جیکب آباد پولیس کی کرپشن کہانی


تیسری دنیا بیشتر ملکوں میں محکمہ پولیس کو کرپٹ اداروں میں شمار کیا جاتا ہے، محکمے میں اگر کسی کرپشن کا بھانڈا پھوٹے تو ایک کام ہوتا ہے، انکوائری، بد عنوانی کی تحقیقات کے لیے محکمہ صاف ستھرے افسر کا چناؤ کرتا یے اچھی شہرت کے ایماندار افسر کو انکوائری سپرد کی جاتی ہے لہذا یہ اچھی شہرت کے افسر بد عنوانی سے پریشان رہتے ہیں خود یہ کسی کرپشن، مفاد پرستی کا حصہ نہیں ہوتے لیکن انہیں اپنے ضلع یا ڈویژن میں ذمہ داریاں ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کرپٹ افسران کی انکوائری کرنی پڑتی ہے ان کی مثال اس سردار جیسی ہے جو ایک دن کیلے کی چھلکے سے پھسل کر گرتا ہے اگلے روز پھر کیلے کا چھلکا سڑک پر پڑا دیکھ کر بے بے اختیار کہتا ہے لگتا ہے آج پھر گرنا پڑے گا۔

کرپٹ افسر کی زرخیز ضلع میں تعیناتی کے بعد جیسے ہی کرپشن کا جھنڈا لگتا ہے یہ ایماندار انکوائری افسر سردار جی کی طرح ایک دوسرے کہتے ہیں، اس کی انکوائری نہ کرنی پڑ جائے، یہ کسی کرپشن، مفاد پرستی، اقربا پروری، سیاست کا حصہ نہیں بنتے، اچھی شہرت اور خصوصیات کے باعث انہیں مختلف تنازعات جس میں بد عنوانی اختیارات سے تجاوز جیسے مسائل زیادہ ہوتے ہیں تحقیقات کرکے رپورٹ اعلی حکام کو دینی ہوتی ہے یہ افسران شریف بھی ہوتے ہیں خوش گفتار بھی لیکن ان انکوائری رپورٹ کو مرتب کرتے کرتے یہ محکمہ کے کئی کرپٹ افسران اور اہلکاروں کو نا چاہتے ہوئے بھی اپنا مخالف بنا بیٹھتے ہیں۔ ان انکوائریز کا محکمہ میں کیا اثر ہوتا ہے، یہ بھی دلچسپ سوال ہے مجھ سے پوچھا جائے تو میں کہوں گا کچھ اثر نہیں ہوتا، یا ہوتا ہے تو بہت معمولی اثر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ پولیس کی درجہ بندی ہے، محکمہ پولیس کے رینکرز افسران کا موقف ہے کہ پولیس سروس پاکستان کے افسران اپنے گروپ کے افسران کی انکوائریز نہیں کراتے۔ اور اگر کراتے بھی ہیں تو اس پر کارروائی نہیں ہوتی، چھوٹوں پر نزلہ گرتا ہے۔ بڑے اگلی پوسٹ پر تعینات ہو جاتے ہیں۔

آئی جی سندھ مشتاق مہر نے حال ہی میں ایک بڑے اور اہم ضلع جیکب آباد میں بد عنوانی کا نوٹس لیا، اور محکمہ پولیس کے انتہائی ایماندار افسر، اور ماضی میں جیکب آباد میں تعینات رہنے والے فیصل عبداللہ چاچڑ کو اس بدعنوانی کی انکوائری سپرد کی۔ جیکب آباد کالے دھن کے حوالے سے زرخیز ضلع سمجھا جاتا ہے، ایرانی ڈیزل، الیکٹرونک آئٹمز، کابلی گاڑیاں، اسپئیر پارٹس، کپڑا، چھالیہ یہاں سے سب گزرتا ہے یہاں تعینات کئی کرپٹ افسران مال بناتے آئے ہیں۔ چند ایک افسران ہیں جو یہاں سے دامن بچا کر نکلے۔ گزشتہ عرصے اس ضلع میں کرپشن کی ٹی ٹوینٹی کھیلی گئی، ہر بال پر چھکا لگتا رہا۔ ضلع میں ہونے والی بد عنوانیوں اور بھتہ خوری کا چرچہ رہا۔ ایرانی ڈیزل، افغان ٹرانزٹ کی گاڑیاں، چھالیہ یہاں سے سب گزرتا رہا اور پولیس حصہ لیتی رہی۔ یہاں ایس پی بشیر بروہی تعینات تھے۔ پولیس حکام کو اطلاعات ملیں کہ افغان ٹرانزٹ کی گاڑیوں سے لے کر ڈیزل کے ٹینکر تک سب کا ریٹ فکس ہے، حصہ دے کر قصہ سڑک پر ہی ختم کر دیا جاتا رہا۔ اسی لیے ایک ادارے نے کرپشن آن روڈ کے نام سے حکام کو خط لکھا۔ یہاں بڑے صاحب کی آشیرباد رکھنے والے سپاہی انسپکٹر سے زیادہ با اختیار اور طاقتور تھے۔ انسپکٹر اور ڈی ایس پی، سب بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے رہے۔

ستم یہ ہوا داغدار ماضی کے ساتھ سالوں سے تعینات افسران و اہلکاروں تعریفی اسناد سے نوازا گیا، ڈسٹرک قمبر سے بھرتی ہونے والا صدر تھانے میں تعینات غلام اصغر تنیو، اپنے بھائی غلام نبی کے ساتھ مل کر شمبے شاہ اور عمرانی لارو چوکیوں سے منظم انداز میں اسمگلنگ کراتا رہا ہے، اہلکار الطاف چانڈیو اس کا دست راست تھا، جیکب آباد میں اصغر تنیو کو ایس ایس پی کا خاص آدمی سمجھا جاتا تھا، جیکب آباد میں منشی، ہیڈ محرر، چوکی انچارج، تھانیدار سب تنیو کے حکم پر لگتے تھے، لہذا، کارکردگی، کی بنیاد پر سب سے زیادہ تعریفی اسناد اصغر تنیو نے وصول کیں یہاں سی آئی اے انچارج عمر بنگلانی، عزیز اللہ کٹو، بھی ضلع کے اہم کردار کے طور پر جانے جاتے رہے ہیں یہ چاروں کردار سالہا سال سے اس ضلع میں تعینات ہیں۔ کرپشن پر انکوائری کی بات کی جائے تو اکثر انکوائریز محض دست راست، یا بیٹروں کے خلاف ہوتی ہیں، بڑے انکوائریز کے جال میں چھوٹی مچھلی بن کر نکل جاتے ہیں۔ جیکب آباد کرپشن کہانی کی انکوائری کا یہ تاریک پہلو ہے کہ اس میں تھانیداروں، چوکی انچارجوں اور سپاہیوں کو تو شامل تفتیش کیا گیا لیکن ضلع چلانے والے ایس ایس پی کا کہیں ذکر نہیں آیا۔ کیا ایس پی بشیر بروہی سیاسی اثرو رسوخ کی انکوائری سے بچ نکلے؟ یا پولیس سروس پاکستان کے افسر ہونے کی وجہ سے ان سے تحقیقات بذات خود جرم ہیں؟

ان کے متعلق ایک سینئیر صحافی کا کہنا ہے یہ بلوچستان میں تعیناتی کے دوران بھی کرپشن الزامات کی زد میں رہے وہاں بھی ان کے خلاف تحقیقات آگے نہ بڑھ سکیں۔ جیکب آباد کرپشن کہانی کی اس انکوائری کی داستاں میں ہمیشہ کی طرح چھوٹے رگڑے میں آئے۔ انکوائری رپورٹ کے بعد 8 اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی شنید ہے، ایس ایس پی فیصل عبداللہ چاچڑ نے غلام اصغر تنیو کو چوروں کی ماں قرار دے کر اور اس کو نوکری سے برطرف کرنے کی سفارش کی لیکن سوال ہے کہ سی پی او نے چوروں کی اس ماں کے مائی باپ کی انکوائری کسی کو کیوں نہ دی؟ انکوائری میں عزیز اللہ کٹو، آصف چانڈیو، اور دیگر کو پولیس کی کالی بھیڑیں قرار دے کر سخت کارروائی کی سفارش کی گئی۔ اس انکوائری پر مامور افسر کے لکھے پر کوئی سوال اٹھانا آسمان کی طرف تھوکنے کے مترادف سمجھتا ہوں لیکن ببانگ دہل کہتا ہوں کہ ایسی انکوائریز سے کچھ حاصل وصول نہیں جن میں یہ تاثر عام ہو کہ پی ایس پی اور رینکر کا تعصب برتا گیا ہو۔ آئی جی صاحب آپ بلا امتیاز انکوائری کرائیں۔ بد عنوانی ثابت نہ ہوئی تو نااہلی اور نالائقی ثابت ہونا تو لازم ہے۔ کرپشن میں ملوث نہ بھی ہوں تو ناک کے نیچے کرپشن، چوری، بھتہ وصولی کے بعد اگلی پوسٹ پر تعیناتی کا جواز نہیں بچے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).