حیات بلوچ کے قتل کا ذمہ دار کون؟


ہم میں سے ہر فرد جو ملکی سلامتی کے نام پر چند اداروں پر تنقید پر ناگواری محسوس کرتا ہے، حیات بلوچ اور دیگر ماورائے عدالت ہونے والے بہیمانہ قتل اور گمشدگیوں میں شریک ہے۔ وہ تمام سیاسی قوتیں بھی اس قتل میں شریک ہیں جو اداروں کے غیر آئینی اقدامات کی خاموش رہ کر حمایت کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ ہم اداروں سے تصادم نہیں چاہتے۔ اس سانحے کی جو دلخراش تفصیل سامنے آئی ہے، ایسے واقعات اس سے قبل ہم مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کے مظلوم کشمیریوں سے ظالمانہ رویے کے بارے میں سنتے تھے اور شیئر کرتے تھے۔

پچھلے تین سال میں متعدد مرتبہ بلوچ بھائیوں نے مجھ سے رابطہ کیا کہ میں بلوچستان کے حالات پر لکھوں۔ ان ماورائے عدالت اموات پر لکھنے میں جو چیز مانع ہوئی وہ یہ تھی کہ میں وہاں کے حالات پوری طرح جانے بغیر جلد بازی میں کچھ لکھنا نہیں چاہتی تھی۔ لیکن اس واقعہ میں تربت پولیس اور فرنٹیئر کور (ایف سی) دونوں کے بیانیہ مظلوم خاندان کے بیانیہ کی تصدیق کر رہے ہیں۔ ایف سی اور پولیس کے بیانات کے بعد اب کوئی جواز نہیں کہ اس واقعہ پر خاموش رہا جائے۔

اہم بات یہ ہے کہ یہ بلوچ نوجوانوں کا پہلا اور آخری ماورائے عدالت قتل نہیں۔ بلکہ یہ ٹپ آف دا آئس برگ یعنی برفانی پہاڑ کی چوٹی ہے جس کے نیچے بہت کچھ چھپا ہوا ہے۔ حیات بلوچ تو جان سے گزر گیا مگر اس کا قتل ہمیں بلوچ عوام کو در پیش حالات کو پوری طرح سمجھنے میں مدد دے گا۔ اس امر کا تذکرہ بھی بے جا نہ ہوگا کہ ایسے واقعات قبائلی بیلٹ، سرائیکی پٹی، ساہیوال اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں بھی رونما ہوتے رہے ہیں لیکن جس دیدہ دلیری سے پبلک مقام پر اس بے قصور جواں رعنا کو اس کے باپ کی نظروں کے سامنے موت کی گھاٹ اتارا گیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بلوچستان کے حالات اس سے بہت زیادہ خراب ہیں جیسے سننے میں آتے ہیں اور ان بلوچ نوجوانوں کی بات میں صداقت ہے جو مجھ سے رابطہ کرتے رہے ہیں۔

تربت پولیس کی پریس ریلیز کے مطابق 13 اگست کو آبسر روڈ پر بلوچی بازار کے مقام پر ایف سی کی دو گاڑیوں پر دھماکہ ہوا تھا، جس پر ایف سی کے اہلکار نے قریبی باغات میں موجود محمد حیات کو اپنی سرکاری رائفل سے گولیوں کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں محمد حیات ہلاک ہو گئے۔ ان کے والد کے مطابق، ایف سی کی گاڑیوں پر دھماکے کے بعد فرنٹیئر کور کے اہلکار باغیچے میں گھس آئے اور انھوں نے حیات کو تھپڑ مارے، اس کے ہاتھ، پاؤں باندھے اور روڈ پر لا کر اسے آٹھ گولیاں ماری گئیں جس سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔

’والد کا کہنا ہے کہ اس موقع پر انھوں نے فرنٹیئر کور کے اہلکار سے منتیں کیں کہ ان کے بیٹے کو چھوڑ دیں کہ وہ صرف باغیچے میں کام کر رہا ہے مگر انھوں نے ایک نہ سنی اور انتہائی بے دردی کے ساتھ پہلے تشدد کیا گیا اور پھر گولیاں ماری دیں۔ ‘ (بی بی سی اردو) تربت پولیس نے ایک ایف سی اہل کار کو گرفتار کر لیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ فرنٹیئر کور تحقیقات میں پورا تعاون کر رہی ہے لیکن مقتول کے گھر والوں کا کہنا ہے کہ بے قصور حیات کو باغ سے لے جانے والے تمام ایف سی اہل کار اس قتل کے ذمہ دار ہیں اور ان سب کی گرفتاری عمل میں آنی چاہیے۔ (بی بی سی اردو )

بی بی سی کے مطابق حیات بلوچ اپنے خاندان کے پہلے فرد تھے جو یونیورسٹی تک پہنچے۔ کراچی یونیورسٹی میں تعطیلات کے باعث وہ اپنے آبائی علاقے میں تھے اور کھجور کے ایک باغ میں اپنے والد کا ہاتھ بٹا رہے تھے جس سے انھیں اپنے تعلیمی اخراجات پورا کرنے میں بھی مدد ملتی۔ گریجویشن کے بعد ان کا سی ایس ایس کرنے کا ارادہ تھا۔ ہر ہونہار بیٹے کی طرح وہ کوئی مقام حاصل کر کہ اپنے خاندان کے ابتر مالی حالات کو بدلنے کی خواہش رکھتے تھے۔

ان کے ہم جماعتوں اور استاد کے مطابق وہ نہ صرف انتہائی محنتی اور ذہین طالب علم تھے بلکہ غیر نصابی سرگرمیوں اور طلبہ کی فلاح کے لئے رضا کارانہ سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ اس کے علاوہ بلوچستان سے علاج کے لئے کراچی آنے والے مریضوں کی مدد کے لئے فنڈ ریزنگ وغیرہ بھی کرتے تھے اور خون کا انتظام بھی کروایا کرتے تھے۔ ان کے ساتھیوں کے مطابق انھوں نے دیگر طلبہ کے ساتھ مل کر چند ماہ قبل خود کشی کے مسئلے پر ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس کی آج کے حالات میں بہت ضرورت ہے۔

ایسے مثبت سوچ کے طالب علم نوجوان کا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ہاتھوں وقتی رد عمل میں قتل بلوچستان کا ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا نقصان ہے۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ یہ پہلا اور آخری قتل نہیں ہے۔ اس سے قبل پچھلے ستر سال میں ملک عزیز کے متعدد حصوں میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے ہاتھوں ایسے بہت سے قتل ہو چکے ہیں۔ لیکن اس سے بھی زیادہ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات پر ہمارے سیاسی لیڈران، سول سوسائٹی اور عوام میں رد عمل نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم آئین اور قانون کی اہمیت کا شعور ہی بھول گئے ہیں۔

معذرت کے ساتھ کے دائیں بازو کی جماعتیں ملکی اداروں پر تنقید کو ملک کی سلامتی کے خلاف گردانتی ہیں۔ تینوں بڑی سیاسی قوتوں کو معلوم ہے کہ جب تک مقتدرہ قوتوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکیں گی، حکومت میں آنا نا ممکن ہے۔ اس سے آگے مذہبی بیانیہ بھی پہلے تو اصل ایشو کو سامنے آنے میں رکاوٹ ہے اور دوسرے وہ بھی مذہبی عقیدت کے ساتھ اداروں کی پشت پر کھڑا رہتا ہے۔

کوئی ادارہ احتساب اور قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے۔ جب میں ایسی باتیں کرتی ہوں تو مجھے کہا جاتا ہے یہ ٹیکسٹ بک بیانیہ ہے، ملک ایسے نہیں چل سکتے۔ ہر ملک میں قانون اور آئین کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بجا ارشاد لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آئین اور قانون کو ہی ردی کا ٹکرا سمجھ لیا جائے۔ ایسا کہنے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اسلامی نظام کو تمام خرابیوں کا حل جاننے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ کیا اسلامی نظام میں بھی آئین اور قانون کو مصلحت اور ملکی سلامتی کے نام پر چند افراد یا ادارے احتساب سے بالا تر ہوں گے؟

ایک ماورائے عدالت قتل محض ایک قتل نہیں ہوتا بلکہ ملک کی بقا کا مسئلہ ہوتا ہے۔ جب ایک فرد کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو ہر فرد کے انسانی حقوق خطرے میں ہوتے ہیں۔ اللہ اس سمجھنے کی توفیق دے کہ قوانین کے احترام کے بغیر دنیا کا کوئی ملک نہیں چل سکتا۔ اور اس کی سب سے بڑی ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں پر عائد ہوتی ہے۔ اگر انہیں احتساب سے بالا سمجھ کر لا محدود اختیارات دے دیے جائیں تو ملک میں بدامنی کا دروازہ کوئی بند نہیں کر سکتا۔

کاش پاکستانی قوم جذباتی کر دینے والے مقررین کی سننے کے بجائے، اپنے قانونی اور آئینی حقوق اور فرائض کا شعور بیدار کرنے والوں کی باتیں سنے۔ اللہ کے عذاب کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ کسی قوم سے آئین اور قانون کی حکمرانی کا شعور اٹھا لیا جائے۔ اس شعور کے فقدان میں حکومت اور اس کے اداروں کے ساتھ ساتھ میڈیا، قوم کی علمی اور دینی قیادت کرنے والے، تعلیمی نظام، سب ذمہ دار ہیں جو ایک شہری کو اس کے حقوق و فرائض کا شعور دینے میں ناکام ہیں۔ ہم سب حیات بلوچ کے مجرم ہیں۔

تزئین حسن

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

تزئین حسن

تزئین حسن نے ہارورڈ یونیورسٹی امریکا سے حال ہی میں صحافت میں ماسٹرز مکمل کیا ہے اور واشنگٹن کے ایک انسانی حقوق کے ادارے کے ساتھ بہ حیثیت محقق وابستہ ہیں۔ ان کے مضامین جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور نارتھ امریکا میں شائع ہوتے رہے ہیں۔

tazeen-hasan has 6 posts and counting.See all posts by tazeen-hasan