ڈونلڈ ٹرمپ پر کتاب کا ریویو (آخری حصہ 2 / 2 )


گزشتہ سے پیوستہ

کتاب کے دوسرے حصہ کا عنوان دا رنگ سائیڈ آف دی ٹریکس میں مری نے ٹرمپ کی بھدی اور ناپسندیدہ حرکات وسکنات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ نیویارک ملٹری اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہونے کے بعد ٹرمپ نے فورڈھم Fordhamیونیورسٹی میں داخلہ لیاجس میں حاضری کی سختی و پابندی نہ ہونے کی وجہ سے اس کا بہت سا وقت لڑکیوں کو چھیڑنے اور ان کو چڑانے میں گزرتا۔ ڈونلڈ کا فلرٹ کرنا ایسا ہوتا کہ دوسروں کی بے عزتی کرنا، ان کو کم تر سمجھنا اور خود کو برتر سمجھنا۔

ساتھ ساتھ اس نے ٹرمپ مینجمنٹ میں والد فریڈ کے ساتھ کام کرنا شروع کیا جو ڈونلڈ کے اکھڑ اور متکبرانہ روایہ کو پسند کرتا اور سراہتا تھا کیونکہ ڈونلڈ باپ کی طرح دوسروں کو انسان نہ سمجھنا اور معاشرے کے قوانین کو پامال کرنا اور روندنا اچھا گردانتا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ ڈونلڈ نے تعلیم جاری رکھنے کی لیے یونیورسٹی آف پینسلوانیا Pennsylvania میں داخلہ کی خواہش ظاہر کی چونکہ ڈونلڈ ذہنی کم تر اور نالائق تھا اس نے یونی کے سیٹ SAT کے امتحان میں اپنے دوست کو پیسے دے کر امتحان پاس کرنے کا کہا تب یونیورسٹی جدید سہولیات سے نا آشنا تھی اور ڈونلڈ نے ساتھ ہی فریڈی کو جس کا دوست داخلہ دفتر میں تھا مدد کرنے کو کہا اور ڈونلڈ کا آسانی سے داخلہ ہوگیا۔ دوسری طرف فریڈی جو مسلسل باپ کی لاپرواہی، ذلت اور رسوائی کا شکار ہوتا رہا شراب نوشی کی لت میں گھرتا چلا گیا۔ فریڈی نے علیحدہ گھر کے لیے دس سال باپ کے ساتھ کام کرنے کی تنخواہ مانگی جو فریڈ نے دینے سے انکار کر دیا اور اس کو باپ کے ہوٹل میں فلیٹ میں رہنے پر مجبور کیا۔

1968 میں ڈونلڈ گریجویٹ ہو کر واپس آکر فریڈی کی جگہ ٹرمپ مینجمنٹ میں پریزیڈنٹ کی پوسٹ پر کام کرنے لگا جس میں پہلے سے چوبیس افراد تعینات تھے۔ ڈونلڈ چونکہ سہانے خواب دکھانے اور خود کو بڑھ کر ظاہر کرنے مین ماہر تھا کی موجودگی کو فریڈ نے اپنے مطلب کے لیے استعمال کیا۔ ڈونلڈ جو کہ کند دماغ اور منہ پھٹ تھا نے ٹرمپ مینجمنٹ کو بڑھانے میں مدد دی۔ کیونکہ فریڈ کو اس کا جابرانہ جارحانہ انداز اور ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی پسند تھی۔ روپیہ کے معاملے میں فریڈ نے ڈونلڈ کو نہ روکا اور اس کو امیرانہ انداز اپنانے دیا۔

ڈونلڈ لوگوں کو سنہرے اور سہانے خواب دکھانے میں ماہر تھا جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہ تھا۔ دوسری طرف فریڈی کی لنڈا جو کہ کتاب کی لکھاری مری کی والدہ تھی کے ساتھ طلاق ہو گئی اور فریڈی اکیلا فلیٹ میں رہنے لگا۔ مزید ذہنی معذوری کا شکار ہوتا گیا۔ مری فریڈ کا انٹرویو ڈونلڈ کے بارے میں لکھتی ہے کہ فریڈ نے کہا ”ڈونلڈ کی کامیابی اس کے اپنے کاموں اور عظیم ویژن کا نتیجا ہے۔ فریڈ نے اس کی رسی کو چھوڑا اور ڈونلڈ جس چیز کو ہاتھ لگاتا وہ سونا بن جاتی“ اس بات سے مری اختلاف کرتے ہوئے اس کے برعکس لکھا کہ وہ لالچی، نا اہل اور گھمنڈی تھا جس میں بڑی خوبی جھوٹ کو سچ کر کے بتانا غلطی پر ڈٹ جانا اور دوسروں کے ساتھ بے حسی سے پیش آنا۔

دوسری طرف فریڈی کی بتالیس سال کی عمر میں اچانک موت واقع ہو گئی مری کے مطابق کسی فرد نے بھی دکھ کا اظہار نہ کیا حتی کہ جب اس کو ہسپتال لے جایا گیا تو کوئی بھی اس کے ساتھ نہ گیا اور شام کو ہسپتال سے مری کے باپ فریڈی کی موت کی اطلاع آئی۔ اس طرح اس بے حس اور سوشیوپیتھ خاندان نے اپنے رویے ظالمانہ اور مغرورانہ رکھے۔ کتاب کا اگلا حصہ فریڈ کی ذہنی کمزوری کی بیماری کے بارے میں کہ وہ لوگوں کے چہرے اور نام بھول جاتا۔

اس حالت میں ڈونلڈ باپ سے حقارت سے پیش آتا ویسا ہی جیسا فریڈ بیٹے فریڈی کے ساتھ۔ روز بروز بیماری کی شدت میں اضافہ ہوتا گیا اور 1999 میں موت واقع ہو گئی۔ چند دن بعد مری کو فریڈ کی وصیت وصول ہوئی جس میں ان کو کوئی بھی حصہ نہی دیا گیا۔ مری نے کیس کر کے فریڈی کا بیس فیصد جائیداد میں لینے کی کوشش میں ٹرمپ خاندان سے منہ ماری کی۔ دو سال بعد ڈونلڈ کی ماں کی موت کے بعد دوبارہ وصیت میں فریڈی کی ساری فیملی لائن کو ہی بے دخل کر دیا گیا۔ مری کے مطابق اس کے چچا اور آنٹیوں نے جاگیر جو کہ کروڑوں ڈالر کی تھی ہڑپ کر لی۔ اس کے بعد ایونکا کی شادی میں سب دوبارہ اکٹھے ہوتے تب ڈونلڈ نے ان کو آگے لگایا ہوا تھا اور سب اس سے پریشان تے۔

2016 میں نیوز کے نمائندہ نے مری کو انٹرویو کے لیے مدعو کیا۔ اس کے بعد 2018 میں نیو یارک ٹائم نے یہ انکشاف کیا کہ فریڈ اور اس کے بیٹے بینک کے ساتھ فراڈ دھوکہ اور غلط بیانی سے کام لیتے رہے ہیں۔ مری اس میں کوئی خاص مدد نہی کر پائی اور ڈونلڈ کے وکیل نے ان الزمات کو رد کر دیا۔ حالانکہ فریڈ اور ڈونلڈ دھوکے سے لاکھوں ڈالر ہڑپ کر چکے ہیں اور بنک کا قر ض لے کر اور ٹیکس نہ ادا کر کے بھی صدر منتخب ہو گیا۔ جو کہ امریکہ کی جمہوریت کے لیے بدنامی کے سوا کچھ نہی۔

ڈونلڈ صرف اپنے بارے میں سوچتا اور بیوقوفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جو کہ اس کی فطرت میں شامل ہے ملک کی ساکھ کو داؤ پر لگانے آ گیا۔ مری کہتی ہے کہ مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ لوگوں نے اس میں ایسا کیا دیکھا جو ووٹ ڈالے اور نمبر ون ملک کا صدر بنایا۔ آخری باب میں مری نے ڈونلڈ کی نالائقیوں اور غلط فیصلوں پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ کسی سانحہ سے کم نہی تھا کہ اس کا صدر منتخب ہو جانا۔ کیونکہ اس کے پاس ملک کو بہتر بنانے کے لیے کوئی پالیسی نہی ہے اور اس نے ان اداروں کو بھی کرپٹ اور ڈی گریڈ کیا جو امریکہ کی ترقی میں معاون تھے۔

شروع میں بھی فریڈ اس کی غلطیوں کو نظر انداز کرتا کیونکہ اس کے پاس دوسرا آپشن موجود نہی تھا۔ فریڈ کثرت سے پیسے دیتا جس کی بنیاد پر اس نے ٹرمپ ٹاور بنایا۔ اور ہر بار ناکامی کے بعد بھی بولڈ اور سطحی اقدام لیتا سب سے بڑھ کر جھوٹ کا سہارا۔ جیسا اس نے کووڈ 19 کے دوران لیا۔ مری کے مطابق ڈونلڈ آج بھی ایسا جیسا تین سال کا بچہ ہوتا ڈرپوک، نا اہل، ذہنی پولیو کا شکار اور جس کی تربیت نہ کی جا سکتی ہو۔ جس کو اپنے احساسات اور کس کو کیا جواب دینا نہ پتہ ہو۔

آج بھی ڈونلڈ لوگوں میں نسل پرستی اور تشدد کو پروموٹ کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ اس کا یہ رویہ پہلے دن سے ہے۔ اس نے اپنے جھوٹ کو سچ سمجھ لیا اور ہر بار بولڈ اور نہ پورے ہونے والے بیان دیتا۔ اس کی کوشش ہوتی کہ ہر وہ چیز جو یہ دل میں سوچتا اس کو حاصل کر لیا جائے۔ مزید کورونا کے حوالے سے اس کی پالیسی کی ناکامی اس کی نا اہلیت کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ حالات حاضرہ کی چند مشہور مثالوں میں سے جارج فلوئیڈ کے قتل کے بعد ملک میں افرتفری بڑھنے کے حوالے سے اس کی ظالمانہ اور متشددانہ عادت کا ذکر کرتی کہ لوگ اس کے قہر کا شکار ہو رہے ہیں۔ اس نے بر وقت کورونا کی تدابیر پر عمل درآمد نہ کرواتے ہوئے ملک کی معیشت کو اور لوگوں کی جانوں کو خطرے میں ڈالا جو کہ اس کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

کتاب کو لکھاری نے جس انداز سے لکھا اس سے لطف اٹھانے کے لیے اور بہت کچھ سیکھنے کے لیے پڑھنا ضروری ہے۔ کردار کسی کامیڈی فلم سے کم نہییں ہیں۔ مری نے واضح انداز میں ایک نسل پرست اور مغرور انسان کی کہانی بہت والہانہ انداز میں بیان کی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).