ڈاروں وچھڑی کونج


ایک وقت تھا کہ ہمارے گاؤں میں ہندو خاندان بھی آباد تھے۔ زیادہ پرانی بات بھی نہیں، بس ستر پچھتر برس پہلے۔ بیچ بازار ان کی دکانیں تھیں، کاروبار تھا۔ ستلج کے قریب بسی اس بستی میں مسلمان اور ہندو کئی پشتوں سے اکٹھے بسیرا کرتے آئے تھے۔ جیون پگڈنڈی پہ مل کر چلتے آئے تھے۔ چلتے چلتے کسی کا پاؤں پھسلتا یا قدم ڈگمگاتا تو کئی ہاتھ اسے سنبھالنے کو بڑھ جاتے تھے۔ دکھ سکھ ایک ساتھ جی لیتے تھے۔ ہمارے بزرگ ہم سے کتنے بہتر انسان تھے۔ مذہب کو بنیاد بنا کر نفرت کی کھیتی نہیں کرتے تھے۔ کسان تھے یا دکاندار کبھی مذہب اور عقیدے کو کاروبار نہیں بناتے تھے۔

مکھن کراڑ کا جواں سال لڑکا تھا۔ آنند لال۔ سبھی گھر والے اور گاؤں والے اسے نندی کہتے تھے۔ نندی خدا سے باغی طبیعت لے کر پیدا ہوا تھا۔ اس کے خاندان میں سے کوئی بھی مسلمانوں کے گھر سے کھاتا پیتا نہیں تھا۔ خاندانی ریت تھی اور پرانی پرم پراہ تھی۔ لیکن نندی بچپن سے ہی سب مسلمانوں کے گھروں سے کھا پی لیتا تھا۔ بڑے کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ اس کی زیادہ اچھی نبھتی تھی۔ گوشت بھی کھا لیتا تھا۔ مکھن کراڑ اکثر کہتا تھا ’نندی گل گیا اے۔ ایہہ مسلیاں دے گھروں گوست وی کھا لیندا اے‘ ۔ ( نندی خراب ہو گیا ہے۔ مسلمانوں کے گھروں سے گوشت بھی کھا لیتا ہے ) ۔ نندی کو مسلمانوں کے کھانوں کا چسکا سا لگ گیا تھا شاید۔ کئی کئی دن گھر نا لوٹتا۔ بس جھورو کھوہ، ٹاہلی والے کھوہ، کچے کھوہ، نم والے کھوہ یا مجفریاں والے کھوہ پہ گادھی پہ بیٹھے رہٹ کے بیل کو ہانکتا رہتا۔ دودھ، کنگ، مکھن کے ساتھ روٹی مل جاتی اور ادھر ہی چارپائی بستر پہ پڑ رہتا۔

پھر بٹوارہ ہو گیا۔ فیروزپور چشتیاں میں صدیوں سے بستے ہندو ایک دم سے پردیسی ہو گئے۔ جس کو وہ اپنا پنڈ، اپنا دیس سمجھتے تھے اب وہ پنڈ، وہ دیس ان کا نہیں رہا تھا۔ اپنی ہی بستی میں بیٹھے بٹھائے وہ بیگانے ہو گئے تھے۔ وہ حالات کے اس ظالم پلٹے پہ ہکا بکا تھے۔ یوں ہوا کہ ان کے پاس اپنا جم پل پنڈ چھوڑنے کے سوا اور کوئی بھی چارہ نا تھا۔ کچھ سامان گڈوں پہ لادا اور گاؤں سے نکل گئے۔

اپنا گھر بار چھوڑ کر راما، ہیرا، چوپا، بوٹا، مکھن اور دیگر تمام ہندوؤں کے خاندانوں کے سبھی افراد جا رہے تھے۔ بس ایک نندی نہیں تھا ان کے ساتھ۔ ان سب کو گاؤں، گھر، کاروبار، سگے بھائیوں جیسے دوست یار، اپنے پنڈ میں بیتی پرانی زندگی سب چھوڑنے کا دکھ ہو گا۔ مکھن اور اس کے پریوار کے باقی لوگوں کو ان تمام دکھوں کے ساتھ ایک بڑا دکھ یہ بھی تھا کہ نندی ان کے ساتھ نہیں تھا۔ وہ کہیں چھپ گیا تھا۔ وہ گاؤں چھوڑ کر اپنے خاندان کے ساتھ جانا نہیں چاہتا تھا۔ یہ فیصلہ کتنا مشکل تھا اور اس نے کیسے کیا یہ صرف وہی جانتا ہو گا۔

کچے رستوں پہ ہچکولے کھاتے گڈوں پہ اداس بیٹھے مکھن کراڑ کے پریوار کی آنکھیں گاؤں کو تکتی رہی ہوں گی۔ وہ گڈے پہ پیچھے منہ کر کے بیٹھے ہوں گے۔ نہ جانے کتنی دور تک وہ گاؤں کی راہوں کو اس آس پہ تکتے رہے ہوں گے کہ شاید نندی بھاگتا آ جائے۔ جیسے جیسے گاؤں پیڑوں کی اوٹ میں اوجھل ہوتا گیا ہو گا ویسے ویسے نندی کے قافلے سے آ ملنے کی امید بھی ڈوبتی گئی ہو گی۔ نندی نے اپنا گاؤں نا چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔

مکھن پریوار کے لوگ پاکستان سے نکل کر سرحد پار نہ جانے کہاں جا آباد ہوئے ہوں گے۔ جہاں بھی رہتے ہوں گے ان کی آنکھیں ڈوبتے سورج کی طرف ہمارے گاؤں کو ہی دیکھتی ہوں گی۔ وہ گاؤں جو ان کا اپنا تھا۔ جہاں وہ اب کبھی جا نہیں سکتے تھے۔ اب صرف خیالوں میں وہ گاؤں دیکھتے اور گاؤں کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں میں نندی کو چلتا دیکھتے ہوں گے۔ آواز بھی تو دیتے ہوں گے۔

گاؤں میں اب سب مسلمان رہ گئے تھے۔ نندی بھی آنند لال سے جدا ہو گیا اور دین محمد نام رکھ کر دین محمدی کے پیروکاروں کے ساتھ رہنے لگا۔ بابا بہادر علی چشتی کے پاس رہتا تھا جہاں اس کے کھانے پینے، رہائش اور لباس کا انتظام ہو جاتا۔

کہتے ہیں کہ بعد میں اس کے گھر والوں کے خط بھی نندی کے نام آتے تھے جن میں لکھا ہوتا کہ کس طرح سارا پریوار آج بھی اس کا انتظار کرتا ہے۔ خط سے اندازہ ہوتا تھا کہ ماں منت مانتی ہوگی اس کی واپسی کی۔ رب کے گھر دیے جلاتی ہو گی۔ چوکھٹ پہ آنکھیں دھرے آنگن میں بیٹھی رہتی ہو گی۔ گاؤں کے بزرگ بتاتے ہیں کہ وہ خط پڑھ کر روتا تھا۔ چپکے سے اس کی آنکھیں جھرنے بن کر بہنے لگتی تھیں۔ پگڑی کے پلو سے آنسو پونچھتا رہتا تھا۔ جب وہ اپنی کٹیا میں اکیلا رات کو سوتا ہو گا تو دھاڑیں مار کر روتا ہو گا۔ یا شاید دل پہ پتھر کی ڈھیری جما لیتا ہو۔ گھر والوں کی آس، امید، محبت، انتظار اور بے بسی کو لفظوں میں لپٹا دیکھ کر نہ جانے کیا کیا سوچتا ہو گا۔

لیکن نندی نے گاؤں نہیں چھوڑا۔

کوئی نہیں جانتا نندی نے یہ فیصلہ کیوں کیا تھا۔ ماں باپ، بہنوں بھائیوں، رشتہ داروں کو چھوڑا۔ اپنا مذہب چھوڑا۔ جس مذہب کو قبول کیا اس کے ماننے والوں نے نندی کو پورا قبول نہیں کیا۔ اب وہ دین محمد تھا لیکن گاؤں کے مسلمان ابھی بھولے نہیں تھے کہ نندی ہندو تھا۔ اس کے نام کے ساتھ ’دین دار‘ کا لاحقہ نتھی کر دیا۔ نندی کی دین داری پہ شک کی نگاہیں پڑتی رہیں۔ اس کی شادی بھی شاید اسی وجہ سے نا ہو سکی۔

اب کسے معلوم نندی کے دل پہ کیا گزرتی ہو گی۔ اسے ماں باپ کی محبت یاد آتی ہو گی۔ اس کا دل ضرور بھر آتا ہو گا جب گاؤں میں وہ ایک اجنبی سی زندگی جیتا ہو گا۔ جس گاؤں کے لیے اس نے اپنا سب کچھ چھوڑا اسی گاؤں میں اب اس کی حیثیت ایک اجنبی کی سی تھی۔ ڈار سے وچھڑی کونج تھا نندی۔

دین محمد انیس سو اٹھہتر کے یخ بستہ دسمبر میں دنیا چھوڑ گیا۔ گاؤں کے قبرستان میں ہمیشہ کے لیے بس گیا۔ مر کر بھی گاؤں نہیں چھوڑا۔ اس کی قبر پختہ اینٹوں اور سیمنٹ سے بنائی گئی ہے۔ مستری نے قبر پہ اس کا نام کندہ کر دیا تھا ’دین محمد ولد مکھن۔ قوم دین دار۔ تاریخ وفات چودہ دسمبر سن انیس سو اٹھہتر‘

لوگ کہتے ہیں کہ نندی سیدھا جنت میں گیا ہو گا کیونکہ وہ مسلمان ہو گیا تھا۔ لیکن یہ کوئی نہیں جانتا کہ جنت پہنچنے سے پہلے اسے کتنے دوزخ پار کرنے پڑے ہوں گے۔

مکھن کراڑ اور نندی دکاندار تھے۔ حساب کتاب لگاتے ہوں گے کہ بٹوارے میں کیا کھویا کیا پایا۔ خسارے کے سوا کیا ہاتھ لگا ان کے؟

احمد نعیم چشتی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

احمد نعیم چشتی

احمد نعیم چشتی درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔ سادہ اور چھوٹے جملوں میں بات کہتے ہیں۔ کائنات اور زندگی کو انگشت بدنداں تکتے رہتے ہیں۔ ذہن میں اتنے سوال ہیں جتنے کائنات میں ستارے۔ شومئی قسمت جواب کی تلاش میں خاک چھانتے مزید سوالوں سے دامن بھر لیا ہے۔

ahmad-naeem-chishti has 76 posts and counting.See all posts by ahmad-naeem-chishti

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments