دیوار چین اور لوک کہانیاں


چین کا نام آتے ہی دیوار چین کا خیال ضرور آتا ہے۔ بچپن سے سنتے آئے تھے کہ دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک دیوار چین ہے۔ چین جانے کے بعد جب ہمارے چینی دوستوں نے ہم سے پوچھا کہ ہم سب سے پہلے کیا دیکھنا پسند کریں گے تو ہمارا جواب تھا ”دیوار چین“ ۔ تصورات میں اکثر ہم نے دیوار چین کا نقشہ باندھنے کی کوشش کی لیکن بات نہیں بنی۔ ہمارا خیال تھا کہ یہ دیوار بہت اونچی ہو گی لیکن جب دیکھنے گئے تو معلوم ہوا کہ وجہ شہرت اونچائی نہیں طوالت ہے۔

اتنی طویل دیوار جو ہزاروں کلو میٹر پر پھیلی ہوئی ہے، اس زمانے کی یاد گار ہے جب بادشاہ لوگ دشمن کی فوجوں سے اپنے علاقوں کو محفوظ رکھنے کے لئے قلعہ بندیاں کرتے تھے، دیواریں کھڑی کرتے تھے لیکن حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ کسی بھی ٹیکنالوجی یا مشینوں کی عدم موجودگی میں اس وقت کے لوگوں نے یہ محیر العقول کارنامہ کیسے انجام دیا۔

1986 میں ہمارے چین میں قیام کے ابتدائی دنوں میں دیوار چین کی مرمت کے لئے عطیات جمع کیے جا رہے تھے۔ اس سے پہلے کے دو سالوں میں دس ملین یوآن یعنی دو اعشاریہ سات ملین ڈالر جمع کیے گئے تھے۔ یہ دیوار چینی قوم کی دو ہزار سالہ قدیم علامت ہے۔ واضح رہے کہ اس رقم میں چینی عوام کے علاوہ چھبیس غیر ممالک کے عطیات شامل تھے جو بیجنگ پریس کی اپیل ”چین سے محبت کرواور عظیم دیوار کی از سر نو تعمیر کرو“ ۔ اس مہم کا آغاز بیجنگ ایوننگ نیوز اور بیجنگ ڈیلی نے کیا تھا۔

جلد ہی یہ ایک قومی مہم کی شکل اختیار کر گئی اور اسے امیر ممالک کی اعانت بھی حاصل ہو گئی۔ مالی مدد کے علاوہ عطیہ کنندگان نے فنون لطیفہ کے شاہکار بھی عطیہ کیے تھے۔ یعنی خطاطی کے نمونے، تصویریں، مجسمے۔ فیصلہ یہ ہوا تھا کہ ان چیزوں کے لئے ایک عجائب گھر تعمیر کیا جائے گا۔ عطیہ دینے والے افراد اور تنظیموں کے لئے جن میں پاکستان بھی شامل تھا، یادگاریں تعمیر کی گئیں۔ ایک بڑی یاد گار پر چینی رہنما تنگ سیاؤ پنگ کے یہ الفاظ کنندہ تھے : ”ہماری مادر وطن سے محبت کرواور عظیم دیوار کی از سر نو تعمیر کرو“ ۔

دیوار چین اور چینی گاڑیوں کی افادیت ثابت کرنے کے لئے چینی صحافیوں نے ایک یادگار مہم شروع کر رکھی تھی۔ چینی صحافیوں اور آٹو موبائل فیکٹریوں کے ڈرایؤروں اور ٹیکنیشنز کا ایک قافلہ دیوار چین کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا تھا۔ اس وقت تک یہ لوگ دو ہزار کلو میٹر کا فاصلہ طے کر چکے تھے۔ اس مہم کے قائد چین کے ایک آزمودہ صحافی تھین مو تھے۔ موصوف اس وقت ساٹھ کے پیٹے میں تھے لیکن ان کا کہنا تھا کہ جوانوں کے ساتھ سفر کر کے وہ بھی خود کو جوان سمجھ رہے تھے۔ یوں ان صحافیوں نے چینی صحافت کی تاریخ میں ایک غیر معمولی باب رقم کیا تھا۔

ہم سب تاریخی عمارتوں کو دیکھتے اور سراہتے ہیں، برصغیر کے لوگ تاج محل پر جان دیتے ہیں، اسے محبت کی نشانی مانتے ہیں۔ دیوار چین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ خلا نوردوں کو چاند یا مریخ جاتے ہوئے اوپر سے زمین پر ایک ہی چیز نظر آتی ہے اور وہ ہے دیوار چین۔ ان تاریخی عجوبوں کی شان و شوکت اور خوبصورتی ہمیں سحر زدہ کر دیتی ہے لیکن ہم کبھی یہ نہیں سوچتے کہ ان شاندار تعمیرات کی بنیادوں میں ان غریب اور کڑیل جوانوں کا خون پسینہ ہی نہیں ان کے خواب بھی دفن ہیں جنہیں بادشاہ کے سپاہی بیگار کے لئے زبردستی اٹھا لائے تھے اور پیچھے ان کے بوڑھے ماں باپ اور کم عمر دلہنیں تڑپتی رہ گئی تھیں۔ تاج محل کے بارے میں ساحر نے کہا تھا:

اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر
ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق

اسی طرح چین میں بھی دیوار چین کے حوالے سے بہت سی دکھ بھری لوک کہانیاں مشہور ہیں۔ ان میں سے ایک کا ترجمہ میں نے ”شوہر کی تلاش“ کے نام سے کیا تھاجسے غیر ملکی زبانوں کے اشاعت گھر بیجنگ نے کتابی صورت میں شائع کیا تھا۔ شاید کتابوں کے ڈھیر میں سے کبھی مل جائے۔ اس وقت تو میں نے آپ لوگوں کے لئے انٹر نیٹ پر کچھ کہانیاں ڈھونڈی ہیں۔ دیوار چین کے حوالے سے سب سے مشہور کہانی چھن سلطنت 221 ق م کے عہد میں مینگ نامی لڑکی کی ہے۔

مینگ کے شوہر فان کو بادشاہ کے سپاہی دیوار چین کی تعمیر کے لئے پکڑ کر لے گئے تھے۔ اس کے جانے کے بعد جب بہت عرصے تک گھر والوں کو اس کی کوئی خیر خبر نہیں ملی تو مینگ اس کی تلاش میں گھر سے نکل پڑی۔ موسم کی شدتوں اور سفر کی تکالیف کا سامنا کرتے ہوئے جب وہ دیوار تک پہنچی تو اسے پتا چلا کہ اس کا شوہر مر چکا ہے۔ کہتے ہیں کہ مینگ یہ خبر سن کر اتنا روئی کہ اس کے آنسوؤں سے دیوار کا ایک حصہ ڈھے گیا۔ یہ کہانی کتابوں میں ملتی ہے، اس پر لوک گیت لکھے گئے اور تھیٹر اوپیرا میں پیش کیا گیا۔ یہ کہانی چین میں بہت مشہور ہے اور اس سے پتا چلتا ہے کہ دیوار چین کی تعمیر میں کتنے معصوم اور غریب شہریوں کی جانیں گئیں۔

ایک اور کہانی درہ جیائی کوان کی ہے۔ یہ مینگ سلطنت 1368۔ 1644 ق م کے دور کے ایک مزدور ای کائیزان کی کہانی ہے۔ جو ریاضی میں ماہر تھا۔ اس نے حساب لگایاکہ درہ جیائی کوان کی تعمیر کے لئے 99,999 اینٹیں درکار ہوں گی۔ اس کے سپروائزر کو اس کی بات کا یقین نہیں آیا اور اس نے کہا کہ اگراس کے حساب میں ایک اینٹ کی غلطی بھی نکلی تو سارے مزدوروں کو تین سال قید با مشقت بھگتنا ہو گی۔ تعمیر مکمل ہونے کے بعد شیوونگ شہر کے گیٹ کے پاس ایک اینٹ پڑی رہ گئی۔ سپروائزر بہت خوش ہوا کہ اب وہ مزدوروں کو سزا دے سکے گا مگر ای کائزان نے بڑے اعتماد سے کہا کہ ایک مافوق الفطرت ہستی یہ اینٹ وہاں رکھ گئی ہے اور اگر اسے چھیڑا گیا تو دیوار نیچے آ گرے گی چنانچہ کسی نے اسے ہاتھ نہیں لگایا اور وہ اینٹ آج بھی وہاں موجودہے۔

دیوار چین پر حفاظت کے خیال سے سپاہیوں کی سال بھر موجودگی ضروری تھی۔ سپاہیوں کے لئے تو یہ ڈیوٹی تکلیف دہ تھی ہی، ان کے اہل خانہ بھی ان کی جدائی میں پریشان رہتے تھے۔ ایک مرتبہ دیوار چین کے ساتھ شمالی سرحد پر ایک نوجوان کی ڈیوٹی سالوں لگی رہی۔ فوج کی طرف سے کسی کو بھی چھٹی کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ اس نوجوان کے خاندان میں صرف ایک بوڑھا باپ پیچھے بچا تھا۔ بوڑھے باپ کو خدشہ تھا کہ شاید وہ جیتے جی اپنے بیٹے کو نہ دیکھ پائے چنانچہ وہ خود اپنے بیٹے کو دیکھنے چل پڑا۔

اتفاق سے جب وہ دیوار میں بنی ہوئی ایک چوکی کے پاس پہنچا تو اس کا بیٹا وہیں موجود تھا گو وہ کافی بدل چکا تھا لیکن باپ بیٹے دونوں نے ایک دوسرے کو پہچان لیا اور ایک دوسرے سے لپٹ گئے، دونوں کبھی ہنستے تھے کبھی روتے تھے، اور اس حالت میں دونوں کا وہیں انتقال ہو گیا۔ ان دونوں کی یاد میں اس چوکی کا نام ”خوشی بھری ملاقات کی جگہ“ رکھ دیا گیا۔ یہ دونوں باپ بیٹے ان ہزاروں سپاہیوں اور ان کے خاندانوں کی نمائندگی کرتے تھے جو ایک عرصہ تک ایک دوسرے کی یاد میں تڑپتے رہتے تھے۔

بیجنگ کے شمال میں ساٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر دیوار چین کا وہ حصہ ہے جسے ہوانگ ہوا چھنگ یا پیلے پھولوں کی چوکی کہتے ہیں کیونکہ گرمیوں میں یہ پورا حصہ پیلے پھولوں سے ڈھک جاتا ہے۔ دیوار چین کے اس حصے کی تعمیر کے پیچھے بھی ایک کہانی ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز 1575 میں مینگ سلطنت کے عہد میں ہوا۔ اس کی تعمیر کا انچارج جنرل چھائی کائی کو مقرر کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ اس حصے کو مکمل کرنے میں کئی سال لگ گئے۔ جب جنرل اپنا کام مکمل کر کے شہنشاہ کو اس کی اطلاع دینے بیجنگ گیا تو شہنشاہ کے حکم پر اسے موت کے گھاٹ اتا ردیا گیاکیونکہ کچھ حاسدوں اور بد خواہوں نے شہنشاہ کے کان بھرے تھے کہ دیوار کی تعمیر ناقص اور غیر معیاری ہے۔

بعد میں شہنشاہ نے اپنے ایک قابل اعتماد مشیر کو دیوار کا معائنہ کرنے بھیجا تو معلوم ہوا کہ دیوار کی تعمیر معیاری اور شاندار طریقے سے کی گئی تھی۔ شہنشاہ اپنی جلد بازی پر پشیمان ہوا اور اس نے جنرل کی یاد میں ایک شاندار مقبرہ تعمیر کروایا۔ اور اپنے ہاتھوں سے ”ٹھوس اور مضبوط“ کے الفاظ ایک کتبے پر لکھ کر اس کے مقبرے پر لگائے۔

تو ثابت یہ ہوا کہ تاریخ کے ہر شاندار تعمیراتی شاہکار کے پیچھے بیگار کے لئے پکڑے گئے مزدوروں کی محنت ہی نہیں ان کے خاندانوں کے آنسو، آہیں اور دکھ بھی چھپے ہوتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).