کیا کراچی کو کسی خضر کی تلاش ہے؟


کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ میں کراچی کے ایک قدیم علاقے میں پیدا نہیں ہوا بلکہ کراچی نے میرے اندر اک نیا جنم لیا ہے۔ یہ میری جنم بھومی ہی نہیں بلکہ میرا وہ استاد ہے جس نے خضر راہ سے مجھے روشناس کرایا۔ اس نے مجھے سمجھایا کہ تم جس مشنری اسکول کا حصہ بنے دراصل وہ جناح پونجا کے بیٹے کا اسکول ہے لیکن سرکاری حاشیہ بردار وثیقہ نویس ایک قائداعظم بنانے کے لئے اس اسکول کا نام ہی حرف غلط کی طرح چھپا لینے پہ مصر ہیں۔

لیاری سے قریب اس کالج میں قدم رکھا جہاں وہ زبان ذریعہ تعلیم تھی جو قومی تو ہے لیکن قوم کی طرح اشرافیہ کی نظر میں ہمیشہ سے حقیر ہے لیکن اسی مادر علمی نے مجھ پہ زندگی کا یہ سب سے بڑا راز فاش کیا کہ “I think therefore I am “۔ ہر سوچنے والا فرد اپنا خضر ہے جو اپنے لئے راستہ تلاشتے ہوئے دراصل دوسروں کے لئے راستے بناتا ہے۔ ہر فرد ایک ایسا کہانی کار ہے جو کردار تخلیق کرتے کرتے شہر بسا دیتا ہے جیسے کراچی کے گودی مزدوروں نے اپنے پسینے سے ایک شہر نگاراں آباد کیا۔

مائی کلاچی کا شہر کراچی جسے بحیرہ عرب کا پہلا قدم تو کہا جا سکتا ہے لیکن بہت قدیم ہرگز نہیں بلکہ یہ تو ایک عجیب شہر ہے جسے سمجھنے کے لئے اگر اس کی پرت در پرت کھولنا چاہئیں تو آپ کی آنکھوں میں آنسو آ جائیں گے مگر پھر بھی آپ ایسے درست طریقے سے سمجھ یا پہچان نہیں پائیں گے کیونکہ اس کے بہت سے چہرے ہیں۔ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ کیسی استاد فنکار نے اپنے ستار پہ اساوری یا سری راگ کے پراسرار سروں کو ایسے چھیڑا ہے کہ فضا میں موجود عشق و محبت کی تمام روحیں ملاحوں کی اس بستی میں کھنچی چلی آئیں اور ایک عروس البلاد آباد ہو گیا۔ شہر نگار جسے رنگوں کے خط سے ایسے تخلیق کیا گیا جیسے یہ صادقین کا کوئی شہ پارہ ہو۔

صبح اودھ اور شام بنارس کے قصے تو لازوال ہوچکے لیکن ہم نے دم توڑتی شب کراچی کو پہلے جوان ہوتے اور پھر اس کے چاند چہرے اور ستارہ آنکھوں کو نفرت کے دھویں سے دھندلاتے ہوئے بھی دیکھا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ کراچی کسی بیوہ کی مانگ کی طرح اجڑا اور پھر اداس ہو گیا۔ یہ عجیب شہر ہے جو زندگی دیتا بھی ہے اور یہاں چند دنوں پہلے تک زندگی شام کے اخبار کی شہ سرخیوں کے بازوؤں میں روز دم توڑتی بھی نظر آتی تھی۔ وحشتوں کے اس دور میں بھی میرا یہ یقین تھا کہ کراچی اپنے مزاج میں درویش ہے، جسے وقت کی ریاضت ایک ایسا قلندر بنا چکی ہے جس کی رگوں میں سخاوت لہو بن کر دوڑ رہی ہے۔ اس کے شہری دھمال کرتے وہ مجذوب ہیں جو موت کی تال پہ بھی رقص کناں رہتے ہیں۔ دراصل اس شہر نے زندہ رہنے کا ہنر مچھلی کے شکار پر جانے والے مچھیروں کے گیتوں میں موجود رومان اور زندہ رہنے کے لئے کی جانے والی مزاحمت کی موسیقیت سے سیکھا ہے۔ زندہ رہنے کا یہ ہنر ہی درحقیقت “دبستان کراچی” ہے۔ وہ دبستان جس میں معراج محمد خاں، ستار ایدھی، ادیب الحسن رضوی، مشتاق احمد یوسفی اور فہمیدہ ریاض اپنے اپنے وقت میں اپنے اپنے حصے کی شمع جلائے بیٹھے تھے۔ کراچی وہ شہر بے مثال جس کی فضا میں جون ایلیا کی آواز کا ارتعاش اور خالد علیگ کی مزاحمتی شاعری کا رومانوی حسن آج تک موجود ہے۔

جس شہر میں ایسے لوگ، فضا اور کراچی پریس کلب جیسے ادارے موجود ہوں وہاں کی “مائی کلاچی”زندہ رہنے کے لئے زندگی کی لڑائی ہمیشہ لڑتی رہے گی حالانکہ کراچی پریس کلب میں بہت عرصے سے کرائے پہ دیے جانے کی ریت پڑ چکی ہے لیکن شاید یہ مزدور طبع رویہ شہر کے مزاج کا حصہ ہے۔ یاد رہے اس شہر ناپرساں کو کسی تاریخی شہر کی طرح کسی فاتح حکمراں یا کیسی عالی جاہ کے حکم سے تعمیر نہیں کیا گیا بلکہ یہ شہر عام لوگوں کی شبانہ روز محنتوں سے آباد ہوا ہے۔ اس لئے کراچی کے واسیوں کے ساتھ کبھی بھی یہ مسئلہ ہرگز نہیں رہا کہ انہیں شہر کے کسی تاریخی ورثے کا تحفظ کرنا ہے خوش قسمتی سے شہر کے کسی حصے میں کسی فاتح یا مغل شہنشاہ کی کوئی یادگار نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں کسی بادشاہ کے ورثے کو محفوظ رکھنا ہے ہمیں تو محض اپنے جوڑیا و کاغذی بازاروں جیسے چند چھوٹے بازاروں، ان کے کلچر، ذائقوں، رنگ و مزاج کے ساتھ صرف ایک بندرگاہ یا برطانوی راج میں تعمیر ہونے والی گنی چنی عمارتوں مہٹہ پیلس، ہندو جم خانہ، میری ویدر ٹاور، ایمپریس مارکیٹ، میٹھا رام ہاسٹل اور دو ڈھائی علمی جزیروں اور ان سے بھی بڑھ کر ہمیں بچانا ہے اس شہر میں مرتے ہوئے لمحوں کو۔

ہمیں حفاظت کرنی ہے شہر کے صوفیانہ مزاج اور اس تمدنی زندگی کی جس میں پروفیسر حمزہ علوی، پروفیسر کرار حسین، بشیر مرزا، علی امام، مہدی حسن، م ر حسان، ڈاکٹر جمیل جالبی، انیس ہاشمی، منہاج برنا اور ڈاکٹر رتھ فاؤ جیسی نابغہ روزگار شخصیات سانس لیتی رہی ہیں۔ اس آواز کی لو بڑھانی ہے جو عبیداللہ علیم، جون بھائی اور جمال احسانی کے بعد مدھم سی ہو چلی ہے اور اگر اب بھی ہم نے کوئی نیا چراغ روشن نہیں کیا تو “گماں” ہے کہ “چاند چہرہ ستارہ آنکھیں “ پتھرا سی جائیں گی۔ شہر کے سنہرے ہاتھوں کو تھامنا ہے تاکہ ستار ایدھی اور ادیب الحسن رضوی کے ہاتھ مزید مضبوط ہوں اور وہ ہر کس و ناکس کا ہاتھ تھام سکیں۔ شہر کے ان خدوخال کو نکھارنا ہے جو صادقین جیسے مصوروں نے اپنے موئے قلم سے تخلیق کیا اور ضیاء محی الدین نے جنہیں ادائیگی کی گمک اور شیماکرمانی نے اعضا کا نرت بخشا۔ مشتاق احمد یوسفی نے یوں گویائی دی کہ اک بار تو سامری کی “سنہری گئو سالہ “بھی شرما اٹھی۔ دراصل اب ہمیں اس شہر کے ترنم کو بچانا ہے جو ریڈیو پاکستان کی اجڑتی کینٹین میں اساتذہ فن و موسیقی کے ساتھ دم توڑ رہا ہے حالانکہ جس دن ملکہ ترنم نور جہاں کراچی کی مٹی کا حصہ بنیں تو اس روز جہاں کا سارا نور ترنم بن کر ہمارے شہر کی سوندھی مٹی کی خوشبو کو دوچند کر گیا تھا۔ ہمیں حفاظت کرنی ہے منصور سعید کی اس “دستک” کی جو اس نے شہر کے بند دریچوں پر بریخت کی تخلیق “ گلیلیو کی داستاں” سنا کر دی تھی۔

یاد رہے یہاں پروین شاکر بھی “خوشو کی دستک “ دے چکی۔ ڈاکٹر عبدالسلام کی علمی روایات اور ڈاکٹر اخترحمید خان کے وہ مسکراتے ہاتھ جنہوں نے ایشیا کی سب سے بڑی کچی آبادی میں انسانی محنت کا جزیرہ آباد کیا تھا کے سامنے ایک ایسا فکری مورچہ آباد کرنا ہے کہ جس کے بعد اورنگی پائیلٹ پراجیکٹ کی کسی ڈائریکٹر کو اندھی گولی کا نشانہ نہ بننا پڑے۔ ہمیں 250 روپے یومیہ دیہاڑی پہ کام کرنے والی پولیو ورکرز کو ان کے ہونے کا یقین دلانا ہے۔ ایک جنگ ضرور لڑنی ہے لیکن لاشوں کا ماتم ہرگز نہیں کرنا بلکہ بہت سے نئے پل بنانا ہیں۔

سب سے پہلا پل تو ملاحوں کی بستی نیا آباد سے عزیز آباد تک بنانا ہے جس پر چلتے ہوئے ہم جوڑیا بازار سے بوہری بازار اور لالو کھیت سے حیدری مارکیٹ تک روشنی کے چراغ روشن کر سکیں۔ باکڑا ہوٹل سے لکھ پتی ہوٹل اور فریسیکو چوک سے پیالہ ہوٹل تک کے ذائقوں کو زندہ بلکہ ہم معنی کر سکیں۔ وہ رات اس شہر کو واپس لوٹانی ہے جو برنس روڈ سے شروع ہو کر کھارادر سے ہوتی ہوئی کھڈا مارکیٹ کے کسی ہوٹل کے ٹوٹے پھوٹے تختے پہ بیٹھے کسی گودی مزدور کو سورج کے طلوع ہونے کی نوید دیتی تھی۔

یہ درست ہے کہ کراچی ایک میگا سٹی ہے اور اس کے مسائل بھی دنیا کے دیگر بڑے شہروں سے مختلف نہیں ہیں لیکن ہمارا المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو ابھی تک کراچی کا مسئلہ ہی سمجھ نہیں آرہا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں سوک سینٹر تو ہے لیکن سوک سینس نہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ شہری شعور پیدا کرنے کی کبھی کوئی کوشش بھی نہیں کی گئی۔ یوں لگتا ہے کہ دھوئیں میں کھانستے کراچی کو بچانے میں کسی کو کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔ اس لئے کبھی ضرورت ہی نہیں سمجھی گئی کہ کراچی کے معاشرتی، ثقافتی اور نفسیاتی مسائل کا کوئی تجزیاتی مطالعہ کیا جائے اسی لئے شاید ہمارے حکمرانوں کو یہ پتہ نہیں چل سکا کہ ساحلی کنارے پہ آباد بڑے صنعتی شہر کا سب سے بڑا مسئلہ ماحولیاتی کثافت ہوتا ہے۔ کیا ہم جانتے ہیں کہ وہ صنعتی علاقے جو چند دہائیوں پہلے شہر سے باہر تھے وہ آج آبادی میں بے تحاشا اضافے کا سب سے بڑا سبب ہیں اور منصوبہ بندی کے بغیر مشرومز کی طرح اگنے والے بے ہنگم تجارتی و رہائشی منصوبوں کے باعث شہر کے مراکز میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

ابھی ہم نے شہری مسائل کی شدت کو محسوس ہی نہیں کیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ بڑے بڑے شہری ترقی کے اداروں اور ان کے اربوں روپے کے فنڈز کے باوجود یہ سونے کی چڑیا دیکھتے ہی دیکھتے بدنظمی، گندگی، بدحال سڑکوں، پانی کی کمیابی، پراسرار کچی آبادیوں اور چھوٹی چھوٹی کابکوں پہ مشتمل آسماں بکف بڑی بڑی عمارتوں نے شہر کراچی کو کنکریٹ کا ایک ایسا جنگل بنا دیا ہے جس میں ایک بھی ایسا سایہ دار درخت نہیں ہے جس کی چاہ میں مسافر کھنچے چلے آئیں۔ خیر اس تلخ حقیقت کا اطلاق کم وبیش تمام بڑے شہروں پہ ہوتا ہے کہ شہر دیہات کا حسن چرا لیتے ہیں اور فطرت کے متوازی ایک ایسی دنیا کھڑی کر دیتے ہیں جو جدید تو ضرور ہوتی ہے لیکن مسائل کا انبار بھی ساتھ لاتی ہے۔ تاہم ترقی یافتہ مہذب اقوام ان مسائل کا سامنا شہری منصوبہ بندی سے کرتی ہیں لیکن ہمارا کراچی تو راتوں رات اس بے رحم طریقے سے اچانک کنکریٹ کے جنگل میں تبدیل ہوا جسے سوچتے ہوئے جون ایلیا کا یہ شعر معانی کی ایک نئی دنیا میں لے گیا، حاصل کن ہے یہ جہان خراب/ یہی ممکن تھا اتنی عجلت میں۔

اتنی عجلت کیوں؟ عجلت سے شہر کے سینے میں گڑی فولاد کی میخوں سے آپ کا دم نہیں گھٹتا؟ میرا تو بہت گھٹتا ہے لیکن اس کے باوجود مجھے اب بھی دھوئیں، شور اور ماحولیاتی آلودگی میں بھی کہیں دور سے ملاحوں کا رومان کبھی کبھی پکار لیتا ہے کہ بحیرہ عرب کی لہروں سے پیار کرنے والو، آگے آؤ اور اس عظیم ساحلی شہر کے در ودیوار سے برتی جانے والی غفلت کا ازالہ کرو۔ صف بندی کرو سمندر کی حفاظت کے لئے، مورچہ بناؤ شہر کے قلندرانہ مزاج کو بچانے کے لئے۔ شہر کے بے تحاشا اور بے ہنگم پھیلاو سے پیدا ہونے والی بدصورتی کیخلاف مدافعت کا آغاز کرو۔ اپنے ہونے کا احساس کرو اور اپنے اصل کو بچاؤ۔

کتابوں کی دوکانیں آباد کرو بلکہ کتابوں کی کوئی ایک نئی دوکان ہی کھول لو۔ کیپری اور نشاط سینما تو جنون کی آگ میں بھسم ہوئے۔ یہ آوازیں جب حد سے بڑھ کر مجھے ڈرانے لگتی ہیں یا جب میں اپنے شہر کے شب و روز کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے تھک کر اس کے مسائل کی گتھیاں سلجھاتے ہوئے اکتاہٹ سی محسوس کرنے لگتا ہوں تو دو لمحوں کا وصال دیکھنے سمندر کے کنارے جا بیٹھتا ہوں جہاں ہر گذرتے لمحے کے سائے ساحل کی ریت پہ نقش ہوتے چلے جاتے ہیں۔

اسی طرح کی کیفیت میں ساحل پہ چہل قدمی کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک ناتواں سایہ سورج پہ نگاہیں جمائے چلا جا رہا ہے۔ میں نے اسے زور سے پکارا اور پوچھا بھائی سمندر کی طرف کیوں جا رہے ہو؟ کون ہو تم؟ اس نے میری جانب دیکھے بغیر جواب دیا، میں ماضی کا عروس البلاد اور اس سمندر کا بیٹا ہوں میں نے حیرت سے سوال کیا کہ کہاں جا رہے ہو؟ وہ بولا اپنے خضر کی تلاش میں۔ اب میرے سامنے یہ سوال ہے کہ جس شہر میں ہم رہتے ہیں، کیا واقعی اسے کسی خضر کی ضرورت ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).