رضیہ کیسے بنتی ہے؟


اس کی زندگی مسلسل کروٹوں کا شکار تھی ہر بار ایک نئی کروٹ اس کی زندگی تبدیل کر دیتی یہ مسئلہ اس کے ساتھ بچپن سے چلا آ رہا تھا جب حوا خواب کی دنیا میں کچھ نیا اور من چاہا پالینے کے قریب ہوتی تو کروٹ ہی وہ عمل ہوتا جس سے وہ خواب میں من چاہا پانے کی بجائے حقیقت کی دنیا میں خالی ہاتھ واپس لوٹ آتی کروٹ کا یہ پہلا احساس اسے انتہائی تلخ معلوم ہوا

اسے ہر بار من چاہی چیز ایک کروٹ کی دوری پر کھڑی نظر آتی۔

حوا میں ہمیشہ ایک زندگی سانس لیتی تھی ایسی زندگی جو کسی بہشت سے نکالے جانے سے پہلے کی زندگی تھی رعنائی اور خوشیوں سے بھر پور اور پھر ایک کروٹ اسے بہشت سے زمین پر لے آئی تھی زمین بھی ایسی جس کے مناظر منتشر تھے جس کے کردار منافقت کا روپ دھارے ہوئے تھے جہاں ہر چیز شکست و ریخت کا شکار تھی ایسے ماحول میں اس کا وجود سختی کا عادی ہو چکا تھا اس کی زندگی میں آنے والا پہلا آدم اس کا باپ تھا آدم کا یہ روپ اس کے لیے انا اور رعب کی علامت تھا۔

اس کا جنم ایک متوسط گھرانے میں ہوا تھا اسی لئے اس کی زندگی مسلسل کئی آدم زادوں کے حصار میں رہی اسے بچپن سے ہی پرندوں سے والہانہ محبت تھی وہ ان پرندوں کی طرح آزاد اور اونچی اڑان اڑنا چاہتی تھی اس کے وجود میں کئی اڑانے دفن تھیں جو ہر بار کسی آدم کی ناجائز آزادی کی نظر ہوئی تھی

وہ صرف اپنا ہی نہیں اپنے جیسی کئی دوسری حواؤں کا غم ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنے وجود میں اتارتی اور پھر کئی دن اس اذیت کا شکار رہتی بچپن میں کھلونوں کے حصول سے محروم ہونے والی یہ نازک دل لڑکی مسلسل زندگی کی خوشیوں سے محروم کیے جانے پر اب سمجھوتا کر چکی تھی لیکن محرومی کا یہ پودا اب تناور درخت بن چکا تھا جس کے بعد اسے حوا ہونے پر پچھتاوا ہونے لگا یہ پچھتاوا اس وقت شدت اختیار کرتا جب وہ اپنے جیسی کسی ذات کو معاشرتی نظام کی بھینٹ چڑھتے دیکھتی گھر کا ماحول اور اردگرد ہونے والی سرگرمیاں اسے روز کچھ نیا سوچنے پر مجبور کرتیں۔ لوگوں کے دوہرے معیار سے وہ خوب واقف تھی کیونکہ اس کا بچپن انہی رویوں میں گزرا تھا۔

اس کی دنیا اس وقت تاریک ہوئی جب اس کی ہم جولی رضیہ جنسی درندگی کا شکار ہوئی وہ نفسیاتی طور پر ہر آدم کو رضیہ کا قصوروار سمجھنے لگی تھی وہ رضیہ جس کے ساتھ وہ ایک جیسے اجلے اجلے رنگوں والے کپڑے بنواتی جھولے جھولتی آج وہ رنگ کہیں اڑ چکے تھے ان جھولوں کی رسیاں ٹوٹ چکی تھیں رضیہ تو مردہ وجود کے ساتھ زمین کا حصہ بن چکی تھی لیکن اس کی ہم زاد کا بوجھ بہت بڑھ گیا تھا اسے اس بات کا دکھ تھا کہ اس سارے معاملے میں ملوث لوگ اسی ماحول کا حصہ تھے آج رضیہ کا وہ جملہ اسے بار بار دماغ پر ہتھوڑے کی مانند لگ رہا تھا جو اپنی ہر گفتگو کے بعد وہ بولتی تھی تمہیں کیا پتا حوا دنیا بہت ظالم ہے شاید رضیہ پہلے ہی دنیا کے مظالم سے آشکار ہو چکی تھی لیکن ہم زاد اس بھیانک واقعہ کے بعد دنیاوی حقیقتوں سے آگاہ ہوئی تھی جو اسے زندگی سے کہیں دور لے گئی تھی اسے اردگرد کے آلودہ ماحول سے گھن آنا شروع ہو گئی تھی ایک کمرے تک محدود یہ حوا عورت کی بے بسی کا ماتم کرتی رہتی لیکن اس عمل کے پیچھے ایک بڑا عزم موجود تھا جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے وہ پرعزم تھی لیکن اسے ہمیشہ کے لیے تعلیم سے محرومی کی خبر سنا دی گئی یہ خبر نہیں بلکہ اس کے خوابوں کا خون تھا جو کہ اس بار بھی ایک آدمی کے فیصلے کی بدولت ہوا تھا خبر سنتے ہی اس کی بوکھلاہٹ میں اضافہ ہو گیا وہ بہت سی لڑکیوں کو رضیہ بنتے دیکھ رہی تھی جس میں سب سے پہلے اس کا اپنا وجود تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).