عدالت میں قتل: دہشت گرد کو بے نام اور بے چہرہ رہنے دو


دہشت گرد کو نام اور چہرے سے محروم کر دینا چاہیے تا کہ معاشرے میں قتل و غارت گری کے علاوہ بھی ہیرو بننے کا کوئی راستہ کھلنے کی امید بن سکے۔

ہماری کہانی اتنی مشکل نہیں ہے۔ کہانی تب مشکل ہو جب ہمارے پاس کچھ تو اچھا بھی ہو۔ لیکن چونکہ کچھ بھی اچھا نہیں ہے، کچھ بھی امید افزا نہیں ہے اس لیے کہانی بہت آسان ہو گئی۔ اس لیے ہمارے مستقبل کی پیش گوئی بالکل بھی مشکل نہیں ہے۔ اگر ذرہ برابر بھی سوچیں تو سب کچھ تو سامنے دیوار پر لکھا ہے۔ کہانی اتنی سادہ ہو گئی ہے۔

کہانی کی حقیقی سائیڈ یہ ہے کہ گھر میں کچھ بھی نہیں سوائے بہن بھائیوں اور چند بوڑھے لوگوں کے۔ گھر میں میرے لیے ایک کمرہ یا ایک آرام دہ بستر یا کھلونے تو بہت دور کی بات ہے۔ یہاں تو کھانے، پینے اور پہننے تک کو کچھ نہیں۔ اور یہ سب کچھ ہو بھی تو کیسے، ابا کو مزدوری نہیں ملتی اور اماں کو مزدوری کے پیسے نہیں ملتے۔ بڑوں کے پاس اور تو کچھ بھی نہیں بس مجھے پیٹنے کا حق اور طاقت ہے ان کے پاس۔ صرف یہی نہیں ان کے پاس تو میری ماں کو بھی پیٹنے کا حق اور طاقت ہے۔ اور اس حق کو گاہے بگاہے مجھ پر اور میری ماں پر استعمال بھی کرتے رہتے ہیں۔ گھر میں اور کچھ بھی تو نہیں پٹنے اور بے عزت ہونے کے خوف کے سوا۔ ماں کو بھی یہی میسر ہے۔

بے عزت ہونے اور پٹنے کا یہی خوف سکول میں بھی ہے۔ سکول کی کتابیں اور استاد دونوں مل کر بوریت اور جہالت پھیلاتے ہیں۔ یہ تو نہیں بتاتے کہ میں اور میری ماں پسماندہ، غریب اور خوفزدہ کیوں ہیں۔ اور یہ اندھیرا کیوں ہے لیکن یہ بتاتے ہیں کہ کئی صدیاں پہلے میں کتنا خوشحال تھا۔ اور یہ بھی کہ دنیا میں موجود ساری روشنی میری ہی وجہ سے ہے۔ ساری دنیا میری وجہ سے ترقی یافتہ ہے سوائے میرے۔ اور یہ بھی کہ دنیا کو ڈر ہے کہ میں کبھی بھی دوبارہ سیدھے راستے پر آ سکتا ہوں۔ اسی خوف سے دنیا میرے خلاف ہے۔ وہ سازشیں کرتے ہیں۔ ان کی سازشوں کا مقابلہ صرف ہیرو کرتے ہیں۔ ویسے ہی ہیروز کی کہانیاں میری کتابیں اور میرے استاد بتاتے ہیں۔ اس دنیا میں سکھ کی خواہش یا کوشش نہ کرو۔ بس اگلی دنیا کا سوچو۔ اگلی دنیا صرف تمھاری ہے۔ وہ دنیا ارتغرل اور نسیم حجازی کے ہیروز کی ہے اور وہ تم ہو۔ یہ افسانے یا ڈرامے نہیں، تمھاری حقیقت ہیں۔

کچھ بھی سیکھنے کا کوئی ذریعہ یا امکان نہیں۔ سوال کرنا نافرمانی ہے، بے ادبی اور گناہ ہے۔ استاد کا ڈنڈا جسم کے جس حصے پر پڑے وہ جنت میں جاتا ہے۔ سکول سے فارغ ہو کر کوئی روزگار نہیں، کوئی کاروبار نہیں۔ ایک اوسط سی زندگی گزارنے کا کوئی امکان نہیں۔ اصل مسئلے کہ ہم غریب کیوں ہیں، میں اور میری ماں خوفزدہ کیوں ہیں، گھر میں سوائے بہن بھائیوں کے اور کچھ بھی موجود کیوں نہیں ہے، ابا، ماسٹر اور مولوی ہر وقت غصے میں کیوں ہیں، میرے دل میں “گندے” خیالات کیوں پیدا ہوتے ہیں یا میں بڑوں کے گندے خیالات کا شکار کیوں ہو جاتا ہوں، ان پر کبھی کسی نے بات ہی نہیں کی۔

میں بیکار، بے بس اور زیرو کیوں ہوں؟ میں ہیرو کیسے بنوں؟ میں ہیرو ہوں اور میں نے ہیرو بن کر دکھانا ہے۔ یہ جو مجھے زیرو سمجھتے ہیں انہیں شرمندہ کر کے چھوڑوں گا۔ اپنا آپ منواؤں گا میں۔ لیکن کیسے؟ کاروبار نہیں، روزگار نہیں، زمین یا کوئی دوسری جائیداد میری ماں اور باپ کی بھی نہیں تھی میری بھی نہیں ہے۔ ایک اوسط درجے کی زندگی (جس میں ایک دوسرے سے محبت کرنے والے دو لوگ، روزگار، باقاعدہ پلاننگ کر کے پیدا کیے گئے ایک یا دو بچے، گھر کے قرضے کی ماہانہ اقساط، کام سے فارغ ہو کر خوش ہونے کے لیے کوئی شغل اور دلچسپی کا سامان، دوسروں کی خوشیوں کے تحفظ کا احساس اور اپنے کام سے کام رکھنا شامل ہے) کا کوئی امکان ہی نہیں۔

ہیرو بننے یا اپنے آپ کو منوانے کا صرف ایک ہی راستہ بچا ہے۔ میرا مذہب خطرے میں ہے۔ سب حاسد ہیں، مخالف ہیں اور اس کی سچائی اور عظمت سے خوف زدہ ہیں۔ میں اپنے مذہب کے تحفظ میں اگر تھوڑی سی دلیری دکھا دوں تو بہت مشہور ہو جاؤں گا۔ میرا نام اور فوٹو ٹی وی اور اخباروں میں آئیں گے۔ ایک ہی چھلانگ سے میں ساری سیڑھیاں پھلانگ کر میں ہیرو بن جاؤں گا۔ جو مجھے زیرو سمجھتے ہیں وہ اپنے ٹی وی کی سکرین پر میرا فوٹو دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے۔ اور کرنا کیا ہے؟ بس چند گولیاں چلانی ہیں یا دھماکہ کرنا ہے۔ ہر سکرین پر میرا چہرا اور میرا نام ہو گا۔ کہانی ختم۔

اب یہ میڈیا اور سرکار پر منحصر ہے کہ وہ ہمارے ذہنی تناؤ کا شکار مایوس نوجوانوں کے لیے ہیرو بننے کا یہ شارٹ کٹ کھلا رکھیں یا بند کر دیں۔ اگر کسی بھی فرقہ وارانہ قتل کے بعد قاتل کا نام اور چہرہ خوب اچھالا جائے گا اور سنسنی پھیلائی جائے گی تو پشاور کی عدالت میں ہونے والے قتل جیسے واقعات مسلسل ہوتے رہیں گے۔ اور اگر ہماری سرکار اور ہمارا میڈیا نیوزی لینڈ کی سرکار اور میڈیا کی طرح ان دہشت گردوں کو بے نام اور بے چہرہ رکھے تو اس ظلم کو روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments