مقبوضہ کشمیر، مودی حکومت اور یوم استحصال


کشمیر کی جدوجہد آزادی اب محض کشمیر یا پاکستان اور بھارت کا مسئلہ نہیں۔ یہ مسئلہ ایک عالمی حیثیت اختیار کر گیا ہے او رجب بھی اس خطہ کی سطح پر امن، سلامتی او رخوشحالی کی بات ہوتی ہے تو مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کو ایک اہم نوعیت کا مسئلہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان او ربھارت کی سطح پر جو تعلقات میں بگاڑ یا بداعتمادی موجود ہے اس کا بھی ایک بنیادی نکتہ مقبوضہ کشمیر کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ اگرچہ بھارت کشمیر کے مسئلہ کو نظرانداز کرکے تعلقات کی بحالی کا خواہش مند ہے، لیکن پاکستان دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ کشمیر کے مسئلہ کو بنیادی طور پر کشمیریوں کی اپنی خواہش کے مطابق حل کرنے کا خواہش مند ہے۔ اس وقت پورے خطہ کی سیاست میں ملکوں کی سطح پر جو بھی تنازعات موجود ہیں ان میں ہم کشمیر کے مسئلہ کو کسی بھی سطح پر نظرانداز نہیں کرسکتے۔

ایک برس قبل بھارت میں انتہا پسند او رہندواتہ پر مبنی سیاست کے ترجمان نریندر مودی نے چھ اگست 2019 کو مقبوضہ کشمیر کی آزاد حیثیت کو چیلنج کرتے ہوئے وہاں آرٹیکل 370 اور 35۔ Aکا نفاذ کیا جس کا مقصد مقبوضہ کشمیر کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرنا اور وہاں کے انتظام کو دہلی سے کنٹرول کرنا تھا۔ اس قانون کے نفاذ کے لیے مودی حکومت کو مقبوضہ کشمیر میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کے نتیجے میں ان مقامی کشمیریوں کو ایک برس سے کرفیو کا سامنا، پرتشدد واقعات، انسانی حقوق کی بدترین پامالی اور بھارتی ریاستی جبر و ظلم کا سامنا ہے۔

عملی طور پر مقبوضہ کشمیر کی زندگی کا نظام مفلوج ہے او رلوگ جبر، خوف اور ڈر کے سائے میں رہ رہے ہیں۔ زندگی کا نظام مکمل طور پر مفلوج ہے۔ مقامی آزدانہ نقل و حمل، آمدورفت، پیغام رسانی، مواصلات، انٹر نیٹ سہولت، تعلیمی سرگرمی، سیکورٹی اداروں کا ہتک آمیز سلوک، بچوں اور عورتوں سمیت بزرگوں کے ساتھ بے حرمتی، گرفتاریاں، قید وبند کی صعوبتیں، تشدد، لوگوں کو گھروں تک محصورکرنا، ہسپتالوں تک عدم رسائی جیسے اہم معاملات سرفہرست ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ مودی سرکار کے اس ردعمل یا پالیسی نے مقبوضہ کشمیر میں موجود دہلی سرکار کے خیر خواہ فاروق عبداللہ، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی کو بھی مودی حکومت کے خلاف مزاحمت پر مجبور کیا ہوا ہے۔

اس وقت مقبوضہ کشمیر میں موجود کشمیریوں کا چار سطحوں پر مسائل کا سامنا ہے۔ اول دہلی حکومت کی طرف سے آئین کی شق 370، 35۔ A کا نفاذ، دوئم انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں کا سامنا، سوئم مسلم دشمنی کی لہر، چہارم عالمی دنیا کی طرف سے بھارتی جارحیت پر کسی بھی اہم سطح پر بڑی مزاحمت کا سامنے نہ آنا شامل ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کی جدوجہد سیاسی محاذ پر سرگرم ہے اور وہ یہ ہی چاہتے ہیں کہ ان کی یہ جنگ اسلحہ یا بارود کی بجائے سیاسی پرامن حل کی صورت میں حل ہو سکے۔ لیکن مقبوضہ کشمیر میں موجود نوجوانوں میں برہان وانی کی شہادت کے بعد یہ احساس بڑھ رہا ہے کہ مسئلہ پرامن سیاسی حل کی بجائے طاقت کی بنیاد پر ہی حل ہوگا۔ لیکن کشمیری قیادت باربار نوجوانوں کو اس نکتہ کی طرف لاتی ہے کہ ہمیں جنگ کی بجائے مسئلہ کو سیاسی بنیادوں پر ہی حل کرنے کی جدوجہد کرنی ہے۔

پچھلے ایک برس میں آئین کی شق 370 اور 35۔ Aکے نفاذ کے بعد عالمی انسانی حقوق سے جڑے اداروں کی تواتر سے رپورٹس جاری ہوئی ہیں۔ ان میں ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومین رائٹس واچ، یورپی یونین، امریکہ او ربرطانیہ میں موجود مختلف انسانی حقوق سے جڑی پارلیمانی سطح پر کمیٹیوں اور عالمی میڈیا کے بڑ ے ادارے بی بی سی، سی این این، وائس آف جرمنی سمیت دیگر اداروں نے مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں پر سخت تنقید کی ہے۔

2018 میں 49 صفحات پر مشتمل یو این رپورٹ مقبوضہ کشمیر کے تناظر میں جاری ہوئی جس کا ٹائٹل ”کشمیر دنیا کا خوبصورت ترین قید خانہ“ ہے جاری ہوئی تھی۔ اس رپورٹ میں بھارت کی ریاست، حکومت اور فوج سمیت سیکورٹی اداروں کی طرف سے کی جانے والی بدترین انسانی حقوق کی پامالیوں پر مبنی بہت سی کہانیاں پڑھنے کو ملی تھیں۔

پاکستان مقبوضہ کشمیر او رکشمیر ی جدوجہد کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم نکتہ سمجھتا ہے۔ اسی نکتہ کو بنیاد بنا کر ہم پاک بھارت تعلقات او رخطہ کی داخلی سیاست اور عالمی تعلقات کو دیکھتا ہے۔ لیکن پاکستان کی پالیسی کا اہم نکتہ کشمیریوں کے گرد گھومتا ہے او رپاکستان کے بقول جو بھی فارمولہ پاکستان او ربھارت میں کشمیر کے بارے میں طے ہوگا وہ کشمیریوں کی خواہشات سے جڑا ہوگا، کیونکہ پاکستان کشمیر کو ایک اہم بنیادی فریق سمجھتا ہے او راس بات کی نفی کرتا ہے کہ دونوں ممالک پاکستان او ربھارت کوئی ایسا فیصلہ کریں جو کشمیریوں کو قابل قبول نہ ہو۔ اسی طرح ہم روایتی انداز یا فارمولے کی بجائے بھارت سے کشمیر کے معاملات پر Out of Box جاکر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ مسئلہ کے حل کے لیے ہمیں غیر معمولی فیصلے کرنے ہوں گے ۔

اہم بات جو پاکستان کے حق میں بھی جاتی ہے کہ عالمی انسانی حقوق کی بڑی تنظیمیں اور عالمی میڈیا کی رپورٹس بھارت کی کشمیر پالیسی سمیت انسانی حقوق کی پامالی پر سخت تنقید کرتی ہیں۔ اسی طرح مودی کی مقبوضہ کشمیر میں انتہا پسند او رپر تشدد یا طاقت کے زور پر لوگوں کو دبانے پر مبنی پالیسی پر خود بھارت کے اندر بھی سخت ردعمل پایا جاتا ہے۔ بھارت میں موجود انسانی حقوق، فن کار، صحافی، فن کار، رائٹر، سیاست دان سب ہی مودی کی کشمیر سمیت بھارت میں انتہا پسندی یا تشدد کی پالیسی کو چیلنج کر رہے ہیں۔ بھارت سیاسی طو ر پرمقبوضہ کشمیر کی پالیسی پر داخلی سطح سمیت خارجی محاذپر بھی شدید تنقید کی ذد میں ہے۔ اس وقت اگر بھارت کو اس بحران سے کوئی بچا سکتا ہے تو اس کی آخری امید بھارت کی اعلی عدلیہ یعنی سپریم کورٹ ہے جو مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کو بڑا ریلیف دے سکتی ہے۔

پاکستان جو کشمیر کی صورتحال پر ایک بڑا فریق ہے اس کو اس بحران کے تناظر میں پانچ بڑے کام کرنے ہوں گے ۔ اول وہ مقبوضہ کشمیر کی موجودہ جنگی جنونیت اور بدترین انسانی حقوق کی پامالی پر مبنی صورتحال کوبنیاد بنا کر اس مسئلہ کی عالمی حیثیت کو زندہ رکھے۔ پاکستان کو یہ بیانیہ بڑھانا ہوگا کہ یہ مسئلہ محض کشمیر یا پاک بھارت تک محدود نہیں بلکہ عالمی مسئلہ ہے اور جب تک بڑے عالمی فریق اس میں ذمہ دارانہ کردار ادا نہیں کریں گے، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

ہمیں عالمی دنیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں ”انسانی حقوق کی پامالی“ کو بنیاد بنانا ہوگا۔ دوئم ہمیں یہ جنگ سفارتی اور ڈپلومیسی کے محاذ پر لڑنی ہے تو ہمیں اپنے تام سفارت کاروں، سفارت خانوں کو کشمیر بیانیہ پر متحرک کرنا ہوگا او رجو پاکستان یا مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کی پالیسی ہے اسے عالمی دنیا کی توجہ کا مرکز بنانا ہوگا۔ ایک متحرک، فعال پالیسی جس کی بنیاد جذباتیت سے زیادہ شواہد پر ہو او ریہ پالیسی مقبوضہ کشمیر کی قیادت کی آمنگوں کی ترجمان ہونی چاہیے۔

سوئم ہمیں اپنی پارلیمنٹ، کشمیر کمیٹی سمیت ہر فورم کو متحرک کرنا ہوگا جو اپنا کردار اداکرنے کے ساتھ ساتھ عالمی دنیا میں موجود بڑی پارلیمنٹ کو بھی اس بحث کا حصہ بناسکے۔ چہارم ہمیں عالمی دنیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ایک مضبوط میڈیا درکار ہے جو مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تضاد پر مبنی پالیسی، انسانی حقوق کی بدترین پامالی اور کشمیری پرامن سیاسی جدوجہد کو بنیاد بنا کر عالمی رائے عامہ کو متحرک کرسکے۔ پنجم ہماری سیاسی و فوجی قیادت کو کشمیر کے معالات پر ایک دوسرے کے خلاف سیاسی اسکورنگ کرنے کی بجائے ایک مشترکہ بیانیہ ترتیب دینا ہوگا او راس تاثر کی نفی کرنا ہوگی کہ کوئی بھی فریق کشمیر کے معاملے میں سنجید ہ نہیں یا وہ کسی سمجھوتے کی سیاست کا شکار ہوگیا ہے۔ ہمیں بالخصوص چین سمیت علاقائی ممالک کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر اپنے قریب لانا ہوگا۔ جو کچھ بھارت نے لداخ میں کیا ہے اس کے بعد خود چین بھی مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر ایک بڑا فریق بن گیا ہے۔

بہتر ہوگا کہ بھارت صورتحال کو کسی بند گلی میں لے جانے کی بجائے طاقت کے استعمال کو چھوڑ کر سیاسی راستہ اختیار کرے۔ یہ راستہ سیاست، مفاہمت او ربات چیت کی پالیسی اور لچک پیدا کرنے سے ہی ممکن ہوگا۔ وگرنہ دوسری صورتحال جو جنگی جنون یا انتہا پسندی پر مبنی ہے جواس پور ے خطہ کی سیاست کو ایک بند گلی میں دکھیلے گی۔ اس منفی سیاست کا نتیجہ خوشحالی کی بجائے اس خطہ کی سیاست کو سیاسی عدم استحکام سمیت غربت او رنفرت کی سیاست کو طاقت دینے کا سبب بنے گا۔ اب وقت ہے کہ بھارت کو اپنی سخت گیر پالیسی سے گریز کرتے ہوئے مسئلہ کا سیاسی حل تلاش کرنے کو ہی اپنی حکمت عملی کا حصہ بنانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments