میڈیا ہاوسز کا قائدانہ کردار!


میڈیا ہاوسز کے قائدانہ کردار کی جس قدر ضرورت آج ہے اس سے قبل کبھی بھی نہ تھی۔ موجودہ دور میں سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے کردار میں معلومات کی بہتات اور تیزی سے پھیلاو نے لوگوں کو درست اور غلط کا فرق کرنے میں شدید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ پہلے سے تضادات کی شکار معاشروں میں ایک چھوٹی سی خبر دیکھتے ہی دیکھتے اختلافات کو ہوا دے دیتی ہے۔ اس کی سیکڑوں مثالیں ہم حالیہ دنوں میں دنیا کے مختلف خطوں میں دیکھ چکے ہیں۔ لہذا میڈیا ہاوسز کو اس صورت حال میں اپنا بھرپور قائدانہ کردار ادا کرنا ہو گا۔

اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے 28 اگست کو بیجنگ میں چائنا میڈیا گروپ اور اس کے لاطینی امریکہ کے میڈیا پارٹنرز نے ایک آن لائن تعاون فورم کا انعقاد کیا۔ فورم کے اختتام پر جاری ایک مشترکہ بیان کہا گیا کہ کووڈ۔ 19 کی وبا پر قابو پانے اور چین، لاطینی امریکہ ہم نصیب سماج کی تعمیر کے لئے مل جل کر کام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔

اس موقع پر چائنا میڈیا گروپ کے سربراہ اور ایڈیٹر ان چیف شن ہائی شونگ نے رہنما خطاب کیا۔ اس خطاب میں انہوں جو باتیں کیں وہ عہد حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق تھیں۔ انہوں نے کہا ”میڈیا کو افواہیں پھیلانے اور پریشانی پیدا کرنے کی بجائے سچائی پر مبنی خبریں دینی چاہئیں، تفرقہ پیدا کرنے کی بجائے اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہیے اور وبا کی ذمہ داری ایک دوسرے پر عائد کرنے کی بجائے اس کا سائنسی طریقے سے مقابلہ کرنے کی کوششوں کا ساتھ دینا چاہیے۔

نشریاتی اداروں کو ہوائی حملوں کی بجائے اعتماد کو فروغ دینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں بڑی خبروں کی اطلاع دیتے وقت مقصدیت، انصاف پسندی اور سچائی کے اصولوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے، انہوں نے زور دیا کہ چینی اور لاطینی امریکی اور کیریبین میڈیا کو بنی نوع انسان کے صحت مند سماج کی تعمیر کو فروغ دینے کے لئے مل جل کر کام کرنا چاہیے۔

انیسویں اور بیسویں صدی میں کہلایا جانے والا ”پروپیگنڈا“ آج اکیسویں صدی میں ”میڈیا وار“ کہلاتا ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کہ جب پوری دنیا مختلف ممالک اور ریاستوں میں تقسیم ہو چکی ہے، اب اقوام عالم پروپیگنڈا اور میڈیا وار کو مخالف ملک اور عوام کو متاثر کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کی عوام کے ایمان، اعتقاد اور ایقان کو اپنی ملکی، ریاستی اور قومی پالیسیوں پر برقرار رکھنے اور انہیں قومی و ریاستی پالیسی کے مطابق چلانے اور گامزن رکھنے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں۔

موجودہ عہد میں میڈیا وار اور پروپیگنڈا ایک ایسا ذریعہ اور ہتھیار ہے جس کی مدد سے کسی بھی جنگ اور مہم میں ملک اور ریاستیں اپنی مرضی کے نتائج حاصل کر سکتی ہیں۔ انسان انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر پروپیگنڈا اور میڈیا وار سے با آسانی متاثر ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی میں آج پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل تینوں قسم کے میڈیا پروپیگنڈا وار کے بہترین ذرائع ہیں۔ آج پوری دنیا میں کرونا وائرس کی جنگ ملکوں اور ریاستوں کی سرحدوں پر نہیں بلکہ ان کی گلیوں، محلوں، قصبوں، دیہاتوں اور شہروں میں لڑی جا رہی ہے۔ اس جنگ میں ہر ملک کی حکومت اپنی پوری کوشش اور توانائی کے ساتھ اپنے ملک کی عوام کو افواہوں، مایوسیوں اور آہوں و یاس سے بچانے کے لیے پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کا سہارا لے رہی ہے۔

ہم جس دور میں زندگی بسر کر رہے اس دور میں میڈیا بڑی اہمیت حاصل کرچکا ہے۔ روایتی میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کا استعمال بہت زیادہ بڑھ چکا ہے۔ سوشل میڈیا پر ہر شخص مکمل آزادی کے ساتھ جو چاہیے شیئر کر دیتا ہے۔ بدلتے ہوئے ان نئے حالات کی وجہ سے بڑے میڈیا ہاوسز کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہ ان اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ افواہوں اور معاشرے کے لئے نقصان دہ رجحانات کی ترویج کو روکنے کے لئے اپنا کلیدی کردار ادا کریں۔ بنی نوع انسان کے ہم نصیب سماج کے قیام اور عالمی امن کے فروغ کے دنیا کے تمام بڑے میڈیا ہاوسز، حکومتوں اور ریگولیٹری اتھارٹی کی ذمہ داری بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ بقائے باہمی اور نسل انسانی کے تحفظ کے لئے سب کو مل جل کر کام کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).