مسلم لیگ ن میں بڑھتا ہوا انتشار


سیاسی جماعتوں میں داخلی سیاسی بحران کا ہونا ایک فطری امر ہے۔ لیکن اہم بات یہ نہیں کہ سیاسی جماعتوں میں داخلی بحران کیونکر ہے بلکہ اس سے بڑی بات اس بحران سے سیاسی، انتظامی طور پر نمٹنے سے بھی جڑا ہوتا ہے۔ عمومی طور پر سیاسی جماعتوں کی قیادت اول تو اپنے داخلی سطح کے بحران کو قبول ہی نہیں کرتی۔ ان کے بقول پارٹی میں کوئی بحران نہیں اور جو بحران دکھایا جا رہا ہے وہ مخالفین کی سیاسی مخالفت یا مہم کے سوا کچھ نہیں ہے۔ دوئم اگر سیاسی جماعتیں تسلیم بھی کر لیں کہ ان میں داخلی بحران ہے تو اس بحران کو سیاسی انداز سے نمٹنے یاصورتحال کی سنگینی کو سمجھ کر آگے بڑھنے کی صلاحیت کم اور معاملات کو مزید خرا ب کرنے کی صلاحیت زیادہ غالب نظر آتی ہے۔

مسلم لیگ ن ایک سیاسی حقیقت ہے۔ اس کے سیاسی مخالفین بھی اسے ایک بڑی سیاسی جماعت کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اس جماعت کا حقیقی ووٹ بینک بھی نواز شریف کی اپنی سیاست کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ البتہ اس جماعت نے خود کو پنجاب کی سیاست تک زیادہ محدود کرکے اپنی توجہ دیگر صوبوں پر کم دی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ آج ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی حقیقی سیاسی طاقت کا اصل مرکز بھی سندھ اور پنجاب ہے۔

اس وقت مسلم لیگ ن کے پاس قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں حزب اختلاف کی قیادت ہے۔ مرکز میں شہباز شریف اور پنجاب میں شہباز شریف کے بڑے بیٹے حمزہ شہباز قائد حزب اختلاف ہیں۔ دونوں کا سیاسی ریموٹ کنٹرول عملی طور پر لند ن میں موجود نواز شریف کے ہاتھوں میں ہے۔ شہباز شریف اور حمزہ شہباز نیب کے قانونی شکنجے میں بھی جکڑے ہوئے ہیں۔ دیگرسیاسی وجوہات میں ایک وجہ عدم فعالیت کی یہ بھی ہے۔

بدقسمتی سے عمران خان کی مرکز اور پنجاب میں حکومت کے خلاف ہمیں مجموعی طور پر حزب اختلاف اور خاص طو رپر مسلم لیگ ن کی بطور حزب اختلاف کارکردگی کا کوئی بڑا سیاسی اثر دیکھنے کو نہیں ملا۔ شہباز شریف بیماری، نیب اور کرونا بحران سمیت اپنے اندر موجود شخصی یا سیاسی داخلی سطح کے اختلاف یا تضادات کی وجہ سے کافی کمزور پوزیشن پر کھڑے ہیں۔ حمزہ شہباز کی سیاست بھی والد کے مرہون منت ہے اور وہ بھی عملی طور پروالد کی سیاست کی وجہ سے خاموشی کا ہی کردار ادا کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن میں ایک طبقہ کا بڑا جھکاؤ نواز شریف اور مریم نواز کی سیاسی حکمت عملی یا مہم جوئی ہے تو دوسرا طبقہ عملاً شہباز شریف کی خاموش مفاہمت یا اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ خاموش ڈپلومیسی کے ساتھ کھڑا ہے۔ اس تضاد نے پارٹی کو عملی طور پر نہ صرف دو حصوں میں تقسیم کر دیا ہے بلکہ پارٹی کے بیشتر قومی وصوبائی اسمبلی کے ارکان، سینٹر ز اور پارٹی کے اہم راہنماؤں کو کنفیوزن کی سیاست میں مبتلا کر دیا ہے۔

نواز شریف کا سیاسی بیانیہ اور مریم نواز کی سیاسی چمک سمیت مزاحمتی یا گونجتی سیاست کہیں پس پردہ خاموش کرادی گئی ہے یا باپ بیٹی نے کسی بڑی سیاسی مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کرلی ہے۔ مسلم لیگ ن کے پاس نواز شریف اور مریم نواز کی سیاسی خاموشی کا کوئی معقول جواب نہیں بس یہ کہہ کر جان چھڑائی جاتی ہے کہ ان کی خاموشی پارٹی کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ حالانکہ نواز شریف اور مریم نوازکی خاموشی کو عملاً پارٹی نے خود پر غالب کر لیا ہے اور اس کا نتیجہ یہاں بیٹھی ہوئی قیادت کی بھی خاموشی سے جوڑ کر دیکھا جاسکتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مسلم لیگ ن میں نواز شریف، مریم نواز سمیت وہ طبقہ جو قانون کی حکمرانی، ووٹ کو عزت دو اور فوجی سیاسی مداخلتوں کی بات بڑ ی شدت سے کرتا ہے، مگر عملی طور پر شہباز شریف اور اسٹیبلیشمنٹ کی سیاسی پینگوں یا رومانس پر نواز شریف سمیت سب ہی خاموش ہیں۔ بظاہر لگتا ایسا ہی ہے کہ جو کچھ شہباز شریف کر رہے ہیں اسے کسی نہ کسی شکل میں نواز شریف کی سیاسی حمایت بھی حاصل ہے۔ یعنی ایک طرف اسٹیبلیشمنٹ کی سیاست کو چیلنج کرنا اور دوسری طرف ان ہی سیاسی ریلیف طلب کرنا یا اقتدار کی سیاست کو طلب کرنا پارٹی کی حقیقی سیاسی پالیسی ہے۔ اسی کو بنیاد بنا کر نواز شریف اور شہباز شریف اپنے سیاسی کارڈ کھیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شہباز شریف کو حزب اختلاف کی مجوعی حکومت مخالف تحریک سے بھی کوئی بڑی سیاسی دلچسپی نہیں۔ وہ میڈیا کی حد تک ہمیں حزب اختلاف کی سیاست کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں مگر عملی طور پر ایسا کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں جو ان کے لیے یا خاندان کے لیے کسی بڑی مشکل پیدا کردے۔ پارلیمانی سیاست میں نمبرز گیم کا بڑا دخل ہوتا ہے۔ قومی اور پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کے پاس عددی تعداد بہت زیادہ ہے۔ مگر وفاق اور پنجاب کی پارلیمانی سیاست میں شور شرابا تو بہت ہے مگر عملی طور پر حکومت کو مسلم لیگ ن کسی بھی بڑے سیاسی دباؤ میں نہیں لاسکی۔ حکومت کی تبدیلی کے حوالے سے بھی پارٹی نئے انتخابات، ان ہاؤس تبدیلی سمیت مختلف سیاسی آپشن پر ان کی سیاسی پوزیشن کسی بھی سطح پر واضح نہیں ہے۔ بہت سے سیاسی پنڈت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی خفیہ سیاسی مفاہمت کو موجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے کا سیاسی ٹرمپ کارڈ سمجھتے ہیں۔

پنجاب میں ہمیں مسلم لیگ ن کے صوبائی ارکان اسمبلی کا ایک فاورڈ بلاک دیکھنے کو ملا ہے۔ ان کی تعداد سات یا نو ارکان پر مشتمل ہے اور یہ خود کو مسلم لیگ ن کا فاورڈ بلاک سمجھتے ہیں۔ وزیر اعلی عثمان بزدار سے ان کی کئی ملاقاتیں بھی ہوچکی ہیں۔ اگرچہ مسلم لیگ ن کی قیادت کسی بھی فاورڈ بلاک کی تردید کرتی ہے۔ لیکن جو ہماری معلومات ہیں اس کے مطابق پنجاب میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی سطح پر مسلم لیگ ن کے اندر سے ایک بڑا فاورڈ بلاک عملی طور پر سامنے آنے والا ہے۔

کافی حدتک فاورڈ بلاک بنانے والوں کے حکومت کے ساتھ معاملات بھی طے ہوچکے ہیں۔ ان میں ایک مسئلہ فوری طور پر ان کے حلقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز کا اجرا اور دوسرا مستقبل کی سیاست میں تحریک انصاف کی ٹکٹ کے حصول کی یقین دہانی سے جڑا ہوا تھا۔ فاروڈ بلاک کی سیاست ہمیشہ سے ہماری ماضی کی سیاست کا حصہ رہی ہے اور خود مسلم لیگ ن کو تو ماشا اللہ اس کا کافی سیاسی تجربہ بھی ہے۔ مسلم لیگ ق کی ماضی کی حکومت میں سے ایک بڑے فاروڈ بلاک کی قیادت خود مسلم لیگ ن بھی کرتی رہی ہے۔

یہ بات تسلیم کرنا ہوگی کہ نواز شریف، مریم نواز اور شہباز شریف کے سیاسی کردار نے موجودہ صورتحال میں پارٹی کے ارکان اسمبلی کو ایک بڑی مشکل میں ڈالا ہوا ہے۔ ارکان اسمبلی کی اصل سیاست اپنے حلقوں کی ہوتی ہے اور ان کے بیشتر سیاسی فیصلے بھی اسی سیاست کے گرد گھومتے ہیں۔ ماضی میں یہ ہی مسلم لیگ ن کا ایک بڑا دھڑا جنرل مشرف کے دور میں مسلم لیگ ق کی سیاسی چھتری کے نیچے پناہ لے کر اپنا سیاسی گھر تبدیل کرچکے ہیں۔

اب بھی اگر مسلم لیگ ن کے اندر سے قومی اور صوبائی ارکان اسمبلی کا کوئی فاورڈ بلاک سامنے آتا ہے تو یہ کوئی نئی سیاسی انہونی نہیں ہوگی۔ اطلاعات یہ ہی ہیں کہ جو فاورڈ بلاک مسلم لیگ ن کے اندر سے سامنے آنے والا ہے اس میں زیادہ تر ارکان اسمبلی کا تعلق گوجرانولہ، سیالکوٹ، بہاولنگر، بہاولپور، لودھراں سے ہے۔ یہ ایک ابتدائی فہرست ہوگی اور اس کے بعد ایک اور سیاسی قافلہ بھی حکومت کی حمایت میں سامنے آ سکتا ہے۔

اس فاروڈ بلاک کی سیاست کے پیچھے ایک وجہ ہمیں حکومت کی اتحادی سیاسی جماعتوں کا کردار بھی نظر آتا ہے۔ سردار اختر مینگل، چوہدری برادران، ایم کیو ایم جو کبھی کبھی حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں ان کے لیے لگتا ہے کہ حکومت نے حتمی طور پر اپنی سیاسی پوزیشن کی مضبوطی کے لیے مسلم لیگ ن میں سے فاورڈ بلاک کا سیاسی کارڈ کھیلنے کی حکمت عملی کو ترتیب دیا ہے۔ یقینی طور پراگر فاورڈ بلاک سامنے آتا ہے تو پنجاب کی سطح پر چوہدری برادران کو بھی سیاسی دباؤ میں رکھا جاسکتا ہے۔

فاروڈ بلاک کے سامنے آنے کی وجہ جہاں ان ارکان کے اپنے ذاتی مفادات ہوں گے وہیں خود پارٹی کی اعلی قیادت بھی اس صورتحال کی ذمہ دار ہے۔ کیونکہ بحران اور تضادات کی سیاست کی وجہ سے ہی مسلم لیگ ن میں داخلی محاذ پر مایوسی کی کیفیت ہے۔ ان کو لگتا ہے کہ اس تضاد کی سیاست نے مسلم لیگ ن میں شریف برادران کارڈ کو کمزور کر دیا ہے۔ ان ارکان اسمبلی کو محسوس ہوتا ہے کہ نواز شریف اور مریم نوازتو پہلے ہی اسٹیبلیشمنٹ سے فاصلے پر ہیں اور شہباز شریف کی بھی سیاسی کارڈ اپنا رنگ نہیں دکھا رہا، اور ایسے میں ہمیں اپنا محفوظ راستہ خود تلاش کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).