ہمارے وزرا جیسا کوئی نہیں!


دنیا کے تمام ممالک میں نظام حکومت متعین ہے۔ کچھ ممالک میں صدارتی نظام نافذ ہے، کچھ ممالک میں پارلیمانی نظام ہے، کچھ ملکوں میں آمریت ہے اور کچھ میں بادشاہت ہے۔ مگر ان تمام نظام حکومت میں ایک چیز مشترک ہے وہ ہے وزراء۔ خواہ حکومت کا سربراہ صدر ہو، وزیر اعظم ہو، آمر ہو یا کوئی بادشاہ اسے حکومتی امور چلانے کے لئے وزراء درکار ہوتے ہیں۔ مگر ہمارے وزراء ہماری قوم کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے ایک خاص تحفہ ہیں۔ اور دنیا کا کوئی بھی ملک اٹھا لیں اس ملک کے وزراء سے تو ہمارے وزراء کا کوئی مقابل ہی نہیں۔

الحمدللہ! ہماری کابینہ 50 ارکان پر مشتمل ہے۔ وہ ایک الگ بات ہے کہ کابینہ چھوٹی بننی تھی مگر ابھی اس چیز کی بات نہیں یو رہی۔ سب سے پہلے زرتاج گل کا ذکر کریں گے۔ 17 اگست کو ضیا الحق کا یوم پیدائش قرار دیا۔ اس سے پہلے وہ پچھلے سال بارشوں کا کریڈٹ وزیر اعظم عمران خان کو دے چکی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر وزیر اعظم انہیں حکم کریں تو وہ مارگلہ کی پہاڑیوں پر جھاڑو بھی مار سکتی ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے وزیر اعظم کی اقوام متحدہ میں تقریر کے بارے میں کہا کہ وہ اردو میں تقریر تھی۔ مگر سب سے بڑا کارنامہ جس پر عالمی ادارہ صحت بھی شاید ان کا ممنون ہو وہ ہے کوویڈ۔ 19 میں 19 کی وجہ تسمیہ۔ اور وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کے 19 پوائنٹز ہوتے ہیں۔

ہمارے پاس فیصل واوڈا ہیں۔ انہوں نے نوکریوں کی بارش کروانی تھی پچھلے سال اور کہا تھا کہ اگر یہ نا ہوا تو میری تکہ بوٹی کر دیجئیے گا۔ اب عوام تو مکمل تیاری میں مگر فیصل صاحب عوام کے ہاتھ نہیں آ رہے۔ دوسرا انہوں نے کہا تھا وزیر اعظم صاحب! عوام 200 روپے فی لٹر پٹرول بھروا لیں گے مگر احتساب کریں۔ یہ لائیو شو میں بوٹ بھی لے آتے ہیں۔ اس کے بعد علی امین گنڈاپور ہیں۔ انہوں نے پچھلے سال کہا تھا کہ نواز شریف نے کلبھوشن کو بھگا دیا ہے اور اب پاکستان کے نئے سیاسی نقشے کے بعد پاکستان مقبوضہ کشمیر میں جا سکتا ہے۔

غلام سرور خان بھی ہیں۔ وہ کہہ چکے ہیں کہ گیزر کے بجائے چولہے پر پانی گرم کر لیں۔ اور جو انہوں نے پی آئی اے پر پابندی لگوائی ہے اس کی تو نظیر ہی نہیں ملتی۔

ہمارے پاس شہریار آفریدی ہیں۔ وہ رانا ثناءاللہ کیس میں بار بار جان اللہ کو دینی ہے کا کہتے رہے۔ یوں محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید پوری دنیا میں صرف وہ واحد شخص ہیں جنہوں نے جان اللہ کو دینی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے آرمی چیف کو قوم کا باپ قرار دے دیا تھا۔ اس کے بعد اسد عمر ہیں۔ انہوں نے جس طرح مہنگائی کو فروٹ چاٹ کی طرح سے بیان کیا تھا اور جس طرح الیویٹر والا بتایا تھا۔ اس کے کیا کہنے۔

اس کے بعد علی زیدی ہیں جنہیں موٹر سائیکل پر کسی نے سندھ حکومت کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹ دے دی تھیں۔ فردوس آپا بھی تھیں جنہوں نے زلزلے کو تبدیلی سے جوڑ دیا تھا اور یہ بھی کہا تھا کہ کرونا نیچے سے بھی آ جاتا ہے۔ مراد سعید کا 200 ارب ڈالر والا واقعہ کون بھلا سکتا ہے۔ فواد چوہدری کو دیکھ لیں۔ ان کے نزدیک سوویت یونین کا وجود آج بھی ہے۔ اور جو اب چاند پر ان کا مفتی منیب الرحمان سے مقابلہ چل رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔

حفیظ شیخ صاحب نے تو 17 روپے کلو ٹماٹر کراچی کی سبزی منڈی میں ریٹ بتایا تھا جب ٹماٹر 240 روپے کلو ہو گئے تھے۔ ہمارے پاس ایسے وزیر دفاع ہیں جنہیں میں نے آج تک انہیں قوم کو کسی دفاعی امور کے بارے میں بتاتے نہیں دیکھا۔ وزیر انسانی حقوق کئی اہم مسائل پر بولتی ہی نہیں ہیں۔ کچھ وزراء اتحادی جماعتوں سے ہیں۔ مسلم لیگ ق کے پاس ہاؤسنگ، جی ڈی اے کے پاس وزارت بین الصوبائی رابطہ، ایم کیو ایم کے پاس قانون اور آئی ٹی کی وزارت اور بلوچستان عوامی پارٹی کے پاس دفاعی پیداوار کی وزارت ہے۔ مگر کچھ وزرا تو بولتے بھی نہیں۔ اب شیخ رشید صاحب کو تو کوئی روک ہی نہیں سکتا۔ پاکستان ریلوے تو میزائل بنا سکتی ہے۔ ابھی انہوں نے ایک لاکھ ریلوے میں وزارتیں بھی دینی ہیں۔

کچھ تو معاونین خصوصی ہیں جو دہری شہریت رکھتے ہیں اور جنہوں نے یہاں ٹیکس بھی نہیں دیا ہوا ہے۔ کچھ وہ ہیں جن کے نام سکینڈلز میں آنے کے باوجود وہ کابینہ میں موجود ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو دس دس روپے مرلہ ایکڑوں کے حساب سے زمینیں خریدتے ہیں۔

یہ جو ہمارے وزراء ہیں یہ نگینے ہیں۔ یہ اکبر کے نو رتنوں کو بھی پیچھے چھوڑ گئے ہیں۔ اور ان کو ڈھونڈا کس نے، وزیر اعظم عمران خان نے۔ ہمارے وزیر اعظم جاپان اور جرمنی کی سرحدیں ملا دیتے ہیں۔ کبھی سپیڈ کی لائٹ سے ٹرینیں چلانے کا عزم کرتے ہیں۔ کبھی کہتے ہیں اب ہمیں پانی درآمد نہیں کرنا پڑے گا۔ وہ تاریخ میں کمزور ہیں اس لئے غلط تاریخی حوالے دے دیتے ہیں۔ کبھی کسی کا قول کسی کے نام سے منسوب کر دیتے ہیں اور کبھی کسی شاعر کے کلام کو علامہ اقبال کے کلام کے طور پر پیش کر دیتے ہیں۔

کسی بھی لیڈر کی کامیابی و ناکامی کے ذمہ دار کابینہ کے اراکین ہوتے ہیں۔ اور اگر اس طرح کے وزرا مزید وزرا رہے تو پھر یہی افراد عمران خان کو اگلے انتخابات میں نقصان پہنچائیں گے۔ ان میں سے اکثر اشارہ ملنے پر کسی اور جماعت میں شامل ہو جائیں گے۔ اسی لئے وزراء پر وزیر اعظم کو دھیان رکھنا ہوگا۔ دو سال کا عرصہ گزر چکا ہے۔ اب یہی دو سال ہیں عوام کو ڈلیور کر کے دکھانے کا۔ وزراء صرف حکومت کے نہیں قوم کے ترجمان ہوتے ہیں۔ اگر وزراء اس طرح کے بیانات دیتے ہیں تو پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ اسی لئے وزیر اعظم کو مشورہ ہے کہ وہ کچھ کر گزریں ورنہ انہیں ان کے کابینہ کے انمول رتنوں کی وجہ سے تاریخ میں محمد شاہ رنگیلا دوئم کے طور پر یاد کیا جائے گا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).