سیاسی جماعتوں کو بلدیاتی ادارے کیوں ناپسند ہیں؟


سوال یہ ہے کہ بلدیاتی ادارے ایک سیا سی تصور یا نظریے کے طور پر سیاسی جماعتوں کے اندر کیوں فروغ پذیر نہیں ہو سکے؟

اس سوال کا جواب ایک اور سوال میں ہے کہ ایک دور میں پیپلز پارٹی جیسی مثالیت پسند پارٹی نے بھی لاہور پیپلز پارٹی کے ایک فعال کارکن آغا نوید جیسے بے لوث مقامی رہنما کی قدر کیوں نہیں کی جنہوں نے ان کے لیے 1983 کی ایم آرڈی موومنٹ میں شا ہی قلعے میں میں مہینوں ناقابل تصور تشدد برداشت کیا۔ آغا نوید کی قید کی داستان جو فرخ سہیل گوئندی نے ”دوسرا جنم“ کے نام سے چھاپ دی ہے جو پیپلز پا رٹی کے عام کارکنوں کی مارشل لا کے خلاف جدوجہد کی ایسی داستان ہے جس کو پڑھنے کے بعد ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کم ازکم اس رات آپ آسانی سے سو سکیں۔ قائد کے پاکستان کو ہم نے کیسا بنا دیا۔ اس کتاب کے واقعات ناقابل بیان ہیں لیکن یہاں سب سے کم درجے کی اذیت کا ذکر کرتے آغا نو ید صفحہ 61 پر لکھتے ہے۔

” (میں نے پہرے دار سے کہا) مجھ ( آغا نوید پر ) تشدد ہوتے ہوئے اور جاگتے ہوئے آج مسلسل پانچواں دن ہے اس لیے اب مجھ سے نہیں جا گا جاتا چاہے تشدد کر لو یا کچھ اور کر لو۔ یہ کہہ کر کے کونے پر پڑا سو گیا۔ اب بھی مجھے اس کے چیخنے چلانے اور چنگھاڑنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ مگر میں تمام نتائج سے بے خبر سوتا رہا۔ کچھ دیر بعد یہ شور بند ہوا تو میں سو چکا تھا۔ چند منٹ گزرے ہوں گے تو سلاخوں کے پیچھے سے شور ہوا۔

شور ایسا شدید تھا کہ میں جاگے بنا رہ نہ سکا سامنے پہرے دار میری نگرانی ٹیم کے انچارج کے ساتھ کھڑا تھا۔ مجھے جا گتے دیکھ کر بو لا ”تمہارے جاگنے کی آرڈر ہیں اور تم سو رہے ہو۔ ہمارا خیال کرو کسی نے تمہیں دیکھ لیا تو ہماری شامت آ جائے گی“ ۔ اس کے لہجے میں التجا تھی۔ ”میں مزید نہیں جاگ سکتا مجھے جاگتے ہوئے پانچواں دن ہو گیا ہے تم کچھ بھی کر لو کرلو میں آج جاگ نہیں سکتا۔ اسے رحم آ گیا گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے بولا اڑھائی بج چکے ہیں۔ ایسا کرو چار بجے تک کے لئے سو جاؤ مگر اس شرط پر اس کے بعد نہیں سو گے۔ میں نے فوراً حامی بھر لی اور بستر پر لیٹ گیا جیسے کوئی لاش پڑی ہو“ ۔

اس پیراگراف سے پہلے اور بعد کے واقعات ناقابل بیان ہیں۔ آغا نوید پر عقوبتوں کا وہ سال گزر ہی گیا اور پیپلز پا رٹی کو 1989، 1993 اور 2008 میں اقتدار نصیب ہوا لیکن آغا نوید حکومت میں تو کجا پارٹی میں نمایاں عہدے دار بھی نہ بن سکے اور 2009 میں اس دنیا سے رخصت ہو گے۔ مقامی کارکن ہوں یا مقامی حکومتیں ہماری سیاسی پارٹیاں ان کا کم ہی خیال کرتی ہیں۔ آج پیپلز پا رٹی پنجاب کا کیا حال ہے۔ اور کیوں ہے اس کا جو اب آغا نوید جیسے بے لوث کارکنوں کی بے قدری ہے۔

شا ید اسی لیے پاکستان میں جب بھی بلدیاتی انتخابات ہوئے ایک دو کو چھوڑ کر سارے عسکری ادوار میں ہوئے جیسے کہ جنرل ضیا نے 1979 بلدیاتی انتخابات کروائے یا اس کے بعد جنرل مشرف کے 2002 میں دیا گیا مقامی حکومتوں کا نظام اور انتخابات۔ سیاسی حکومتیں ہمیشہ بلدیاتی انتخابات سے کتراتی رہی ہیں۔ وفاقی وزیر فواد چودھری جو اپنے بے باک بیانات کی وجہ سے مشہور ہیں کو شاید اسی لیے کہنا پڑا کہ تحریک انصاف کی پہلے دو سال کی سب سے بڑی سیاسی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے بلدیاتی انتخابات نہیں کر وائے۔

اسلام آباد میں پالیسی پر نظر رکھنے والے ماہرین جانتے ہیں کہ خود وزیر اعظم کی خواہش کے باوجود ان کی اپنی صوبائی حکومتیں پنجاب اور خیبر پختونخوا میں مسلسل انتخابات کو ملتوی کرتی رہی ہیں۔ غالباً ماضی کی طرح اس بار بھی انھیں سپریم کورٹ کی تنبیہ کا انتظار ہے۔

اس سلسلے میں تازہ ترین امر حکومت سندھ کا وہ فیصلہ ہے جس کے تحت بلدیاتی اداروں کی مدت پچھلے ماہ ختم ہونے کے بعد انتظامی افسران ہی بلدیاتی دفاتر کو چلائیں گے۔ رواں ماہ کی بارشوں کے بعد کراچی کی صورتحال پر مقامی اداروں کی عدم فعالیت کے بعد وفاقی اقدامات نے سندھ حکومت کی اہلیت کے بارے میں جہاں نئے سوال کھڑے کر دیے ہیں وہاں پیپلز پا رٹی کی سیاسی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے کہ وہ اس قابل بھی نہیں کہ بارشی نالے ہی خود صاف کر لیتے۔ اور یہ کہ کیا کراچی میں وفاقی اداروں کا کردار بڑھنا چاہیے جیسا کہ سراج قا سم تیلی نے اپنے سو شل میڈیا پیغام میں کہا۔ حالانکہ ان کی تجویز آئین سے تقریباً متصادم ہے پھر بھی میونسپل سروسز کے زوال سے نالاں شہری علاقوں میں اس تجویز کو سننے والے بہت ہوں گے۔

جاوید احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

جاوید احمد ملک

جاوید احمد ملک سماجی ترقی اور انداز حکمرانی پر ایک کتاب Transforming Villages کے مصنف ہیں

javed-ahmad-malik has 6 posts and counting.See all posts by javed-ahmad-malik