عمران خان اور سویلین بالادستی


موجودہ پاکستان میں قائد اعظم کے بعد جن چار سیاست دانوں کو عوام نے بے پناہ چاہا اور ان پہ اپنے اعتماد کا اظہار کیا ہے وہ ہیں ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان۔

کرشماتی شخصیت کے مالک عمران خان اس وقت ملک کے وزیراعظم ہیں۔ ان کے پاکستانی سیاست میں قدم رکھنے کی وجہ سے عوام کی ایک بڑی تعداد نے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی۔ وہ خواتین ووٹرز کو الیکشنز کی طرف لے کر آئے اور سب سے بڑھ کر انہوں نے پاکستانی یوتھ ( نوجوان نسل) کو متحرک کیا۔ 1988ء کے انتخابات کے بعد سے پاکستان میں جو ٹو پارٹی سسٹم چلا آ رہا تھا اس کی موجودگی میں عمران خان نے تحریک انصاف کو ایک تھرڈ فورس کے طور پر منوایا۔

انہوں نے عوام میں یہ شعور پیدا کیا کہ ستر سال سے ملک کو جس نظام کے تحت چلایا جا رہا ہے وہ گل سڑ چکا ہے اور اب اسے تبدیل کرنا ازحد ضروی ہے۔ اور ہمیں ایک بڑی تبدیلی کی ضرورت ہے جسے ہم نیا پاکستان کہہ سکیں گے۔ جو لوگ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی سیاست سے بیزار تھے انہیں تحریک انصاف کی صورت میں ایک امید کی کرن نظر آئی۔

عمران خان کے علاوہ پاکستانی سیاست کے دو اور اہم کردار یعنی ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے سیاسی کیریئر کو دیکھیں تو دو چیزیں بہت اہم دکھائی دیتی ہیں۔ اول یہ کہ دونوں اسٹبلشمنٹ کا سہارا استعمال کرتے ہوئے ملکی سیاست میں اپنی جڑیں مضبوط کرنے میں کامیاب ہوئے۔ دوم یہ کہ دونوں نے عوامی سیاست کے زیر اثر اپنے آپ کو بدلا اور سویلین بالادستی کا نعرہ لگایا۔ گویا اپنے ماضی کے سیاسی گناہوں کا کفارہ ادا کیا اور اس کی بھاری قیمت چکاتے ہوئے نتیجتاً پھانسی، جلاوطنی، جیل، حکومت کا خاتمہ، نا اہلی، اور دشمن ممالک کے ایجنٹ وغیرہ قرار پائے۔

ذوالفقار علی بھٹو شروع میں اسکندر مرزا کی کابینہ میں شامل رہے تاہم سیاسی اٹھان تب ہی ملی جب جنرل ایوب خان نے انہیں وزیر خارجہ مقرر کیا (جنرل ایوب خان کے ساتھ مختلف منسٹریز کے وزیر بھی رہے ) ۔ بعد ازاں ایوب خان کے ساتھ اختلافات اور بالآخر 1967 ء میں اپنی الگ سیاسی جماعت ’پاکستان پیپلز پارٹی‘ قائم کی اور اسی جنرل ایوب خان کے خلاف کمپین کی جس کے ذریعے وہ سیاسی طور پر شہرت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے اور یوں عوامی سیاست کا آغاز کیا۔

ذوالفقار علی بھٹو پر 1977 ء کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگے اور اس کے خلاف ایک تحریک چلی جسے نظام مصطفیٰ کا عنوان دیا گیا۔ یہ تحریک بالآخر جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء پر منتج ہوئی۔ قتل کے ایک مقدمے میں ذوالفقار علی بھٹو کو عدالت کے ذریعے پھانسی دی گئی جسے پاکستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ میں عدالتی قتل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

اسی طرح نواز شریف کی بھی سیاسی منظرنامے میں شمولیت فوجی چھتری تلے ہوئی۔ نواز شریف 1970 ء کی دہائی کے اواخر میں اصغر خان کی تحریک استقلال کا حصہ بنے تاہم سیاسی شہرت اسی وقت ملی جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں 1981 ء میں پنجاب کے گورنر لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان کے ذریعہ وہ صوبائی وزیر خزانہ مقرر ہوئے (اس دوران صوبائی وزیر کھیل بھی رہے ) اور 1985 ء کے غیر جماعتی انتخابات (پیپلز پارٹی نے جس کا بائیکاٹ کیا تھا) کے نتیجہ میں جنرل ضیاء الحق نے انہیں پنجاب کا وزیر اعلیٰ مقرر کیا۔ 1990 ء کے دھاندلی زدہ انتخابات میں جب پہلی مرتبہ نواز شریف نے وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تو وہ اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے پلیٹ فارم سے منتخب ہو کر آئے تھے جسے اسٹبلشمنٹ نے 1988 ء میں پیپلز پارٹی کے خلاف بنایا تھا۔

نواز شریف تین مرتبہ اس ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور ایک مرتبہ بھی انہیں اپنی پانچ سالہ مدت مکمل نہیں کرنے دی گئی۔ اسٹبلشمنٹ نے پہلی مرتبہ غلام اسحٰق خان کے ذریعے (b) 58۔ 2، دوسری مرتبہ مشرف کے مارشل لاء اور گزشتہ دور حکومت میں عدلیہ کے ہاتھوں نا اہلی کے ذریعے نواز شریف کو اقتدار سے علیحدہ کیا۔ نواز شریف کے اپنے ہر دور حکومت میں سویلین بالادستی کی بات پہ اسٹبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب ہوئے اور بالآخر انہیں اقتدار سے نکال باہر کیا جاتا رہا۔

اب ذرا عمران خان کی سیاست پہ نگاہ دوڑاتے ہیں۔ عمران خان نے اپنی کپتانی میں پاکستان کو 1992 ء کا کرکٹ ورلڈ جتوایا اور 1994 ء میں عوام کی مدد سے لاہور میں کینسر کا ایک بڑا ہسپتال قائم کیا۔ اس کے ٹھیک دو سال بعد 1996 ء میں عمران خان نے ’تحریک انصاف‘ کے نام سے اپنی سیاسی جماعت قائم کی۔ 1997 ء کے عام انتخابات میں کوئی بھی سیٹ حاصل نہ کر پائے۔ 1999 ء میں جب جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت فارغ کر کے مارشل لاء نافذ کیا تو عمران خان نے اسے سپورٹ کیا اور 2002 ء میں ہونے والے صدارتی ریفرنڈم میں بھی جنرل مشرف کا ساتھ دیا۔

2002 ء کے عام انتخابات میں عمران خان صرف ایک نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور انہی الیکشنز کے پس منظر میں ان کے جنرل مشرف کے ساتھ معاملات خراب ہو گئے اور دونوں کے درمیان دوری پیدا ہونا شروع ہوئی۔ بعد ازاں عمران خان نے مشرف کے مارشل لاء کا بھرپور مقابلہ کیا، پالیسیز کی کھل کر مخالفت کی اور اے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے پرویز مشرف کے خلاف مشترکہ جدوجہد بھی کی۔ انہوں نے 2008 ء میں جنرل مشرف کی صدارتی نگرانی میں ہونے والے انتخابات کا بائیکاٹ کیا جب کہ 2013 ء کے انتخابات میں 28 جنرل نشستوں پہ کامیابی حاصل کی۔

اس ساری روداد کا خلاصہ مگر یہ ہے کہ 1996 ء سے لے کر 2013 ء تک عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کو اقتدار تک رسائی نہ مل سکی۔ اور پھر عمران خان نے اقتدار حاصل کرنے کے لیے غلط راستے کا انتخاب کیا۔ 2018 ء کے انتخابات میں کامیابی عمران خان کے مقدر میں لائی گئی۔ اس حوالے سے عمران خان نے اپنے سیاسی مخالفین مسلم لیگ (ن) کے نواز شریف اور پیپلز پارٹی کے ذوالفقار علی بھٹو والا طریقہ اپنایا یعنی اسٹبلشمنٹ کی سیڑھی استعمال کرتے ہوئے اقتدار کا حصول۔ یہ تو ہو گیا پہلا نکتہ۔ اب دوسرے نکتے کی بات کرتے ہیں جو کہ عمران خان کی آیندہ سیاست سے جڑا ہے۔

عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے سے پہلے عوام سے جو وعدے کیے تھے ان پر کس حد تک عمل پیرا ہو سکے ہیں یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہر فرد اپنے گرد و پیش کا جائزہ لے کر ڈھونڈ سکتا ہے۔ جس دوسرے نکتے کی بات اوپر کی گئی وہ یہ ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی جاتی اور جو عمران خان کو وزیراعظم منتخب کروانے میں کامیاب ہوئے تھے وہی عناصر اگر عمران خان کی حکومت کو رخصت کر دیں تو اس صورت میں کیا عمران خان، ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کی طرح مشکل حالات کا سامنا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور کیا سویلین بالادستی کا علم بلند کریں گے؟ اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ان کے پاس جو آپشنز موجود ہیں وہ ہیں خود ساختہ جلاوطنی یا پاکستان میں رہتے ہوئے مکمل خاموشی۔ بصورت دیگر کیا عمران خان مقدمات اور جیل میں ڈالے جانے سمیت دیگر سختیاں برداشت کر پائیں گے اور اپنے موقف پر ڈٹے رہیں گے؟

ہمیں یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ 1977 ء میں اس وقت کی سب سے مقبول جماعت پیپلز پارٹی اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے مقبول عوامی لیڈر کی حکومت ختم کر دی گئی تھی۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے خلاف تیار کیے جانے والے اپنے چہیتے پنجابی لیڈر نواز شریف کی حکومت ختم کرنے میں بھی دیر نہیں لگائی گئی تھی جو کہ 1999 ء میں دو تہائی اکثریت اور 2017 ء میں ملک کا تین مرتبہ کا وزیراعظم رہ چکنے والا فرد تھا۔ اس لیے عمران کی حکومت ختم کرنا مسئلہ نہیں ہے جو کہ انتہائی معمولی اکثریت سے قائم ہے۔ ان کے لیے سیاستدانوں کو لانا اور واپس بھیجنا کبھی مشکل نہیں رہا۔

قصہ مختصر یہ کہ اللہ کرے عمران خان پورے پانچ سال وزیراعظم رہیں اور تحریک انصاف کی حکومت اپنی مدت مکمل کرے مگر بالفرض عمران خان کو اقتدار سے نکالا جاتا ہے تو کیا عمران خان اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا مقابلہ کر سکیں گے؟ کیا اس ضمن میں وہ ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے ہم پلہ نظر آئیں گے؟ اور مقتدر قوتوں کے لیے پریشانی کا باعث بنتے ہوئے سویلین بالادستی کا نعرہ لگا پائیں گے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).