ڈاکٹر خالد سہیل اور نعیم اشرف کا ادبی مکالمہ



نعیم اشرف کا خالد سہیل کے نام دوسرا خط
محترم خالد سہیل صاحب!

آپ سے فون پر بات کر کے ہمیشہ کی طرح اچھا لگا۔ میری حقیر رائے ہے کہ انگریزی ادب کے ساتھ ساتھ اردو ادب کے شاہکار ناول اگر ہمارے خطوط میں شامل ہوں تو ہمارے پڑھنے والوں کو نہ صرف ہمارا مکالمہ ہمہ جہت لگے گا بلکہ ان کو ایک ادبی تنوع بھی محسوس ہوگا۔ اس سلسلے میں، میں نے پہلا قدم اٹھا لیا ہے۔ آج میں آپ کی خدمت میں محمد الیاس کے ناول ”دھوپ“ پر بات کرنے کے لئے حاضر ہوا ہوں :

محمد الیاس کا ناول اور افسانہ نگاری کے حوالے سے پاکستان میں ایک اہم مقا م ہے۔ ”دھوپ“ کے علاوہ محمدالیاس ”کہر“ ، ”برف“ ، ”بارش“ ، ”پروا“ اور ”حبس“ جیسے عہد ساز ناولوں کے علاوہ تین ناولٹ اور بارہ افسانوں کی کتابوں کے مصنف ہیں۔ محمد الیاس ایک مسلمہ اردو لکھاری کے طور پر اپنے آپ کو پچھلی تین دہایوں سے منواتے چلے آ رہے ہیں۔ ان کی کہانیاں سماجی ناہمواریوں، آمرانہ رویوں اورغیر منصفانہ نظام سے پیدا ہونے والے انسانی مسائل کے گرد گھومتی ہیں۔

اس کے علاوہ انسانی جبلتوں کو کچلنے سے پیدا ہونے والے بھیانک نتائج اور ثقافتی گھٹن کے اثرات اور پیدا شدہ مسائل ان کی کہانیوں کے چند اہم موضوعات ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کے اندر بے شمار کہانیاں ان کے قلم کے ذریعے صفحہ قرطاس پر منتقل ہونے کے لئے تڑپ رہی ہیں۔ مگر اس خط میں ان کے شاہکارناول ”دھوپ“ پر بات کی جائے گی۔

”دھوپ“ کی کہانی ایک ایسے نوجوان کے گرد گھومتی ہے جو ایک آمرانہ ماحول میں پیدا ہوتا ہے۔ انوار احمد کا باپ حاجی منیر احمد مشترکہ خاندانی یونٹ کا ایک مطلق العنان سربراہ ہے۔ اوسط درجے کا کاروبار رکھنے والا حاجی منیر احمد، کٹر مذہبی اور اصول پسند آدمی ہے۔ وہ کاروباری معاملات میں صاف اور کھرا ہے مگر فطری طور پر ایک آمرانہ سوچ لا مالک ہے۔ اور اپنے تمام کنبے کو شعائر دینیہ پر زبردستی عمل کروانے پر یقین رکھتا ہے۔ اور عبادات میں کوتاہی پر سزا دینے سے بھی نہیں چونکتا۔ اور مذہبی رسومات فرض کی طرح ادا کرنے پر ہر وقت ذور دیتا ہے۔ مگر اپنی ذاتی اور عائلی زندگی میں غیر فطری رویہ بھی اپناتا نظر آتا ہے۔ مختصراً یہ کہ بطور سربراہ حاجی منیر احمد افراد خانہ کی زندگیوں کو کنٹر ول کرنا چاہتا ہے۔

کس بچے کو زندگی کے کس شعبے میں جانا چاہیے؟ اور کون بچہ سا بڑا ہو کر کیا بنے گا؟ حتٰی کہ کس بیٹے اور بیٹی کی شادی کب اور کس سے ہوگی؟ یہ فیصلہ بھی حاجی صاحب نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے، بلکہ وہ بہت پہلے سے جملہ فیصلے کر بھی چکا ہے۔ افراد خانہ میں سے کسی کی ہمت نہیں کہ والد کی مرضی کے بر عکس اپنی ہی زندگی سے متعلق کوئی فیصلہ کریں۔

مگر سب سے چھوٹا بیٹا انوار احمد فطرتاً پابندیوں کا قائل نہیں۔ انوار احمد ایک تخلیقی اور آزاد ذہن کا مالک ہے۔ وہ باقی دو بیٹوں کے مقابلے میں فرماں بردار نہیں بن سکتا۔ وہ پہلے پہل مخفی اور بالآخر کھلی بغاوت کر دیتا ہے۔ والد اور بیٹے کے رشتے کی کہانی بہت دلچسپ اور سبق آموز موڑ مڑتی ہے اور متعدد بد صورت خا نگی واقعات سے لبریز ہے۔ اگرچہ کئی مقامات پر کہانی دلچسپ موڑ بھی اختیار کرتی نظر آتی ہے۔ اپنے ہی کنبے کے ساتھ سخت گیر رویے اور غیر متوازن سلوک کے اثرات ایک نسل تک محدود نہیں رہتے بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ یہ کہانی کا درد ناک پہلو ہے۔

کہانی کا لطیف پہلو انوار احمد کی محبت کی داستان ہے۔ جو نہائیت خوبصورت بھی ہے اور دلدوز بھی۔ کہانی انسانی زندگی کا یہ نازک پہلو بھی اجاگر کرتی ہے کہ انسان کی فطری ضروریات مثلاً جذبہئی بقا، بھوک، جنس اور تفریح کا فطری انداز میں تکمیل پذیر ہونا لازم ہے۔ فطری ضروریات کو سماجی حدود میں رہتے ہوئے پورا ہونا چاہیے۔ اگر کوئی معاشرہ ان ضروریات کی تکمیل فطری انداز میں کرنے کا بندوبست نہیں کرتا تو پھر اس کے بھیانک نتائج بھگتنے کے لئے بھی تیار رہے کیونکہ انسانی جبلت کے تقاضوں کو دبا دینے یا کچل دینے کی کوشش کرنے سے طرح طرح کی نفسیاتی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔

کہانی بہت خوبصورت انداز سے یہ حقیقت بھی کامیابی سے قاری تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئی ہے کہ انسانی رشتوں میں بگاڑ کا پیدا ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہ عین فطری ہے۔ مگر مسائل کا حل نفرت، انتقام یا جبر کی بجائے محبت سے تلاش کیا جائے کیونکہ باہمی احترام، محبت، انصاف اور ہم آہنگی تمام انسانی رشتوں کی نہ صرف بنیادیں ہیں بلکہ کسی کنبے کی صحتمندانہ نمو کا ذریعہ بھی۔

ناول کی کہانی شروع سے آخر تک قاری کو اپنی مکمل گرفت میں رکھتی ہے۔ یہ گرفت اتنی مضبوط ہے کہ پڑھنے والا اپنے آپ کو ناول کا ایک کردار سمجھنے لگتا ہے۔ اگر کسی بھی ادبی فن پارے کا مقصد ذہنی ارتقاء، بالیدگی اور تفریح ہوتا ہے تو یہ ناول اس معیار پر سو فیصد پورا اترتا ہے۔

میں، محمد الیاس جیسی نابغہ روزگار شخصیت اور ادبی کارناموں پر ایک الگ خط لکھنے کا بھی ارادہ رکھتا ہوں۔

ڈاکٹر صاحب! یہ میری خوش قسمتی ہے کہ فرو ری 2019 ء میں جب آپ پاکستان کے دورے پراسلام آباد تشریف لائے تھے تو ایک شام، میں، آپ کو اور محمد الیاس کو آپس میں ملوانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ آپ دونوں کے تین گھنٹے پر محیط طویل ادبی مکالمے سے مجھے ذاتی طور پر بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔

وہ شام میرے لئے یقیناً ایک یاد گار شام تھی۔
خیر اندیش۔
نعیم اشرف

***      ***


خالد سہیل کا نعیم اشرف کو جواب

عزیزم نعیم! دور حاضر کے نامور ناول نگار اور افسانہ نگار محمد الیاس کے ادبی فن پاروں اور ان کے مشہور ناول ”دھوپ“ کے بارے میں مجھے اپنے خط کے ذریعے آگہی دینے پر میں آپ کا سپاس گزار ہوں۔ میری تمنا ہے کہ آیندہ جب میرا پاکستان جانا ہو تو الیاس صاحب سے ایک اور ملاقات ہو جائے۔

آج میں سوانح عمری سے میری دلچسپی کی روداد اور نوبل انعام یافتہ ناول نگار ہرمن ہیس Hermann Hesse کی زندگی کی مختصر کہانی کے بارے چند سطور سرد قلم کرنا چاہتا ہوں۔ میں بطور ادیب فکشن پڑھنا پسند کرتا ہوں مگر ایک نفسیات دان کے طور پر مجھے شاعروں، ادیبوں، فلاسفروں، سائنسدانوں، فنکاروں اور دیگر تخلیق کاروں کی زندگیوں بارے جان کاری کا شوق ہے۔

جب میں ایران کے شہر ہمدان میں کام کرتا تھا تو میرے کلینک کی کھڑکی سے ’بوعلی سینا‘ کا مزار نظر آتا تھا۔ ایک شام میرا تجسس مجھے بو علی سینا کی خری آرام گاہ کی جانب لے گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ مزار کی بیسمنٹ میں ایک خوبصورت لائبریری انواع و اقسام کی کتب سے آراستہ ہے۔ مگر میری بد قسمتی کہ وہاں پر موجود تمام کتب فارسی میں تھیں۔ البتہ ایک کتاب مجھے ملی جو انگریزی میں تھی۔ اور وہ کتاب ’موہن داس گاندھی‘ کی خود نوشتہ سوانح عمری تھی۔

گاندھی کی سوانح حیات پڑھنے کے بعد مجھے سوانح عمریوں سے عشق ہو تا گیا۔ اس کے بعد کی دہائیوں میں، میں نے نامور دانشوروں، فلاسفروں، شاعروں، ادیبوں، سا ئنسدانوں، فنکاروں اور دیگر تخلیقی ذہن رکھنے والے مشاہیر کی سوسے اوپر سوانح عمریاں پڑھ لیں۔ کثیر تعداد میں سوانح عمریاں پڑھنے کے بعد مجھ پر منکشف ہوا کہ بعض اوقات حقائق، افسانوں سے زیادہ دلچسپ اور کچھ تعبیریں خوابوں سے زیادہ دلکش ہوتی ہیں۔

میں جب بھی ”سدھارتھا“ Sidhartha پڑھتا تھا تو میرا جی اس ناول کے مصنف ہرمن ہیس کی زندگی کے بارے میں پڑھنے کو مچل جاتا تھا۔ مجھے حیرانی ہوتی تھی کہ ایک مغربی لکھاری، ہندوستان بدھ مت اور مشرقی مذہبی روایات سے متعلق اتنی زیادہ جانکاری کیسے حاصل کر سکا ہوگا۔ بالآخر میں نے رالف فریڈمین کی تحریر کردہ ”ھرمن ہیس“ کی سوانح حیات: Hermann Hesse: Pilgrim of Crisis حاصل کر لی۔ جس کو پڑھ کر مجھے پتہ چلا کہ ”ھرمین ہیس“ جیسا ذہین لکھاری 2 جولائی 1877 ء کو پیدا ہو ا اور 9 اگست 1962 ء کو وفات پائی۔ ہرمین ہیس کو 1946 ء میں، جنگ عظیم دوئم کے بعد، امن کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا تھا۔

عزیزم نعیم!

ھرمن ہیس کی زندگی کی رداد پڑھ کر مجھے یہ تاثربھی ملتا ہے کہ وہ ایک کثیرالجہت و کثیر الاوصاف شخصیت کے مالک تھے ا۔ وہ بیک وقت ایک اداکار، ادیب اور دانشور تھے۔ البتہ ’تخلیقیت اور روحانیت کا پر اسرار تعلق‘ ہرمین ہیس کی دلچسپی کا خصوصی علاقہ تھا۔ ”سدھارتھا“ لکھنے کے بعد ہرمن ہیس کو ایک روحانی گرو کے طور پر جانا جانے لگا۔ ایسے جیسے ہرمن ہیس، حضرت عیسٰی یا گوتم بدھ ہی کا دوسرا جنم ہو۔ ایک مترجم کے طور پر یہ بات آپ کے لیے شاید حیرت کا باعث ہو کہ ہیس کی کتب جرمنی میں ترجمہ ہونے سے کئی دہایاں بعد انگریزی میں ترجمہ ہوئیں۔ مشہور اور کسی حد تک بدنام زمانہ کتاب: Tropic of Cancer کے مصنف ہنری ملر ’وہ پہلے لکھاری تھے جنھوں نے ہرمن ہیس کو امریکہ میں متعارف کروایا۔

عزیزم نعیم! ہرمن ہیس کی سوانح پڑھنے پر مجھے تین ایسی باتوں کا پتہ چلا جو میں پہلے نہیں جانتا تھا۔ پہلی یہ کہ، ہیس کے دادا ایک عیسائی مبلغ تھے جو بیشتر وقت ہندوستان میں رہے۔ دوسری یہ کہ، ہیس کو ’ملائی زبان‘ میں گہری دلچسپی تھی، انھوں نے نہ صرف ملائی سیکھی بلکہ بائبل کا ترجمہ ملائی میں بھی کیا۔ اس کے علاوہ انگریزی۔ ملائی لغت بھی ترتیب دی۔ تیسری یہ کہ ہیس کی والدہ کو بھی ہندی اور ملائی زبانیں آتی تھیں۔ میرا خیال ہے کہ ہرمن ہیس کے خاندان کی ہندوستانی لوگوں اور ہندوستانی زبانوں میں دلچسپی نے ان کو ’سدھارتھا‘ لکھنے کی طرف مائل کیا ہوگا۔ جو گوتم بدھ کی زندگی کی ہی ادبی رنگ میں لکھی ایک داستان ہے۔

مجھے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہرمن ہیس زندگی بھر ذہنی اور جذباتی مسائل کا شکار رہے۔ شاید اسی لئے ان کی دلچسپی روحانیت اور تخلیقیت کے آپس میں ایک گنجلک تعلق کی طرف بڑھتی چلی گئی۔ ہیس کی نفسیات میں یاسیت نے گھر کر لیا تھا۔ ایسا وقت بھی آیا کہ ہرمن ہیس نے یاسیت کے عالم میں خود کشی کی کوشش بھی کی۔ یوں ان کے جذباتی اور ذہنی مسائل ان کی تخلیقیت کی راہ میں رکاوٹ بنے رہے۔ اپنے نفسیاتی علاج کے لئے انھوں نے نہ صرف ڈاکٹر لینگ سے مدد لی بلکہ کچھ عرصے تک وہ مشہور نفسیات دان کارل ینگ سے بھی طبی مدد لیتے رہے۔ اس تھراپی سے وہ اس قابل ہو گئے کہ اپنے ’رائٹر بلاک‘ (تحریری سکتہ) سے نکل کر ادھورے تخلیقی کام مکمل کر سکیں۔ ہرمن ہیس نے بڑی جانفشانی سے تخلیقیت اور تجزیاتی نفسیات کے گنجلک تعلق پر تحقیق کی اور ان کا تعلق ثابت کیا۔ جو نفسیات کی سائنس میں آج بھی درست مانا جاتا ہے۔

ان کی پہلی بیوی شیزو فرینیا کی مریضہ تھی۔ دو نفسیاتی مریض ایک دوسرے کا موثر سہارا نہ بن سکے اور ان کے درمیان طلاق ہو گئی۔ دوسری شادی بھی ایک سانحہ ہی ثابت ہوئی۔ البتہ تیسری شادی ہرمن ہیس کے لئے خوش آئند ثابت ہوئی کیونکہ تیسری بیوی نے نہ صرف ا ن کو جذباتی طور پر سنبھالا دیا بلکہ آخری سانس تک ان کا ساتھ بھی دیا۔

مجھے یہ بھی معلوم پڑا کہ ہرمن ہیس کو نوبل انعام سدھارتھا لکھنے پر نہیں بلکہ ایک اور کتاب Glass Bead Gameلکھنے پر دیا گیا تھا۔ اس کتاب کا انگریزی ترجمہ بھی ہو چکا ہے اور Master Ludi کے نام سے موجود ہے۔ ہرمن ہیس کی سوانح پڑھ کر مجھے یہ تحریک ملی ہے کہ میں ان کی دیگر ناول : Master Ludi اور Steppenwolf بھی پڑھوں تا کہ میں اپنا کہانی لکھنے کافن اور فکشن تخلیق کرنے کے ہنر میں مزید نکھار پیدا کر سکوں۔

آخر میں، میں نے آپ کا شکریہ ادا کرنا ہے کیونکہ آپ مجھے روز بروز اچھی کتابیں پڑھنے اور ان پر مزید خطوط لکھنے کی طرف مائل کر رہے ہیں۔ مجھے دھیرے دھیرے یہ احساس ہو رہا ہے کہ سیکھنے کا عمل ساری زندگی جاری رہتا ہے۔

امن کا متمنی
خالد سہیل


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).