بونوں کے شہر میں شعور کا قتل


گزشتہ دنوں تربت میں کڑیل جوان حیات بلوچ پر بوڑھے ماں باپ کے سامنے ایف سی اہلکار نے 8 گولیاں مار کر شہید کر دیا۔

یہ حیات کا قتل نہیں بلکہ اس شعور کا قتل ہے جو علم اور بنیادی انسانی حقوق کا طالب ہے۔ وائرل ہوئی تصویر دیکھ رہے ہیں نا! ہمت ہے لکھنے کی تو لکھ کر دکھائیں اس تصویر کا کیپشن، میں اتنا بہادر نہیں کہ یہ لکھ سکوں کیونکہ معلوم ہے کہ یہ لکھا تو ”بھارت سے فنڈنگ“ اور ”غداری“ کا سرٹفکیٹ تھما کر ڈھلتی عمر کے باپ کے سائے سے دور کر دیا جاؤں گا یا حیات کی طرح بے حیات کر دیا جاؤں گا۔ آخر کتنا بہادر ہو سکتا ہے انساں؟

معروف شاعر محترم نادر صدیقی صاحب کو بورے والا میں ان کی مسجد سے نمازیوں کے سامنے اٹھا کر لاپتہ کر دیا۔ غالباً دوسرا ہفتہ گزرنے کو ہے معلوم ہی نہیں کہ نادر صدیقی صاحب کس حال میں ہیں، نادر صدیقی گزشتہ دوسالوں میں منظر عام پر آئے جب انھوں نے ملک کے بیشتر شہروں خصوصاً پنجاب میں مشاعرے بعنوان ”منقبت صحابہ و اہل بیت“ منعقد کروائے جن کو مذہبی حلقوں سمیت سماجی حلقوں نے قدر کی نگاہ سے دیکھا اور بہت جلد پذیرائی حاصل کی اور بہت سے مذہبی و ماڈرن شعرا کی توجہ اس جانب کرائی اور یہ سلسلہ اب تک کامیابی سے جاری تھا اور اس کا فائدہ سب سے بڑا میری نظر میں شعرا اور مذہبی طبقے میں جو خلا تھا اس کو کم کر رہا تھا اور ماڈرن یا خالصتا سیاسی فکر رکھنے والے شعرا کا مذہبی طبقے میں تعارف ہورہا تھا۔

اس دوران ریاستی ادارے ان سے تفتیش کرتے رہے کہ آپ کو فنڈنگ کون دیتا ہے اور یہ کام کیوں کر رہے ہیں، وہ اداروں کو اس سوال کا جواب دیتے رہے اور عام مذہبی کارکنان کے تعاون سے مشاعرے کراتے رہے مگر شاید ریاستی و قانونی اداروں کو ان کا یہ پرامن عوامی کام پسند نہیں آیا تو انھیں اٹھا کر کسی گمنام کال کوٹھڑی میں ڈال دیا ہے معلوم نہیں کب واپسی ہو مگر ریاست نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ علم و ادب، شعور کا باب جو بھی کھولے گا وہیں پر اس کا باب حیات روک یا بند کر دیا جائے گا اور ہمیں جو ”ذہن“ پسند ہوگا، جس کی آبیاری امریکی ڈالروں سے مہیا کیے گئے ”جہاد ضیائی“ ، ”مذہب فرقوں“ کے نام پر گردن زنی و زباں کشی جانتا ہو جو گولی سے آگے سوچ ہی نہ سکے وہی اس دیس میں قابل زندگی ہے، اہل قلم و زباں کو قفس میں ڈال دو، سوچنے والوں کو زنداں کی رونق بنا دو، ظلم پر چلائے تو مسخ کر کے ہتھکڑی لگے مفرور و مبرود کہ کر جنگلوں میں پھینک دو۔ مرشدی فیض احمد فیض خوب کہ گئے

نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).