صبا قمر کی مسجد میں شوٹنگ اور ہیر کے مزار پہ قوالی سننے کا قصہ


عید کے بعد والا ہفتہ اتنا مصروف گزرا کہ سوشل میڈیا پہ چلنے والے بہت سے قصے نظروں سے تو گزرتے رہے۔ لیکن ان پہ کوئی بھی رائے دینا ممکن نہ تھا۔ اب جبکہ فراغت کا دن نصیب ہوا تو سوچا اپنی رائے دے دی جائے۔ سوشل میڈیا پر یہ سننے میں آیا کہ صبا قمر و بلال سعید نے مسجد وزیر خان میں ایک گانے کی شوٹنگ کے لیے کچھ کلپ فلمائے۔ اب مسجد میں نکاح کے سین فلمانے پہ ان پہ سخت تنقید کی گئی۔ پکے سچے مسلمانوں کا موقف یہ تھا کہ مسجد کی بے حرمتی کی گئی ہے۔ اور مسجد کے تقدس کو نقصان پہنچا۔ اور حسب معمول اسلام کو لاحق خطرات گنوائے گئے۔

مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ جس دین کی حفاظت کا وعدہ اللہ نے اپنے ذمے لے رکھا ہے۔ اس کی حفاظت کا ٹھیکہ دین کے ٹھیکیداروں کو کہاں سے ودیعت کیا گیا ہے۔ کون سی جگہ پہ ٹینڈر بھرے گئے ہیں۔ کہاں پہ سیکیورٹی جمع کروائی گئی ہے کہ جہاں کہیں کوئی چھوٹا سا ایشو ملے۔ وہیں اسلام کو لاحق خطرات کا چورن لے کر میدان میں آ جاؤ۔ کیا آپ کو اللہ کی طاقت پہ ایمان نہیں ہے (نعوذ باللہ) ۔ کیا آپ کو یہ لگتا ہے کہ اللہ تعالی خود کی حفاظت نہیں کر سکتے۔ کیا سزا و جزا کا حق اللہ نے اپنے پاس نہیں رکھا؟ کیا آپ لوگ حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوق العباد کی اہمیت سمجھتے ہیں؟

کیا وجہ ہے کہ آپ لوگ ہر بات ہر کام پہ فتوے لگانے کو تیار ہو جائیں۔ کیوں آپ آخری خطبہ حج یاد نہیں رکھتے۔ کیوں مساجد میں بچے بچیوں کے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتیوں پہ بھی آپ کو یہ خوف نہیں لاحق ہوتا کہ کہیں ہمارا رب ہم سے ناراض نہ ہو جائے۔ آپ مساجد میں دی جانے والی دہشت گردانہ کارروائیوں پہ چپ رہتے ہیں۔ تب کیوں نہیں اللہ کے سامنے شرمندہ ہوتے۔ جب ایک انسان دوسرے انسان کا ناحق خون کر دے تب کیوں نہیں آپ کی غیرت جاگتی۔ آپ کو یہ کیوں توہین نہیں لگتا کہ آپ کے شدت پسندانہ نظریات کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے لوگ آپ کے مذہب پہ انگشت نمائی کرتے ہیں۔ آپ کو ہر چیز سے خطرہ کیوں محسوس ہوتا ہے۔ جانے یہ خطرات کب کم ہوں گے۔ کب ہم لوگوں کو اپنے طے کردہ پیمانوں سے الگ دیکھنے کی جرات رکھیں گے۔

گزشتہ دنوں میرا جھنگ جانا ہوا۔ جھنگ شہر کے حوالے سے میں ایک لفظ کہنا چاہوں گی۔ کہ اگر آپ نے لفظ لاوارث کی تشریح دیکھنی ہو تو جھنگ اس تعریف پہ پورا اترتا ہے۔ فرقہ وارانہ تعصبات کا گڑھ، سیاستدانوں کی آپسی چپقلش میں شہر اجڑے دیار کا سا منظر پیش کرتا ہے۔ میرے میزبانوں نے بتایا کہ ڈاکٹر عبدالسلام کا گھر دیکھنا ہے تو بتائیں۔ آپ کو لیے چلتے ہیں۔ یہ سن کر میں تو بہت خوش ہو گئی۔ تیاری ہیر کا مزار دیکھنے کی تھی مگر پہلے ڈاکٹر صاحب کا گھر دیکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

جھنگ سٹی کی گلیوں میں سے ہوتے ہوئے ہم ڈاکٹر صاحب کی جنم بھومی پہ پہنچے۔ پرانے طرز تعمیر کا حامل چھوٹا سا گھر تھا۔ جس کے باہر ایک خستہ سی تختی پہ ڈاکٹر صاحب کا تعارف تھا۔ گھر کے اندر محکمہ اوقاف کے ایک ملازم رہائش پذیر تھے۔ انہوں نے ہی دروازہ کھولا۔ محبت و عقیدت کے اظہار کے لیے مجھے اور تو کچھ سمجھ نہ آیا۔ مگر میں نے ان در و دیوار کے لمس کو اپنی پوروں سے جذب کیا۔ جن کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کبھی رہتے ہوں گے۔ وہ دیوار و در ان کی کنڈیاں (لاک، چٹخنی) ان سب کو محسوس کیا۔ سلام عقیدت پیش کیا۔

وہاں سے ہم ہیر کے مزار کی طرف جانے کے لیے نکلے۔ جھنگ میں ہیر کو مائی ہیر بلایا جاتا ہے۔ اگر وہاں مائی ہیر کی بجائے صرف ہیر کہا جائے تو وہ لوگ غصہ کرتے ہیں۔ یہاں بھی شاید غیرت کو ظاہر کرنے کے لیے لفظ مائی مستعمل ہے۔ خیر میں نے تو ہیر ہیر کا ورد ہی جاری رکھا۔

ہیر کا مزار ثقافتی ورثے میں آتا ہے۔ اگر حکومتیں تھوڑا سا دھیان اپنے ورثے پہ دیں۔ اپنے کلچر کی حفاظت کریں۔ یا اپنے ملک میں ٹورازم کو فروغ دینے کی نیت رکھتی ہوں تو ایسی عمارتوں سے بھی آمدن کا ذریعہ ممکن ہے جن کے ساتھ کوئی نہ کوئی تاریخ جڑی ہے۔

ہیر کے مزار میں داخل ہوتے ایک احاطہ ہے۔ اس کی سیڑھیاں چڑھ کے بائیں جانب ایک بڑا سا درخت ہے۔ جس پہ منتوں کے دھاگے بندھے ہوئے ہیں۔ کہیں چھوٹے سے جھولے پڑے ہیں۔ اور درخت کی چھاوں میں ایک بندہ ڈھولک کی تھاپ پہ مائیں نی میں کنوں آکھاں گاتا نظر آیا۔ ڈھولک و طبلہ کی تھاپ میری کمزوری ہے۔ تو جونہی میں اپنے دوستوں کے منتوں کے دھاگے باندھ کے فارغ ہوئی تو اس بندے کے پاس بیٹھ گئی۔ اور اس سے فرمائش کر کے کلام سنا۔

گرمی کی شدت درخت کی چھاوں نے کم کر دی تھی۔ اور جہاں سر بکھر رہے ہوں۔ سردی گرمی کی ہوش کہاں رہتی ہے۔ اس کے پاس سے اٹھنے کو دل تو نہیں مانتا تھا۔ مگر میری واپسی بھی اسی دن تھی سو پھر مزار کے اندر سے جا کر مزار کو دیکھا۔ قبر کے چار اطراف لکڑی کے ستونوں پہ کوئی جگہ خالی نہ تھی۔ جس پہ دھاگے و چوڑیاں نہ بندھی ہوں۔ کچھ دھاگے وہاں باندھے۔ مزار کا اچھی طرح جائزہ لیا۔ مزار کا گنبد گولائی میں ہے لیکن چھت نہیں ہے۔ سننے میں آیا کہ اس میں سے بارش اندر نہیں آتی۔ یقیناً یہ طرز تعمیر کا کارنامہ ہے کہ بنا چھت کے گنبد سے بارش اندر نہ گرے۔ وہاں سے واپسی پہ چند دھاگے خریدے۔ باہر قبرستان کے سامنے ایک تصویر بنائی۔ کیونکہ پہنچنا تو ہمیں بھی وہیں ہے۔ میں نے سوچا سند ہی رہے۔

میں جب بھی شہباز قلندر کے مزار پہ جانے کا سوچتی ہوں۔ تو وہاں مجھے ایک ہی چیز ہے جو متاثر کرتی ہے۔ وہ ہے وہاں ہونے والی دھمال۔ اب سوچا ہے کہ اس سے پہلے کہ دھمالوں پہ بھی پابندی لگ جائے۔ دھمال سے بھی توہین کے پہلو نکلنے لگ جائیں۔ تو میں وقت نکال کے یہ شوق پورا کر آوں۔ کیونکہ جتنی شدت پسندی و انتہا پسندی کی لہر اس ملک میں بڑھ رہی ہے۔ ہم جیسے انسان دوست لوگوں کے لیے زندگی اور مشکل بنتی جا رہی ہے۔
مسجد و مزار شروع تو میم سے ہو رہے ہیں۔ مگر ایک کے ماننے والوں نے اللہ کو منانے کا راستہ تلوار سے جوڑ رکھا ہے۔ ایک نے دھمال سے۔ ہم دھمال والوں کے ساتھ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).