مرے ہوئے شوہر کا پرس


امی کے چہرے پر بکھرے ہوئے غصے اور نفرت نے ان کی اداسی اور غم کی کیفیت کو مکمل طو پر زائل کر دیا تھا۔ یہ میرے لیے عجیب وغریب تجربہ تھا۔ گزشتہ ایک سال سے میں انہیں مسلسل پریشان، اداس اور مغموم دیکھ رہی تھی۔ ہم دونوں بہنوں کو اندیشہ ہوگیا تھا کہ خدانخواستہ انہیں کچھ ہونہ جائے، ہر وقت روتے رہنا۔ آنسوؤں کی جھڑی تھی جو بہتی ہی رہتی تھی۔ پانی کا سمندر تھا جو ابلتا ہی رہتا تھا۔ اتنی اداسی اتنا غم اتنا کرب اتنی آہیں۔ ان کا برا حال تھا۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے، ایسا ہی ہوتا ہوگا ہم دونوں بہنیں اندر سے جیسے ٹوٹ گئے تھے۔

ہوا یہ تھا کہ سال بھر قبل ابو اپنے کاروبار کے سلسلے میں کسی کام سے لاہور گئے اور معمول کے مطابق پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ وہ خوبصورت وجیہہ اور دلکش شخصیت کے مالک تھے۔ ہم ماں اور دونوں بیٹیاں ان کی دلدادہ تھیں۔ وہ محبت کرنے والے شوہر اور بہت اچھے باپ تھے۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس شام یہ سب کچھ اس طرح سے ہو جائے گا اور وہ ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑجائیں گے۔ مجھے شام چار بجے امی کا فون آیا کہ وہ جب رشید انکل کے آفس میں میٹنگ میں تھے تو ان پر دل کا شدید دورہ پڑا تھا۔ رشید انکل ہی جلدی سے انہیں گاڑی میں لے کر ہسپتال پہنچے مگر ہسپتال میں تمام تر طبی امداد کے باوجود آدھے گھنٹے میں ہی ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔

ہم نے تو ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔ انہوں نے بڑی کامیاب زندگی گزاری تھی۔ وہ ایک کامیاب تاجر، بے انتہا شفیق باپ اور محبت کرنے والے شوہر تھے۔ امی تو جیسے ان پہ جان دیتی تھیں۔ ان کی محبت کا اندازہ لگایا ہی نہیں جاسکتا تھا۔ ہم دونوں بہنوں کے لیے وہ مثالی ماں باپ تھے۔ ہم دونوں جڑواں بہنوں کے علاوہ گھر میں کوئی بھی نہیں تھا اورہم دونوں کو ہی اپنے والدین کا شدید پیار ملا تھا۔ ہم دونوں نے ہی اپنی مرضی کے مطابق اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی۔ میں آرکیٹکٹ بن گئی تھی اور شازیہ میری بہن نے فزکس میں ماسٹرز کیا تھا اور سینٹ جوزف کالج میں پڑھاتی تھی۔ اسے شروع سے ٹیچر بننے کا شوق تھا۔ جڑواں ہونے کے باوجود ہم دونوں کی شکلیں اور عادتیں مختلف تھیں مگر ہم دونوں ایک دوسرے سے شدید پیار بھی کرتے تھے۔

ہم دونوں ہی امی کی طرح خوبصورت ہیں۔ ابھی پڑھائی لکھائی مکمل ہوئی بھی نہیں تھی کہ رشتے آنے شروع ہوگئے اور امی ابو نے ہم دونوں کی ہماری آمادگی کے بعد شادی کردی تھی۔ ہم دونوں بہنوں کے سسرال امی ابو سے بہت دور نہیں تھے، زندگی سکون سے گزر رہی تھی۔ پہلے میری بچی پیدا ہوئی، اس کے کچھ دنوں کے بعد شازیہ کو لڑکا پیدا ہوا۔ ہم دونوں کے سسرالیوں کے ساتھ ہمارے امی ابو کو بھی دو کھلونے مل گئے تھے۔ عجیب اتفاق اور ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہم دونوں کے شوہر بہت اچھے انسان ثابت ہوئے تھے۔

شادی سے پہلے ہم دونوں نے اپنے اپنے شوہروں سے ملاقات کی تھی اور انہیں پسند کرکے ہی شادی کی تھی۔ ان دونوں نے بھی ہمیں پسند کیا تھا۔ ہمارے خاندان کی خوش قسمتی تھی کہ خاندانوں میں عام طور پر ہونے والے جھگڑوں سے ہم لوگ بالکل ہی نابلد تھے۔ گزشتہ تین سالوں میں ہم دونوں نے اپنی اپنی سسرال اور اپنے اپنے شوہروں کے دلوں میں جگہ بنالی تھی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہماری امی نے ہم دونوں کی پرورش میں ہمیں بہت کچھ سکھایا تھا۔ پیار و محبت سے ہماری زندگی بھری ہوئی تھی، جس طرح سے ہم نے اپنی امی کو اپنے ابو کا خیال رکھتے ہوئے دیکھا تھا اسی طرح سے ہم اپنے شوہروں کا خیال رکھتے تھے جس کی وجہ سے وہ بھی ہم سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ زندگی بہت حسین تھی اور اس سے زیادہ زندگی میں چاہیے بھی کیا ہوتا ہے۔

مگر ابو کی یکایک موت نے سب کچھ اتھل پتھل کرکے رکھ دیا۔ امی تقریباً ہر وقت روتی رہتی تھیں، اداسی نے ان کے چہرے پر مستقل ڈیرہ ڈال دیا تھا۔ آہستہ آہستہ ان کا وزن کم ہونا شروع ہوگیا، وہ بہت کم کھاتیں اور کسی کام میں ان کا دل نہیں لگتا تھا۔ ابو کے بغیر ان کی زندگی جیسے ختم ہوگئی تھی، مجھے اندازہ ہی نہیں تھا کہ وہ ابو سے اتنی شدید محبت کرتی ہوں گی۔

ہم دونوں بہنوں نے کچھ اس طرح سے انتظام کر لیا تھا کہ روزانہ شام کو ہم میں سے ایک ان کے گھر پر ہوتا تھا۔ ہفتے میں ایک دو دن ہم دونوں بہنیں اپنے بچوں اورشوہروں کے ساتھ ان کے پاس ہی کھانا کھاتے تھے۔ ہم دونوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود امی ابو کے بغیر دنیا میں واپس نہیں آپارہی تھیں۔ دونوں نواسی نواسے سے انہیں بہت محبت تھی، ہم دونوں ہی بہنیں اپنے بچوں کو اکثر صبح کام پر جانے سے پہلے ان کے پاس چھوڑدیتے تھے۔ وہ ان کے ساتھ مصروف خوش رہتی تھیں مگر ایک گہرے غم نے جیسے ان کی زندگی پر قبضہ کر لیا تھا۔ بیوگی ایک مستقل درد اور خوف میں ڈھل گئی تھی۔ ہماری اور ہمارے شوہروں کی دل جوئی ان کے چہرے پر مسکراہٹ واپس نہیں لاسکتی تھی۔

امی نے ساری زندگی ابو سے عشق کیا تھا، ان کی چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھتی تھیں۔ ابو کے سارے بھائی بہن امی سے خوش تھے کیوں کہ امی شروع دن سے ہی اندازہ تھا کہ ابو اپنے ماں باپ اوربھائی بہنوں سے شدید محبت کرتے ہیں اور امی نے بھی ابو کے رشتہ داروں سے ویسے ہی محبت کی تھی جیسے ابو کرتے تھے، سارے سسرال میں ان کی بہت عزت تھی اور سب ہی ان کا خیال رکھتے تھے۔ ہم نے امی کو ہمیشہ دادا دادی کی خدمت کرتے ہوئے دیکھا۔

وہ دونوں ہی ہمارے گھر میں رہتے تھے اور ہماری نظروں کے سامنے ہی ان کا انتقال ہوا تھا۔ بستر مرگ پہ امی نے ہی دونوں کا خیال رکھا تھا۔ ابو کو بھی اس بات کا احساس تھا اوروہ امی کی بہت عزت کرتے تھے۔ نہ صرف یہ کہ وہ عزت کرتے تھے بلکہ ہمارے دونوں چچا اور دونوں پھوپھیاں امی کے گرویدہ تھے۔ ہم سب لوگوں کی کاوشوں کے باوجود امی کا غم آہستہ آہستہ انہیں اندر سے کھارہا تھا۔ ہم دونوں بہنیں بھی ان کی اس حالت سے پریشان رہتے تھے۔ ہمیں لگتا تھا جیسے وہ اچانک ہی ہم سے بچھڑ جائیں گی۔

ہم دونوں نے ایک سائیکالوجسٹ سے مشورہ کیا اور ان کے مشورے کے مطابق ہم ان کے سامنے اکثر ابو کی پرانی باتوں کو یاد کرتے اور ان کے بارے میں خوب باتیں کرتے تھے۔ کبھی کبھی وہ بھی ابو سے متعلق ہمارے بچپن کی باتیں ہمیں بتاتی تھیں اور کبھی کبھی آہستہ سے مسکرا بھی دیتی تھیں مگر ان کے اندر کی شدید اداسی ذرا برابر بھی کم نہیں ہو رہی تھی۔

ابو کی پہلی برسی پر ہم دونوں بہنوں نے سوچا تھا کہ گھر پر قرآن خوانی اور فاتحہ کرائی جائے شاید بہت سارے لوگوں کے آنے جانے سے امی کی طبیعت بہل جائے مگرانہوں نے ایسا کرنے سے منع کر دیا تھا۔ وہ سارا دن خاموشی سے صرف گھر والوں کے ساتھ بتانا چاہتی تھیں۔ ہم دونوں بہنوں اور ابو کے بھائی بہن گھر پر آتے جاتے رہے تھے۔ دوپہر کا کھانا ہم سب نے ساتھ ہی ابو کے بارے میں بات کرتے ہوئے کھایا تھا۔ ہمیں ایسا لگا تھا جیسے امی کو تھوڑا سکون سا مل گیا ہے۔

رات گئے ہم دونوں ہی اپنے اپنے گھروں کو آگئے تھے۔ شروع میں ہم دونوں کا خیال تھا کہ امی اپنے گھر کو بیچ کر یا کرائے پر لگا کر ہم دونوں بہنوں کے ساتھ رہیں۔ ہمارے شوہروں کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا مگرانہوں نے صاف منع کر دیا تھا۔ وہ ابو کی یادوں کے ساتھ گھر کے پرانے نوکروں کو نکالے بغیر زندگی وہیں گزارنا چاہتی تھیں جس کے ہم لوگ عادی بھی ہوگئے تھے۔

برسی کے دوسرے دن میں جب امی کے پاس گئی تو میں نے دیکھا کہ امی سخت غصے میں تھیں۔ ان کا چہرہ تمتمارہا تھا اور پورے جسم پر ایک عجیب اعصابی سی کیفیت تھی۔ انہوں نے کوئی خاص بات بھی نہیں کی وہ بڑی بے چینی اور بے تابی کی سی کیفیت کا شکار تھیں۔ میں نے پوچھا بھی توانہوں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ میں نے آج تک ان کے چہرے پر اتنی نفرت اور اتنا غصہ نہیں دیکھا تھا جس کا وہ اظہار بھی نہیں کررہی تھیں۔ ان کی باڈی لینگویج ایسی تھی کہ وہ کسی زبردست کشمکش کا شکار ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کروں۔ انہیں تکلیف میں دیکھ کر میں اندر سے جیسے ٹوٹ گئی تھی۔

میں اپنی بیٹی کو تلاش کرتے ہوئے امی کے کمرے میں گئی تو میں نے دیکھا کہ ابو کی بڑی سی مسکراتی ہوئی تصویر وہاں پر نہیں تھی۔ مجھے عجیب سا لگا تھا مگر باہر آکر میں امی سے اس کے بارے میں کوئی بات بھی نہیں کرسکی۔ نہ جانے کیوں میرے دل میں اندر اندر ایک عجیب سے خوف نے جنم لیا جس کی کوئی وجہ میرے سمجھ میں نہیں آئی تھی۔

لاؤنج میں بیٹھی ہوئی امی کا چہرہ اسی طرح سے تمتمارہا تھا۔ مجھے لگا جیسے ان کا بلڈ پریشر بڑھ گیا ہے۔ بڑی مشکل سے میں نے انہیں راضی کیا کہ میں ان کا بلڈ پریشر چیک کرلوں۔ ان کا بلڈ پریشر بڑھا ہوا تھا، اوپر کا بلڈ پریشر 190 اور نیچے کا 130 تھا۔ اتنا زیادہ بلڈ پریشر تو بہت خوفناک ہوتا ہے۔ ڈاکٹر نہ ہونے کے باوجود اتنا تو مجھے پتا تھا کہ میں بری طرح سے گھبرا گئی تھی۔

میں نے شازیہ کو فون کرکے بتایا جس پر اس نے کہا کہ وہ ہمارے خاندانی معالج ڈاکٹر عزیز کو لے کر فوراً ہی آ رہی ہے۔ تھوڑی دیر میں دونوں آگئے تھے۔ ڈاکٹر عزیز نے دوبارہ ان کا بلڈ پریشر لیا اوران کے چہرے سے ہی لگا تھا کہ وہ پریشان سے ہوگئے ہیں۔ ان کا خیال تھا کہ امی کو فوراً ہی ہسپتال میں داخل کرنا چاہیے مگر امی نے سختی اور غصے کے ساتھ کسی بھی ہسپتال میں جانے سے منع کر دیا تھا۔

ڈاکٹر عزیز نے انہیں فوری طور پر بلڈ پریشر کم کرنے کی دوا دی اورساتھ میں سکون کے لیے دو گولیاں بھی دی تھیں۔ انجکشن اوردواؤں کے بعد امی کا چہرہ تھوڑا پرسکون ہوگیا اوروہ سوگئی تھیں۔

میں اور شازیہ دونوں ہی پریشان تھے اور ہماری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ امی کو اچانک کیا ہوگیا ہے۔ امی کے سونے کے بعد شازیہ کسی کتاب کی تلاش میں ابو کے کام کرنے والے کمرے میں گئی اور پھر گھبرا کر مجھے بلایا تھا۔ کمرے میں ابو کی بہت ساری تصویریں کچھ پھٹی ہوئی، کچھ سالم زمین پر بکھری ہوئی تھیں۔ میں نے غفور بابا سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ صبح کو وہ کمرے کی صفائی کے لیے جا رہا تھا تو امی نے اسے سختی سے وہاں جانے سے منع کر دیا تھا۔

ہم دونوں دوبارہ سے مزید پریشان ہوگئے تھے۔ ہم دونوں ہی مضبوط اعصاب کی مالک ہیں مگرہم دونوں ہی اس صورتحال کو سمجھ نہیں پا رہے تھے۔ ہم دونوں نے مل کر کمرے کو صاف اور صحیح کر دیا تھا۔ ابو کی بکھری ہوئی اور پھٹی ہوئی تصویروں کو جمع کرکے ایک بیگ میں رکھ کر انہیں الماری میں رکھ دیا تھا جس کے بعد خاموشی سے امی کے کمرے میں آکر بیٹھ گئے تھے۔ ہم دونوں کے دماغ خالی بھی تھے اور عجیب و غریب خوف سے بھرے ہوئے بھی۔ زندگی میں پہلی دفعہ ہمیں کوئی پریشانی ہوئی تھی۔ پریشانی بھی ایسی کہ پریشانی کی وجہ بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔

شام سات بجے کے قریب امی کی آنکھ کھل گئی تھی۔ وہ خاموشی سے رورہی تھیں۔ دونوں آنکھوں میں آنسو بھرے ہوئے تھے اور آہستہ آہستہ چہرے پر غصہ ابھر رہا تھا، ایک دہشت زدہ چہرہ۔ ایسا تو ہم نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ ہماری ماں کا چہرہ مہربان ہوتا تھا، ان کی آنکھوں کی چمک ہمارا حوصلہ بڑھاتی تھیں، ان کے پیشانی کے اشارے ہمیں خوش کردیتے تھے۔ نہ جانے ان کے من میں کیا پک رہا تھا۔

امی آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ ہمیں کچھ بتائیں تو سہی۔ میں نے بڑی مشکل سے اپنے آنسوؤں پر قابو پاتے ہوئے پوچھا تھا۔ وہ مجھے غور سے دیکھتی رہیں۔ ان کے چہرے پر اضمحلال کی ایک کیفیت سی چھاگئی تھی جیسے ان کے دماغ کے اندر کوئی جنگ ہو رہی ہو۔ وہ بیٹھ گئی تھیں پھر فوراً ہی کروٹ لے کر لیٹ گئیں۔ کچھ کہے بغیر ان کی آنکھوں سے آنسو نکل نکل کر ان کے منہ کو دھورہے تھے۔ اتنے آنسو میں نے ساری زندگی نہیں دیکھے تھے۔

میں نے ان کے سرہانے بیٹھ کر ان کے چہرے کو ٹشو پیپر سے خشک کیا تھا۔

انہوں نے شازیہ کو اشارے سے اپنے قریب بلالیا۔ ہم دونوں ہی ان کے سامنے جڑ کے حیران شکل و صورت کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ غور سے ہم دونوں کو تک رہی تھیں، ایسا لگ رہا تھا جیسے ان کے حلق میں کچھ اٹک رہا ہے۔

میں نے انہیں پانی کا گلاس دیا جسے انہوں نے خاموشی سے پی لیا اورپھر آہستہ سے بولیں، تمہارے ابو کے مرنے کے بعد رشید بھائی نے ان کا سفری بیگ، ان کی جیب میں جو کچھ تھا وہ اور ان کا پرس بھیج دیا تھا جو میں نے سنبھال کر الماری میں رکھ دیا تھا۔ کئی دفعہ مجھے خیال آیا لیکن نہ جانے کیوں پورا سال میں نے اس بیگ کو نہیں کھولا تھا۔ کل تم لوگوں کے جانے کے بعد میں نے وہ بیگ نکالا۔ وہ سب کچھ جو میں نے اس میں رکھا تھا اسی ترتیب سے اسی طرح رکھے ہوئے تھے۔

قمیض، بنیان، پینٹ، موزے، رومال، ٹوتھ برش، کنگھی شیو کرنے کا سامان سب کچھ سب کچھ ویسا ہی تھا۔ ان کے پرس میں چند ہزار روپے تھے اور پرس کے آخری زپ والے خانے میں ایک اور زپ کا خانہ تھا اس میں جو تھا وہ اس میں نہیں ہونا چاہیے تھا۔ یہ کہہ کر انہوں نے ابو کا پرانا سا پرس کھول کر ہمارے سامنے انڈیل دیا تھا۔

ان کے چہرے پر دوبارہ سے شدید وحشت سی آ گئی، ان کے ساتھ ہم دونوں بہنوں کو بھی رونا آ گیا تھا۔

وہ آہستہ آہستہ کیوں کیوں کیوں کا گردان کررہی تھیں اور بستر پر ان کا جسم کپکپارہا تھا۔ شازیہ جلدی جلدی ڈاکٹر عزیز کو فون کررہی تھی لیکن ہماری نظروں کے سامنے دیکھتے دیکھتے ہی ڈاکٹر عزیز کے آنے سے قبل امی نے موت کو گلے لگا لیا تھا۔

ہم دونوں بہنوں نے ساری زندگی اپنے شوہروں سے کچھ نہیں چھپایا ہے لیکن اس شام کی وہ حقیقت ہم کبھی بھی اپنے شوہروں کو نہیں بتاسکے ہیں۔ امی کا کیوں کیوں کیوں؟ ہمارے دماغ میں گونجتا رہتا ہے۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).