”یوم یکجہتی کشمیر“ سے ”یوم استحصال“ تک


ہر سال 5 فروری یوم یکجہتی کشمیر کے موقع پر متعدد اردو اخبارات کے خصوصی اشاعت والے صفحات پر تقریباً صفحہ اول کی تمام بڑی جماعتوں کے عمائدین کے مضامین چھپتے ہیں اور ہر مضمون نگار نسل نو کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتاہے کہ یوم یکجہتی کشمیر منانے کا سہرا ان کے قائد کے سر جاتا ہے ۔ ان تمام مضامین میں تحریک انصاف کا کوئی ذکر نہیں بن پاتا تھا۔ اس لیے ”یوم استحصال“ کی تجویز دینے والا کارکن یقیناً شاباش کا مستحق ہے کہ اس نے عمران خان صاحب کو اس مقابلے میں بھی دوسری جماعتوں کے سامنے سرخرو کر دیا کیونکہ اس اقدام کے بعد تحریک انصاف 5 فروری والے دن آ پس میں لڑنے والی جماعتوں سے سبقت لے گئی ہے۔

اور تن تنہا 5 اگست کی وارث بن بیٹھی ہے۔ پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی بدولت سب آ ن دی ریکارڈ ہے یوں کچھ برسوں کے بعد دوسری جماعتیں اس کا کریڈٹ نہیں لے پائیں گی۔ اس کے لیے شکریہ ذرائع ابلاغ کا۔ نہیں تو میرے ہم عصر ابھی تک یہ گتھی نہیں سلجھا سکے کہ 5 فروری والا کارنامہ کس کا ہے۔ پیپلز پارٹی، ن لیگ یا پھر جماعت اسلامی۔ اس ذہنی الجھن سے نکلنے کے لیے میرے وطن عزیز کا سنجیدہ طبقہ 5 فروری والے روز کسی جماعت کے بلند و بانگ دعوؤں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے یوم یکجہتی کشمیر کے حقیقی مقصد کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتاہے۔

یوم یکجہتی کشمیر کا کریڈٹ اگر کسی کو جاتا ہے تو وہ پاکستانی اور کشمیری عوام کو جاتا ہے ۔ نا کہ سیاسی جماعتوں کو جو کشمیر کو بھی اپنے سیاسی عزائم کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

یقین جانیے تہاڑ جیل میں قید بوڑھے کشمیری رہنماؤں کو نا تو پاکستان کی سیاسی جماعتوں کے سیاسی عزائم سے کوئی غرض ہے اور نا ہی حکومت وقت کے سیاسی نقشے سے۔ وہ 1947 ء سے لے کر آ ج تک قائد اعظم محمد علی جناح کے ان الفاظ کی پاسداری کر رہے ہیں کہ

”کشمیر، پاکستان کی شہ رگ ہے“

اور ان کا یہ ایمان ہے کہ ”کشمیر، بنے گا پاکستان“ اور اس کو تقویت دینے کے لیے کشمیری روز اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر تے ہیں۔ ان کشمیری بوڑھوں بلکہ کشمیر کے بچے بچے کا عشق پاکستان ہے اور اس عشق کا اندازہ شاید حکومت وقت کے عقلمندوں کو نہیں ہے۔ بقول شاعر،

ان عقل کے اندھوں کو الٹا نظر آ تا ہے
مجنوں نظر آتی ہے، لیلی نظر آ تا ہے۔

سیاسی دکان چمکانے والے یہ کبھی نہیں سمجھ سکتے کہ دن منانے، سڑکوں کے نام بدلنے، سیاسی نقشے پیش کر نے سے وہ جدوجہد آزادی کشمیر کو کمزور کر رہے ہیں۔ کیونکہ کشمیریوں کی جنگ کوئی جغرافیائی جنگ نہیں بلکہ نظریاتی یا یوں کہہ لیجیے خالصتاً انسانی حقوق کی جنگ ہے۔ سڑکوں کے نام بدلنے والے شاید اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ کشمیریوں کے دلوں کے راستے پاکستانی ہیں بلکہ مذہبی، سیاسی، لسانی، سماجی اور جغرافیائی ہر اعتبار سے پاکستانی ہیں۔

اگر آ ج اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری ہوتو اس کا نتیجہ بھی پاکستانی نکلے اور مختلف دن منانے والے کب سمجھ پائیں گئے کہ کشمیری پاکستان بننے سے پہلے بھی پاکستانی تھے اور آ ج بھی پاکستانی ہیں۔ وہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا تقسیم ہند کا فارمولا ہو یا نہرو کے اقوام متحدہ میں کیے گئے وعدے۔ تاریخ کا ہر ورق چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ کشمیر، بنے گا پاکستان۔ نقشے بنانے والو خدا را یہ سمجھنے کی کوشش کروکہ کشمیریوں کی جنگ کوئی جغرافیائی جنگ نہیں۔ یہ ایک خالصتاً انسانی حقوق کی پامالی کا مسئلہ ہے۔

آ پ لوگوں کی ایک منٹ یا پانچ منٹ کی خاموشی اس ماں کہ دکھ کا مداوا نہیں کر سکتی جس کا جوان بیٹا اس کی آ نکھوں کے سامنے شہید کر دیا گیا ہو۔ اس باپ کا سہارا نہیں بن سکتی جس کا بیٹا ایک سال پہلے پولیس اٹھا کے لے گئی ہو اور اس کی کوئی خیر خبر نہ ہو۔

ہندوستان کی سات لاکھ سے زائد قابض فوج نہتے کشمیریوں کے انسانی حقوق پامال کر رہی ہے۔ جس پر اقوام عالم نے مجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ رائے شماری کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادیں عمل درآمد کی منتظر ہیں۔ ہندوستان، دنیا کے سامنے کشمیریوں کو دہشتگرد بنا کر پیش کر رہا ہے۔ مودی اپنے ”ڈیڈی“ نہرو کے اقوام عالم سے کیے گئے وعدے بھول چکا ہے۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں نے کشمیریوں پر ہوتا ظلم و ستم دیکھ کر چپ سادھ رکھی ہے۔ ایک سال سے کشمیری عوام کا محاصرہ جاری ہے۔ زبردستی آبادکاری کی جا رہی ہے ریاست باشندہ کی حیثیت کو پامال کیا جا رہا ہے۔ آ رٹیکل 370 کی تنسیخ ہوچکی ہے۔ ایسے میں سیاسی نقشے بناتے پھرنا کشمیر پر اپنے موقف کو کمزور کر نے کے مترادف ہے۔

5اگست 2019 کے ہندوستان کے یک طرفہ اقدام کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ جموں و کشمیر کی ”ہندوستان دوست“ آوازیں بھی خاموش ہو گئی ہیں۔ اس صورتحال میں اگر اس پار ایک مثبت رویہ اپنایا جاتا اور مسئلہ کشمیر کو انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں کے سامنے پیش کیا جاتا تو ہمیں شاید یہ سیاسی نقشے بنانے کی ضرورت نہ پڑتی۔

ابھی بھی وقت ہے حکومت وقت سیاسی خواہشات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حقیقی معنوں میں کشمیر کی ترجمان بنے۔ اور اپنی توانائیاں دن منانے، نقشے بنانے، سڑکوں کے نام بدلنے پر نہ صرف کرے بلکہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے آواز اٹھائے جو کشمیریوں کا حق ہے اور جس کی حمایت اقوام متحدہ کی متعدد قراردادیں کرتی ہیں۔ اوراس ایک نکتے پر وزیراعظم پاکستان کو اقوام متحدہ، انٹرنیشنل ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے سامنے اپنا موقف پیش کر نا چاہیے۔ تبھی وہ کشمیریوں کے سفیر بن سکتے ہیں۔ کیونکہ ہم پچھلی کئی دہائیوں سے مسئلہ کشمیر لے کر کبھی امریکہ کے پاس جا رہے ہیں اور کبھی برطانیہ سے بات کر رہے ہیں تو کبھی روس اور چین کے پاس جا رہے ہیں میں مانتا ہوں کہ یہ تمام اقدام نیک نیتی پر مشتمل ہیں مگر یہ چیز یں ہمیں اپنی منزل سے دور کر رہی ہیں۔

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے،
یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments