یاد رکھیں! تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے


ہمارے ہاں کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ یہاں کسی بھی بڑے حادثہ کا ہونا یا کوئی بھی بڑا واقعہ کا رونما ہونا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔

ہمارے ہاں اس ریاست میں حق اور سچ کی بات کہنا کسی گناہ سے کم نہیں سمجھا جاتا ہے۔
یہاں اندھیرا ہے جہالت ہے لاقانونیت ہے یہاں جنگل کا قانون ہے۔

یہاں ہمیشہ حق کی آواز کو دبایا جاتا ہے۔ یہاں جو اپنے حق کے لئے آواز بلند کرتا ہے اس کو اٹھا کر لاپتہ کر دیا جاتا ہے یا پھر قتل کرکے لاش کہیں ویرانے میں پھینک دیا جاتا ہے۔ یہاں زندگی کا حق مانگنا گناہ کبیرہ سے کم نہیں۔

یہاں فرعونیت کا راج ہے یہاں فرعونیت عروج پر ہے، نیز یہاں جسے چاہیے اٹھا لیا، جسے چاہیے قتل کیا۔ کوئی پرسان حال نہیں, حاکم وقت اندھا ہے، بہرا ہے اور گونگا ہے۔

یہاں مصنف کی رتی برابر حیثیت نہیں۔ کہتے ہیں جہاں آپ کی آواز کی کوئی حیثیت نہ ہو وہاں چھپ رہنا ہی غنیمت ہے۔ لیکن ان سب حالات کے باوجود بھی میرے اخلاقی اقدار اور میرا ضمیر مجھے کچھ لکھنے پر بار بار مجبور کرتا ہے اور بھی بہت سی ایسی رکاوٹیں ہیں، جو مجھے لکھنے کی بالکل اجازت نہیں دیتی۔

ان حالات میں الفاظ کے چناؤ میں نہ صرف احتیاط کرنا ضروری سمجھتا ہوں بلکہ از حد ضروری اور فرض سمجھتا ہوں۔ کیونکہ الفاظ ہی تو ہمارا کل اثاثہ ہیں۔ ہمارے یہ سچے الفاظ بھی قانون سے مبرا سمجھنے والے فرعونوں کو ناگوار گزر سکتے ہیں۔

لیکن جب بات نا انصافی ظلم و جبر کی ہو تو میرے خیال میں ظلم کے خلاف خاموش رہنا اس ظلم میں آپ کا بذات خود شامل ہونے کے مترادف ہے۔ دنیا میں ظلم اور تشدد پڑھے لکھے حضرات کے خاموش ہونے کی وجہ سے ہے نہ کہ شدت پسند زورآوروں کے طاقت سے۔

ضلع تربت پاکستان میں ہے اور میں مملکت پاکستان کا ایک ناچیز سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ ہونے کے ناتے کبھی بھی نہیں چاہوں گا کہ میری وجہ سے میرے ملک کے وقار اور میرے ملک کے اداروں کی شہرت پر ذرا آنچ بھی آئے۔ مجھے اپنا ملک اور اس میں موجود تمام ادارے قابل قدر ہیں اور میں اپنے ملک کے اندر اداروں اور افراد کے اندر غلطیوں کی نشاندہی کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔

سی ایس ایس امتحان کی تیاری کرنے والے، پاکستان کا روشن مستقبل بننے والے، قوم کے معمار طالب علم حیات بلوچ شہید کا ہاتھ باندھ کر دن دہاڑے آٹھ گولیاں مار کر ماں باپ کے سامنے قتل، ساہیوال میں چھوٹے چھوٹے بچوں کے سامنے والدین کو قتل اور کراچی میں دن دھاڑے جوان بغیر کورٹ ٹرائل کیے روڈ پر قتل ہمارے ملک کی سالمیت، ہمارے ملک میں قانون نافذ کرنے والے سیکیورٹی اداروں اور محافظوں کے اوپر ایک سوالیہ نشان ہے اور اس ملک میں نافذ برائے نام انصاف کا نظام اور انصاف فراہم کرنے والے اداروں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔

حیات بلوچ شہید کا قتل نہایت افسوس ناک ہے۔

حیات بلوچ شہید کے ہاتھ باندھ کر اور گھسیٹ کر گولیاں مار کر قتل پورے پاکستان اور انسانیت کا قتل ہے اس طرح قتل کا واقعہ سرینگر یا غزہ کے پٹی پر پیش ہوتا تو اس ضمیر فروش میڈیا کے مرثیے دیکھ لیتے اور گلہ چیخ چیخ کر انسانی حقوق کی پامالی کا ماتم کرتے کہ کہاں ہیں انسانی حقوق کے علمبردار اور کہاں ہے عالم اسلام؟

مگر حیات بلوچ کی بدقسمتی دیکھو وہ غلط مقام پر صحیح لوگوں کے ہاتھوں، صحیح طریقے سے مرا، یہاں حیات کی اپنی ہی غلطی تھی وہ غلط جگہ اور صحیح لوگوں کے ہاتھ مرا اس لئے یہاں کا آزاد اور ایماندار میڈیا صحیح کو ہرگز غلط نہیں کہے گا۔

اس طرح کے واقعات سے نہ صرف ملک کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ دنیا کے نظروں میں بھی یہ ملک دہشتگردی اور بدعنوانی کا گڑھ دکھائی دیتا ہے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کراچی کے کچرے کا تو نوٹس لے سکتی ہے لیکن دن دھاڑے اس طرح کے تاریخی ظلم پر چیف جسٹس کی جانب سے کوئی نوٹس نہ لینا نہایت افسوس ناک ہے۔

یاد رکھیں، تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ اللہ کرے یہ تاریخ اس جہاں میں ہی دہرائی جائے۔

ایک دور تھا جب امیر لوگ پیسوں کی طاقت سے غریب کی بیٹیوں کو ان کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر نچواتے تھے، آج انہی امیرزادوں کی بیٹیاں ٹک ٹوک پر ناچ کر اپنے باپ دادا کا بویا ہوا فصل کاٹ رہی ہیں اور ان کا قرض اتار رہی ہیں۔

بس کرو، اور مت کرو یہ ظلم، ورنہ اگر تم لوگ اس مظالم سے باز نہ آئے تو ایک وقت آئے گا جب آپ کے گریبان ہوں گے اور ان یتیم بچوں، ماوؤں اور بیوہ عورتوں کے ہاتھ ہوں گے۔

پھر آپ بچنا بہت مشکل ہوگا۔ مظلموں کی آہ عرش کو ہلا دیتی ہے اس پہلے کہ کوئٹہ میں وکلاء اور آرمی اسکول پشاور کے پھول جیسے معصوم شہداء بچوں کی روحیں اٹھ کھڑی ہوں اور تم لوگوں سے ایک ایک ظلم کا حساب مانگیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).