یہ آخری نگاہ


سانولی رنگت والی صوفیہ ڈرائنگ روم میں صوفے پر بیٹھی میرا انتظار کر رہی ہے۔ ہاتھ میں موبائل ہے، شاید اپنی دوستوں کو واپسی کے پلان سے آگاہ کر رہی ہو۔ ہانیلورے اور پاول باہر لان میں کھڑے ہیں لیکن میری نظریں افق کے ساتھ گلے ملتے ہوئے برف پوش پہاڑوں پر جمی ہیں۔ یہ صدیوں سے ایسے ہی ایستادہ ہیں، شاید یہ افق سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نتھی ہو چکے ہیں۔ کبھی کبھار بادلوں کا ایک ریلا آتا ہے اور چوٹیاں نئی نویلی دلہن کی طرح شرما کر ان کے پیچھے اپنا دودھیا مکھڑا چھپا لیتی ہیں۔

قریب ہی بہتے ہوئے جھرنے کی آواز کانوں میں رس بھر رہی ہے۔ پانی پتھروں سے ایسے پرترنم انداز سے ٹکرا رہا ہے کہ سماعتیں مسکراتی جاتی ہیں۔ سامنے ٹھہری ہوئی نیلگوں جھیل ایسی محسوس ہو رہی ہے، جیسے پہاڑوں کے دامن میں ایک بہت بڑا زمرد جڑ دیا گیا ہو۔ چوٹیوں سے اترتے ہوئے گھوڑوں کی طرح ہوا کے تر و تازہ جھونکے آتے ہیں تو جھیل کی بالائی سطح پر ارتعاش سی پیدا ہو جاتی ہے۔

لکڑی سے بنے چیلیٹ نما اس سوئس گھر کے لان میں رنگ برنگے پھول کھلے ہیں، بلی ایک طرف خاموشی سے کار کے نیچے لیٹی ہے۔ لیونڈر کی خوشبودار اور بنفشی ڈالیوں کے درمیان تتلیاں اٹھکیلیاں کر رہی ہیں، ایک پھول کے پیچھے سے نکلتی ہے تو دوسری کسی پھول کی پتی کے پیچھے چھپ جاتی ہے۔

صوفیہ نے اپنا سامان صبح ہی پیک کر لیا تھا۔ آج ہماری واپسی ہے اور پھر دونوں ہی ہمیشہ کی طرح اپنی اپنی مصروفیات میں گم ہو جائیں گے۔ اسے بھی پہاڑ پسند ہیں اور مجھے بھی اور شاید یہ واحد وجہ ہے کہ ہمارا سوئٹزرلینڈ کا یہ تیسرا سفر ہے۔ شاید وہ بھی باقی کا عرصہ میری طرح ان دلکش مناظر اور سبزہ زاروں کے بارے میں سوچتی رہے گی۔ ماضی کی طرح یہ لمحات بھی کتنی جلدی ختم ہو گئے ہیں۔ مجھے نہیں معلوم اس برطانوی نژاد جرمن لڑکی کے ساتھ اگلا سفر کب کر سکوں گا لیکن یہ خیال تو چند برس پہلے بھی ذہن میں آیا تھا۔

ایسی ہزار ہا سوچیں ذہن کی جھیل پر پریوں کی طرح اترتی جا رہی ہیں اور پلک جھپکتے ہی دوبارہ پرسکون پانیوں کی تہہ میں گم ہوتی جا رہی ہیں۔
میری نظریں ابھی تک دور افتادہ پہاڑیوں پر جمی ہیں، جیسے ابھی ابھی وہاں سے رتھ پر بیٹھی پریاں اترنا شروع ہو جائیں گی۔ مجھے عبدالعزیز خالد کا وہ شعر یاد آ رہا ہے،

دور افتادہ افق کے ملگجے دھبوں کے پاس
دل مرا آسیمہ، آوارہ، پریشان و اداس

ایک ایسی ہی کیفیت ہے، میں حسب عادت ان لمحات کو قید کر لینا چاہتا ہوں، جانے سے پہلے ان خوبصورت چوٹیوں پر، ہوا سے تھرتھراتے ہوئے جھیل کے پانی پر، لیونڈر کے اردگرد رقص کرتی ہوئی تتلیوں پر، ایک دوسرے کو پکڑنے کی ضد لگا کر دوڑتے ہوئے بادلوں پر آخری نگاہ ڈالنا چاہتا ہوں۔

یہ آخری نگاہ بھی کس قدر اذیت ناک ہے، بالکل آنکھ سے نکلے ہوئے آنسو کی طرح ہے، جو لوٹ کر کبھی واپس نہیں آتا، اس پتے کی طرح ہے، جو ٹوٹنے کے بعد کبھی دوبارہ اپنی جگہ پر نہیں پہنچتا۔ اس آخری نگاہ کے پیچھے ہمیشہ ہمیشہ کی جدائی کا درد خود آہیں بھر رہا ہوتا ہے، خدشات خود ماتم کناں ہوتے ہیں۔

میرے ہر سفر کا آغاز تو بہت خوشی سے ہوتا ہے لیکن یہ آخری نگاہ، ایک مرتبہ مڑ کر دیکھنے والی عادت مجھے ہمیشہ اداس کر جاتی ہے۔ کتنی بری عادت ہے لیکن کیا کروں عادت ہے۔
یہ آخری نگاہ موجودہ تعلق کی موت بھی ہے، ایک ایسی بے یقینی کی کیفیت، جس میں دوبارہ ملاپ کی امید تو شامل ہے لیکن دوبارہ ملاقات کا ہونا لازم نہیں۔

مجھے یہ بھی علم ہے کہ کہ آخری نگاہ میں قید کیے جانے والے یہ تمام خوبصورت نقوش وقت کا بہتا دریا آہستہ آہستہ مدھم کر دیتا ہے، بالکل ایسے ہی جیسے صحرائی ٹیلوں پر کسی کا نام لکھا جائے اور نامعلوم سمتوں سے آنے والی ہوا آہستہ آہستہ اسے مٹا دیتی ہے، جسے رات گزرنے کے ساتھ ساتھ قندیل کی لو مدھم پڑتی جاتی ہے۔

میرے ذہن میں اس آخری نگاہ کی مدھم لو آج بھی سر اٹھاتی ہے، جو میں نے گاؤں چھوڑنے سے پہلے ٹوٹی پھوٹی گلی کی نکڑ سے مڑ کر ڈالی تھی۔ بوسیدہ دروازوں میں کھڑی کئی پرخلوص نگاہیں میرے تعاقب میں تھیں اور میں بے غرض اور محبت سے جگمگاتی ان تمام روش آنکھوں کو وہیں چھوڑ آیا تھا۔ میں وہ آخری نگاہ بھی نہیں بھول پایا، جو میں نے جرمنی آنے سے قبل کار میں بیٹھ کر اپنے والدین کے سہمے ہوئے چہروں پر ڈالی تھی۔

وہ شام کتنی عجیب شام تھی، جب ساڑھے سات بجے بڑے بھائی کا فون آیا تھا کہ والد صاحب انتقال کر گئے ہیں۔ اس کا پہلا سوال تھا کہ آخری نگاہ ڈالنے کے لیے کب تک پہنچو گے! میں اس آخری نگاہ کے دکھ سے واقف تھا، مجھے علم تھا کہ یہ کس قدر اذیت ناک ہوتی ہے، اس میں بعض اوقات ہمیشہ ہمیشہ کی جدائی پنہاں ہوتی ہے۔ میں یہ ہمیشہ کی جدائی قبول نہیں کرنا چاہتا تھا اور میں نے والد کے جسد خاکی پر آخری نگاہ ڈالنے سے انکار کر دیا تھا۔

بعدازاں بڑے بھائی نے والد صاحب کی میت کی تصویر دکھانے کی کوشش کی لیکن میں چاہتے ہوئے بھی اس پر نگاہ نہ ڈال سکا بلکہ آج تک ایسا نہیں کر سکا۔ آخری نگاہ میں چھپے ہوئے کچھ زخم تو مندمل ہو جاتے ہیں لیکن کچھ سدا بہار درختوں کی طرح ہرے بھرے رہتے ہیں، مجھے خوف تھا کہ کہیں یہ زخم ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رستا نہ رہے۔

مجھے بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں فجر کی نماز پڑھ کے نکل رہا تھا تو چلتے چلتے کئی مرتبہ مڑا تھا اور خانہ کعبہ پر آخری نگاہ ڈالی تھی۔ اس وقت بھی میں جدائی کا وہ منظر اپنے اندر سمو لینا چاہتا تھا، اس اسود چادر میں ایک خاص لطافت تھی، ایک رحمت تھی، جو میرے جیسے گنہگاروں کو ڈھانپ رہی تھی۔

اس دن پہلی مرتبہ مجھے احساس ہوا تھا کہ کچھ منظر، کچھ عمارتیں، کچھ مکان، کچھ پتھر رشتہ داروں اور دوستوں کی طرح ہوتے ہیں، یہ بھی ماں باپ کی طرح ہوتے ہیں، بہن بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں، ان میں لگاؤ کا خون دوڑتا ہے، ان سے جدائی کا دکھ اتنا ہی ہوتا ہے، جتنا بچپن کے دوستوں کے بچھڑ جانے کا ہوتا ہے۔

کتنے ہی دوست تھے، جن سے رفاقتیں بڑھیں، تعلق قائم ہوا اور جن کو میں نے بون ریلوے اسٹیشن پر چھوڑا، ان کی ٹرین کو دیر تک پیچھے سے تکتا رہا، کئی دوستوں کی مسکراہٹوں پر آخری نگاہ ڈالی اور پھر میں آج تک دوبارہ وہ مسکراتے ہوئے چہرے نہیں دیکھ پایا۔

تایا شریف کی اولاد نہیں تھی، ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے۔ فالج ہوا تو کئی ماہ تک بس چارپائی تک ہی محدود رہے۔ ان سے وعدہ کر کے آیا تھا کہ چھ ماہ بعد آ کر ملوں گا۔ میں ان کا سر دبایا کرتا تھا لیکن وہ یہی پوچھتے ہوئے رخصت ہو گئے کہ وہ دم کرنے والا لڑکا کہاں گیا ہے، کب آئے گا؟ گھر کے سامنے بے بے باکاں کی بیٹھک تھی۔ ہمیشہ ماتھا چومتے ہوئے پنجابی میں کہتی تھیں کہ اب تم واپس آؤ تو شاید میں یہاں نہ رہوں۔ دو برس پہلے ان کے بوسے میں بلا کی شفقت تھی۔ اس وقت میں اندازہ ہی نہیں کر پایا تھا کہ وہ مجھ پر آخری نگاہ ڈال رہی ہیں، میں اس نگاہ میں ایک نہ ختم ہونے والی جدائی کا ادراک کرنے سے قاصر رہا تھا۔

مراکش میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ وہاں میں نے دانستہ مڑ کر نہیں دیکھا تھا لیکن کار کے سائیڈ والے شیشے میں نظر آ رہا تھا۔ یہ بیرونی بارش تھی یا آنکھوں کی نمی، شیشہ دھندلا ہوتا جا رہا تھا۔ صیغورا کے صحرا میں پلنے بڑھنے والی حسنا اپنی دوستوں کے ساتھ اس وقت تک سڑک کنارے کھڑی رہی تھی، جب تک میری ٹیکسی کتبیہ مسجد کے سامنے والی سڑک سے مڑ نہیں گئی تھی۔

یادوں کی بوندا باندی جاری ہے۔ برف پوش پہاڑوں کے بیچوں بیچ بنے راستوں پر بادل اب بھی نہروں کے پانی کی طرح بہہ رہے ہیں، ہئیت لمحہ بہ لمحہ بدل رہی ہے، منظر بدلتا جا رہا ہے۔

جھیل کا پانی مزید سبزی مائل ہو رہا ہے، جھرنے کے سروں میں جوش پیدا ہو چکا ہے، سوچوں کی جھیل سے ایک نیا خیال ابھر رہا ہے۔ جب سکت نہیں رہے گی، میں ان خوابیدہ آنکھوں سے پلکیں اٹھانے کی کوشش کروں گا لیکن یہ گرتی جائیں گی، جب منظر ساقط ہو جائیں گے، جب وقت ٹھہرنے لگے گا، دھڑکنیں مدھم پڑنا شروع ہو جائیں گی، آنکھوں اور یادداشت میں قید تمام تر خیالات اور منظر آوارہ پنچھیوں کی طرح اڑنے لگیں گے، چوٹیوں پر جمی برف پگھل چکی ہو گی، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، اس وقت میں آخری نگاہ ڈالوں گا، زندگی کے اس آخری منظر پر ڈالی جانے والی آخری نگاہ کیسی ہو گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).