پاکستانی تعلیمی اداروں میں جنسی ہراس کتنا سنگین مسئلہ ہے؟


کیا عدالتیں اور وکیل ایسے مقدمات کے لیے تیار ہیں؟

سازشی پہلو کے حوالے سے ایڈووکیٹ اسد جمال نے ایک مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایسے مقدمات کو لڑنے کے لیے وکیلوں اور مقدمہ چلانے والوں میں جو تعلیم و تربیت درکار ہوتی ہے، اس کی بے حد کمی ہے کیونکہ اس نوعیت کے الزامات کو غلط سمجھا جاتا ہے۔

انھوں نے اپنے پہلے مقدمے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ بہت برس پہلے جب وہ پہلی مرتبہ ریپ کیس میں ڈسٹرکٹ پراسیکیوٹر کے پاس مقدمے پر بات کرنے گئے تو اس وقت اُن کے ہاتھ میں اسی مقدمے کی ابتدائی ایف آئی آر کی ایک کاپی موجود تھی۔

’جب میں نے انھیں ایف آئی آر نمبر بتایا تو مجھے مقدمہ چلانے والے افسر نے کہا کہ یہ تو وہی گھریلو ملازمہ کا کیس ہے نا؟ آپ کو پتا نہیں یہ کس قماش کی ہوتی ہیں؟‘

اسد جمال کے مطابق ’احساس ہونا تو دور کی بات ہے۔ ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہے کہ جنسی ہراس یا ریپ کے مقدمات لڑنے کے لیے پاکستان میں وکیل ذہنی طور پر تیار ہیں بھی یا نہیں؟‘

ایڈووکیٹ اسد جمال کہتے ہیں کہ زیادہ تر طالبات کوئی قانونی چارہ جوئی نہ کرنے یا اس بارے میں کم معلومات رکھنے کی صورت میں سوشل میڈیا کا سہارا لیتی ہیں۔ ’اس کے نتیجے میں ان طالبات پر ہتکِ عزت کا مقدمہ درج ہوجاتا ہے اور افسوس کے ساتھ ان مقدمات میں مبینہ زیادتی کرنے والوں کو زیادہ قانونی سہارا مل جاتا ہے۔‘

ہراسانی

تعلیمی اداروں میں ہراسانی سے متعلق شکایات کا کوئی نظام موجود ہے؟

بظاہر تو تعلیمی اداروں میں شکایات درج کرنے کے لیے انتظامیہ موجود ہے مگر دیگر طالبات سے بات کرنے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ بالخصوص ہراسانی کے حوالے سے ان اداروں میں کوئی خصوصی کمیٹی نہیں بنائی گئی۔

اس پر مزید بات کرتے ہوئے نمرا (فرضی نام) کا کہنا تھا کہ ’میں نے کبھی شکایت نہیں لگائی کیونکہ مجھے پتا تھا کہ انتظامیہ نے الٹا مجھ پر ہی الزام لگانا ہے۔‘

کلاس میں کیے جانے والے فحش لطیفوں کے حوالے سے ندا (فرضی نام) نے دیگر اساتذہ کو بھی اس حوالے سے بتایا مگر انھوں نے یہ کہہ کر بات ٹال دی کہ ’وہ تو مذاق کرتے ہیں اور وہ تمہارے استاد ہیں تو اس بات کو جانے دو۔‘

ابتدا میں بیان کیے گئے مبینہ ہراسانی کے واقعے کے حوالے سے کچھ طالبات نے ادارے کی انتظامیہ کو مطلع بھی کیا تھا مگر ان کے بقول سکول انتظامیہ نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔

ماہرہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب کالج کو ایک اعلی تعلیم یافتہ استاد مل جاتا ہے تو وہ اس قسم کی شکایات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔‘

جنسی ہراسانی کی شکایات سامنے آنے کے بعد لاہور گرامر سکول اور لاہور یونیورسٹی آف مینیجمینٹ سائنسز لاہور کے علاوہ دیگر تعلیمی اداروں نے اس نوعیت کی شکایات درج کرنے کا ایک باقاعدہ نظام وضح کیا ہے۔

قانونی ماہرین کا موقف ہے کہ مقدمہ کرنے کے بجائے سکول اور کالج کی سطح پر ایسی کمیٹیاں ہونی چاہییں جس کے ذریعے بچوں کی شنوائی ہو سکے اور مبینہ طور پر ہراسانی کرنے والوں کے خلاف بھی کاروائی کی جا سکے۔

آل پاکستان پرائیویٹ سکولز فیڈریشن کے صدر کاشف مرزا کا کہنا تھا کہ ’یقینا بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود ہوتی ہے مگر مسئلہ قوانین کا نہیں بلکہ جو پہلے سے وضح کردہ قوائد و ضوابط ہیں ان پر عمل درآمد کرانا ضروری ہے۔‘

کیا پاکستان میں ہراسانی سے متعلق قوانین موجود ہیں؟

صوبہ پنجاب کے وزیر تعلیم مراد راس سے جب ہراسانی کی شکایات سے متعلق پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’بڑا آسان ہے یہاں بیٹھ کر کہانی سنانا کہ ہم یہ کر رہے تھے وہ کر رہے تھے، دراصل کچھ نہیں ہو رہا تھا۔‘

صوبائی وزیر نے یہ بھی اعتراف کیا کہ ’اس معاملے پر کبھی توجہ نہیں دی گئی اور اس متعلق قوانین بھی موجود نہیں۔‘

اگرچہ خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قوانین بنائے گئے ہیں، جیسے کہ 2010 کا وومن پروٹیکشن ایکٹ اور کام کی جگہ پر پیش آنے والی ہراسانی کی شکایت کے لیے ایک خصوصی محتسب کے دفتر کا قیام لیکن تعلیمی اداروں میں ہونے والی جنسی زیادتی یا ہراسانی کے سد باب کے لیے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔

البتہ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن سے منسلک نگہت داد کہتی ہیں کہ مقدمہ یا شکایت لگانے سے پہلے اس بات کا تعین بھی کرنا ضروری ہوتا ہے کہ طالبہ کے ساتھ ہونے والا واقعہ ہراسانی کے زمرے میں آتا ہے یا جنسی زیادتی کے۔

’اگر تو کوئی ٹیچر ایک کم عمر طالبہ سے ایسے پیغامات یا تصاویر شیئر کرے جو معیوب یا جنسی تعلق بنانے سے منسلک ہوں تو وہ جنسی زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہیں۔‘

دوسرا پہلو ریپ یا ہراسانی کے واقعے کے ثبوت اکٹھا کرنے سے منسلک ہے۔ اس بارے میں نگہت داد کا کہنا تھا کہ ’یہ ممکن بنانا مشکل ہو جاتا ہے مگر کسی بھی طرح کا میسج، تصاویر، آڈیو نوٹ جو آپ کے پاس موجود ہوں ان کو سنبھال کر رکھیں۔ یہ چیزیں بہت کام آتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا: ’ایسے کسی بھی واقعے کے رونما ہوتے وقت ویڈیو یا تصویر نہیں بنائی جا سکتی۔ لیکن اس وقت ٹائم کیا تھا، آس پاس کون کھڑا تھا، یہ یاد رکھنا یا اس کا ریکارڈ آپ کی گواہی کو مضبوط بنا سکتا ہے۔‘

بعض اوقات متاثرین کو تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ ہراسانی کے واقعے کے اتنے عرصے بعد کیوں آواز اٹھا رہی ہیں۔

نگہت داد کا کہنا ہے کہ ہراسانی کے قانون میں کوئی حد نہیں ہے کہ آپ کب اپنی شکایت درج کریں۔ ’ہاں، یہ شرط ضرور ہے کہ کیا اس واقعے کے دوران آپ اس اکیڈمی یا سکول میں موجود تھیں یا نہیں۔ اس سے فرق پڑتا ہے۔ ہم اس وقت ہراسانی کے قانون میں بھی مزید ترامیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ متاثرین کو فائدہ پہنچ سکے۔‘

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32294 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp