سو نہیں سکتی تھی۔ اس کے اعضا سے خون اور سپرم رس رہے تھے۔ اور کچھ شاپر بھی، جو لڑکوں نے اس پر استعمال کیے تھے۔ اس کے دونوں سوراخ ایک ہو چکے تھے۔

اور آخر کار اسی درد میں وہ جان سے گئی۔ مگر آپ کو یہ سب مزاح لگنا چاہیے کہ آپ یہ پڑھ ہی کیوں رہے ہیں۔ اتنے درد بھرے الفاظ وہ بھی کسی جانور کے لئے۔ لکھنے والے نے صفحہ کالا کیوں کیا ہے۔ اگر یہ کیس کسی وکیل یا پولیس کے پاس لے کر جایا جائے تو وہ بھی ہنسیں گے۔ ہنسنا بھی چاہیے۔ جہاں پولیس اسٹیشن میں انسانوں کے ریپ کے کیسسز کو سیریس نہیں لیا جاتا۔

جہاں یہ سمجھا جانا حق بجانب ہے کہ ریپ شدہ لڑکی نے آنکھ مٹکا کیا ہو گا۔ اس نے ہی ان کو شے دی ہو گی۔ ورنہ کون ایسے کسی پے چڑھ جاتا ہے۔ وہاں کسی بے جان کی کیا سنوائی۔ وہاں کون سا قانون وہاں کون سی عدالت۔ باقی چھوڑیں یہ بتائیں کہ داڑھی کا آج کل کیا ڈیزائین رکھنا ہے۔ اور ہاں کس برگزیدہ ہستی کے ساتھ علیہ السلام لگانا ہے۔ اور کس کے ساتھ رضی اللہ عنہ۔ یہ چھوٹے موٹے قتل، ریپ، دھماکے تو ہوتے رہیں گے جب تک زمین پر عریانی ہے اور فحاشی ہے۔ ان کا حل یہی ہے کہ پب جی، ٹک ٹاک، ڈورے مان پر پابندی لگا دی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments