وجاہت مسعود: صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی سے تمغہ انسانیت تک


جن آزمائشوں اور مصیبتوں کا آج ہمیں سامنا ہے، ان میں سے ایک آزمائش اعلیٰ اخلاق اور بلند کردار سے عاری ہونے کی آزمائش ہے، اے آسمان تیرے خدا کا نہیں ہے خوف، ڈرتے ہیں اے زمین ترے آدمی سے ہم، ایک عظیم اصول، جو اپنے اندر بہت سے اخلاق جمع کر لیتا ہے، انسانیت کا شرف بھلائیوں کا سرچشمہ، ادب کا جامع اور آزاد اور باوقار زندگی کا ضامن ہے، یہ تمام بھلائیوں اور کمالات کا مجموعہ ہے۔ حسن اخلاق کی بدولت ایک شخص ہزار لوگوں کے برابر ہو جاتا ہے۔

لوگوں کی مثال سونے اور چاندی کے ذخائر کی طرح ہے، یا پھر باڑے میں موجود ان سو اونٹوں کی مانند ہے کہ جن میں سے بمشکل ہی کوئی سواری کے قابل اونٹ نظر آتا ہے اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے والا وہی ہوتا ہے جو اپنے آپ کو انسانیت کے کمال سے مزین کر لیتا ہے، وہی کمال انسانیت کہ جسے بڑے لوگ پسند کرتے ہیں، عظیم اور دانشمند لوگ جس کی قدر کرتے ہیں اور جس کی وجہ سے انسان لوگوں کے دل میں گھر کر لیتا ہے چاہے، وہ معاشرتی اعتبار سے ان سے کم ہی کیوں نہ ہو۔

اس کار گاہ حیات میں کتنے لوگ آتے ہیں۔ چلے جاتے ہیں۔ ازل تا ابد یہ سلسلہ جاری رہے گا مگر انہی لوگوں میں اللہ کے کچھ چنیدہ بندے بھی ہوتے ہیں جو اچھے کام کرنے کے لئے آتے ہیں۔ کام کرتے رہتے ہیں اور اپنا نقش چھوڑتے ہیں۔ علامہ اقبال نے فرمایا تھا نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر،

دنیا میں آنے والا ہر فرد اپنی کھلی آنکھوں سے وقتاً فوقتاً خودغرضی اور مفاد پرستی کے مظاہر دیکھتا رہتا ہے۔ ہر دور کا انسان اپنے مفادات کی خاطر اپنے ہی ہم جنسوں کو نقصان پہنچاتا نظر آتا ہے۔ انسان کی اکثریت مفاد پرستی اور خودغرضی کی بھٹی میں اس قدر پک چکی ہے کہ یہ عیوب اس کی فطرت کا جزو دکھائی دیتے ہیں۔ یہ مفاد پرستی اور خودغرضی ہی انسان کو دھوکا دہی، چوری چکاری، ڈاکا زنی، قتل و غارت گری اور دیگر جرائم پر اکساتی و ابھارتی ہے، اور دنیا کا سکون چھین کر اسے بے سکونی کا تاج پہناتی ہے۔

یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف مفاد پرستی اور خود غرضی ہی بستی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ دنیا سے مخلص، دوسروں کے کام آنے والے اور دوسروں کی مدد کرنے والے انسان بالکل معدوم ہوچکے ہیں۔

مٹی کی مورتوں کا ہے میلہ لگا ہوا
آنکھیں تلاش کرتی ہیں انسان کبھی کبھی

کہنے کو تو ہر کوئی انسان نظر آتا ہے لیکن انسانیت بہت کم ملتی ہے اب۔ آج کے دور میں انسان سے انسانیت تک کا سفر چیدہ چیدہ ہی کرتا نظر آ رہا ہے۔ انسان سے انسانیت تک کا سفر قربانیوں اور ایثار کے کٹھن مراحل طے کر کے ہوتا ہے۔ گر کہیں بے غرض اور سچے ایثار کی کہانی جنم لیتی ہے، تو یہ احساس دلاتی ہے کہ انسانیت ہر دور میں زندہ تھی اور زندہ رہے گی کیونکہ برے لوگوں کی اکثریت کے بیچ بہت سے ایسے اچھے افراد بھی ہمیشہ جنم لیتے رہتے ہیں جو انسانیت کے تقاضوں پر حقیقی معنوں میں عمل پیرا ہو کر انسان کا سر فخر سے بلند کردیتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار کی گنجائش نہیں کہ انسان چاہے جتنا بھی خود غرض اور مفاد پرست ہو جائے، لیکن انسانیت اس دھرتی پر ہمیشہ زندہ رہے گی۔ جب سے یہ دنیا وجود پذیر ہوئی ہے، خود غرضی اور مفاد پرستی کے ساتھ انسان کا دوسرے انسانوں کے لیے ایثار اور قربانی کا جذبہ بھی ایک اٹل حقیقت رہا ہے۔ انسانوں کی بے لوث قربانی انسان دوستی کے بیش قیمت جذبوں کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے اور انھیں دوسرے انسانوں سے ممتاز کرتی ہے۔

انسانیت سے بے لوث محبت اور اس کی خدمت ہر انسان کی ازلی خواہش تو ہوتی ہے، لیکن اس کے اظہار کی اسے جرات، ہمت اور استطاعت نصیب نہیں ہوتی، حالانکہ انسانوں کے لیے انسانوں کا ایثار ہی اس دنیا کا حقیقی حسن ہے، لیکن نفسا نفسی کے اس دور میں جہاں پر مفاد عاجلہ نے ایک روگ کی شکل اختیار کر لی ہے، دوسروں کی خدمت اور فلاح و بہبود کے لیے اپنی توانائیوں کو صرف کرنا انہونی سی بات لگتی ہے۔ ہر انسان اپنی ہی ذات میں اتنا مگن ہے کہ اسے دوسروں سے کوئی غرض نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں اچھے اور برے انسان ضرور ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ انسان دوسروں کی خود غرضی اور مفاد پرستی کو دیکھتے ہوئے خود بھی ان کی راہ پر چل پڑے۔

بنا مقصد کے زندگی بے معنی ہو جاتی ہے۔ تاریخ بشری میں حالات کے ہاتھوں مجبور و مقہور ہو کر رستہ بدل لینے والوں کی مثالیں تو ممکن ہے ہر کتاب تاریخ کے ورق ورق پہ کنندہ مل جائیں مگر! ایسا بہت کم امثال ملیں گی کہ ایک بشر نے تاریخ کا دھارا پلٹتے ہوئے عہد ظلمت کو عہد انسانیت سے تبدیل کیا ہو۔

البتہ وطن عزیز کی تاریخ میں چند ایک ایسی شخصیات ضرور نظر آتی ہیں، جن کی بدولت ہم تا روز حشر سر اٹھا کر چلنے میں دقت محسوس نہ کریں گے۔ ایسی ہی بے مثل و بے نظیر شخصیات میں سے میری رائے میں وجاہت مسعود بھی ایک عظیم مثال ہیں، جنہیں دنیائے صحافت میں ایک نمایاں مقام ہونے کے ساتھ ہی صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی لینے کا بھی اعزاز حاصل ہے، ایسے وقت میں جب مٹی کی مورتوں کا ہے میلہ لگا ہوا، آنکھیں تلاش کرتی ہیں انسان کبھی کبھی، میں بھی یہ شخصیت اعلیٰ اوصاف، اخلاق کی ایک تابناک مثال ہیں، جب انسانیت کا معیار یہاں تک گر چکا ہے کہ ہم اپنی بڑائی کا معیار کسی کو جواب تک نہ دینا، مخلوق خدا کو حقیر، خود کو افضل و اعلیٰ گرداننا سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ انسانیت کی تنزلی کی آخری حد ہے، کیونکہ ”آدم کی کسی روپ میں تحقیر نہ کرنا، پھرتا ہے زمانے میں خدا بھیس بدل کے، اور پھر حسن اخلاق، جنت کی ضمانت، فرمایا: قیامت کے دن میرے سب سے قریب وہ ہوں گے، جن کے اخلاق اچھے ہوں گے۔

یہی وہ وجہ ہے کہ وجاہت مسعود جیسے اعلیٰ اخلاق سے انسان کیوں نہ متاثر ہو۔ ان کے مقام و مرتبہ سے کون واقف نہیں لیکن یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ہر ایک سے حسن سلوک سے پیش نہ آئیں۔ ان کے کالم خزانہ علم، ان کی ویب سائٹ ”ہم سب“ لکھاریوں کے لیے بہترین علمی ادبی پلیٹ فارم، ان کی ٹیم کا ہر فرد قابل احترام۔ ۔ ۔ ایسے عظیم انسانوں کو تمغہ انسانیت حاصل ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).