مریم واقعی مریم ہے


وہ آیا اس نے دیکھا اور وہ چھا گیا پتہ نہیں کس نے کب اورکس لیے کس کے حق میں ایسا کہا۔ لیکن اگر آج وہ کہنے والا زندہ ہوتا تو وہ ضرور کہتا وہ آئی اس نے دیکھا اور وہ چھا گئی۔ وہ صرف ایوانوں میں ہی نہیں چھائی وہ دلوں پر بھی چھا گئی اور دماغوں کی حکمران بن گئی اس کا لڑکپن بھی آزاد گزرا تو اس کی جوانی آزمائش میں چلی۔ آزمائشیں آنا کوئی بڑی بات نہیں بلکہ ایسا ہونا اعزاز کی بات ہے اور شاید خدا سے پوچھا جائے تو وہ آزمائشوں کو اپنے انتحاب کردہ لوگوں کے لیے تحفہ قرار دے۔ آزمائشوں میں سرخرو ہونا اصل بات ہے۔ اس نے سچ کہا کہ وہ بے نظیر نہیں اور یہ بھی سچ ہے کہ اس کا بے نظیر سے تقابل نہ کیا جائے۔

بینظیر بھٹو کی اولاد تھی اور آکسفورڈ سے تعلیم یافتہ اس کی جد وجہد کا سفر تب شروع ہو ا تھا جب بی بی رانی کے باپ کو امریکی سامراج کی خوشنودی کے لیے پھانسی کے پھندے پر لٹکایا گیا۔ پنکی کو اس وقت اپنے باپ سے بھی نہیں ملنے دیا گیا وہ دکھ اس کی زندگی کا پہلا دکھ تھا اور شاہد زندگی کا سبق بھی۔ پھر یکے بعد دیگرے اس کے دو جواں بھائی شاہ نواز اور مرتضی اس سے چھین لیے گئے اس کی ماں جو کبھی مردانگی کی ایک علامت تھی صدموں تلے آ کر زندہ ہونے کے باوجود مردہ سی ہو گئی۔ تب پنکی نے پوری جرات اور استقامت سے وقت کے فرعون کا مقابلہ کیا۔ کہنے والے کہتے ہیں جب وہ مارشل لاء کے بعد لاہور پہنچی تو تاریخ کا دوسرا بڑا استقبال تھا ہزاروں نہیں لاکھوں لوگ لاہور کی سرزمین پر بینظیر کے لیے دیوانہ وار چلے آئے اس سے پہلے تاریخ کا سب سے بڑا استقبال ائر مارشل اصغر خان کا ضیاء مارشل لاء میں ہی کراچی میں ہوا تھا وہ بینظیر عروج دیکھتی گئی اور پھر پاکستان کی حکمران بنی۔ سازشیں اس کے خلاف جاری رہیں مجبور ہو کر اسے این آر او کرنا پڑا۔ جب وہ کراچی پہنچی تو کارساز میں لاکھوں لوگ پھر اس کے ہمسفر بن چلے۔ قربانی کی نئی تاریخ رقم ہوئی جب جانثاروں نے اس پر اپنی جان چھڑکی او ر پھر ایک وقت ایسا آیا وہ امر ہو گئی۔

آج اس بینظیر سے مریم کا موازنہ درست نہیں۔ واقعی مریم نے بھی اسی حقیقت کا اعتراف کر کے ایک سچ دنیا کے سامنے رکھا اور اپنے سے اندھی محبت کرنے والوں کو باور کروایا کہ ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں۔ لیکن جب وہ اس راہ پر چل پڑی ہے تو پھر مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وہ کل کی بینظیر ہی ہے۔ عمل کی اس راہ میں وہ سنجیدگی، دوراندیشی اور استقامت سے آگے بڑھ رہی ہے۔ کل کی بات ہی ہے، جب اس کے باپ کو مشرف نے آمریت کا راج اپنانے کے بعد زنداں کی نذر کیا تو وہ کم عمر ہونے کے باوجود عدالت میں یوں للکاری جیسے وہ طوفان ہو۔

اس نے کہا نہیں مانتی۔ اور پھر بازو لہرا کر جس طرح انکار کیا اس نے آمریت کے دلوں میں سوراخ کر دیے۔ زمانہ اپنی داستان کہہ رہا تھا۔ شریف خاندان کی آزمائش ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ اس کا جرم بھی وہی تھا جو بھٹو کا تھا۔ وہ بھی امریکیوں کے آگے انکار کر بیٹھا تھا اور اس نے بھی ایسا کیا۔ امریکیوں کی نہ مان کر ایٹمی دھماکے کر کے اس نے موت کو دعوت دے رکھی ہے جب تک وہ اپنے انجام کو نہیں پہنچتا مختلف بہانوں سے اسے آزمائش سے دوچار کیا جاتا رہے گا اب کی بار جب پانامہ کو جواز بنا کر اسے سبق سکھانے کی سعی کی گئی تو دشمن کو اندازہ نہ تھا کہ اب نواز شریف تنہا نہیں، اب وہ اس کے ساتھ ہے وہ اس کی جانشین ہے تو وہ اس کا دماغ بھی بن چکی۔

سچ بات یہ ہے کہ وہ اس کا ریموٹ کنٹرول اپنے ہاتھ لے چکی۔ جب پہلی مرتبہ اس نے للکار کر کہا روک سکتے ہو، تو روک لو۔ تو مجھے وہ بہت اچھی لگی صرف اچھی ہی نہیں لگی دلی خوشی بھی ہوئی۔ خوشی تھی مسرت تھی۔ اطمینان تھا سب کچھ تھا۔ اس لیے کہ اس نے طاقت اور اختیارات کے گمنڈ میں مغرور وں کو باور کروا دیا تھا کہ سب yes man ہی نہیں وہ بھی ہیں جو اختلاف رکھ سکتے ہیں، جو انکار کر دیتے ہیں۔ یہ للکار اس کی دور اندیشی کا ثبوت تھا تو اس کے نبض شناس ہونے کا بھی اس نے بھرپور مخالفت کے باوجود بستر مرگ پر پڑی اپنی والدہ کی انتحابی مہم اتنے بہترین انداز میں چلائی کہ بینظیر کی جھلک نظر آئی سمجھنے والے بھی سمجھ گئے کہ نواز شریف کی جان اس میں ہے۔ خلائی مخلوق نے بروقت حالات کا ادراک کر کے اسے راہ سے ہٹانا چاہا لیکن ان کا انصاف یہ بات بھول گیا کہ اس کی کرپشن، فہمیدہ مرزا، اور عظمی گل کو حاصل مالی صلہ سے کب مطابقت رکھتی ہے؟

اسے کرپٹ ثابت کرنے کی ہر ممکن کوشش ہوئی لیکن قدرت نے اپنا کام دکھایا، اس کا باپ بھی کرپشن سے مبرا قرار دیا گیا۔ گھنٹوں انتظار کے بعد آخر کار نواز شریف کے خلاف جو فیصلہ سامنے آیا وہ کھلا ثبوت ہے کہ نواز شریف پر کرپشن ثابت نہ ہو سکی پھر اس پر انگلی اٹھانا بھی سورج کو چراغ دکھانے کے متراد ف ہے مجھے اس کی للکار روک سکو، تو روک لو نے جو خوشی دی تھی وہ اس وقت ماند پڑ گئی اور مجھے خوشی سے بڑھ کر کسی اور کیفیت کا سامنا کرنا پڑ گیا جس کے لیے شاید الفاظ لکھنے کو نہ مل سکیں جب یہ اطلاع سامنے آئی کہ اس نے جیل میں خصوصی مراعات حاصل کرنے سے انکار کر دیا اس نے گھر کے بجائے جیل کا کھانا کھانے کو ترجیح دی جب اس نے خواتین اہلکاروں کے ساتھ ان کی بیرک میں ہی سونے اور وقت گزارنے کا فیصلہ کیا جب اس نے محمود و ایاز کی تمیز ختم کرتے خود کو بھی اسی صف میں کھڑاکر کے جہاں عام اور غریب قیدی خواتین کھڑی ہیں۔ اس نے عمل سے ثابت کیا کہ وہ اس جیسی ہیں اور وہ بھی ان جیسی ہے اس نے خود کو لاڈلی اور شہزادی کی صفوں سے نکال کر عام شہری کی صف میں لاکھڑا کیا وہ والد کی چہیتی ہے اور اسی لاڈ پیار کو کمزوری بنا کر ریاست اسے آزمائشوں سے دوچار کیے ہے۔ وہ والد کی کمزوری نہیں بنی بلکہ طاقت بن کر ابھری۔ اس کی والدہ شدید علالت کے باعث بستر مرگ پر تھی لیکن اس بیماری کے باوجود اس نے سر جھکانے سے انکار کر دیا وہ قانون کا سامنا کرنے قانون کے آگے ضرور سرنڈر ہوئی اورجیل کاٹنے واپس آئی لیکن دشمن کے آگے شکست نہ مانی وہ جیل نہ جاتی تو عوام کی عدالت میں بینظیر بن کر مقدمہ لڑتی۔ پہلے اس کی آواز پر صرف اس کے حلقہ انتحاب نے اس کو منتحب کرنا تھا، اب وہ 272 حلقوں کی آواز بن کر ریاست کے ضمیر پر ہر لمحے کوڑے رسید کر رہی ہے وہ یہاں کتنے دن گزارتی ہے یہ الگ بات۔

لیکن گنتی کے ان دنوں کی اس کی قید اسے عام لوگوں کی صفوں میں لا کھڑا کر گئی اس نے یورپ کی آرام دہ فضا سے اپنے اٹھارہ سالہ بیٹے جنید صفدر کو میدان میں لا کر دور حاضر کی یزیدیت کے خلاف حسین بنا کر کھڑا کیا۔ اس کو باور ہو چلا ہے کہ غریب کے کیا مسائل ہیں؟ شاید اس کی زندگی کا سب سے بڑا حاصل ہی یہ ہے کہ اسے زندگی کی حقیقت اور غریب آدمی کی شناسائی مل گئی چند دنوں بعد اس نے پھر واپس گھر آنا ہے پھر میدان میں سیاست کرنی ہے یہ تلخ تجربہ اسے وقت کی سب سے کامیاب سیاست دان بنا سکتا ہے نام میں وہ فاطمہ جناح اور محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد گنی جا رہی ہے اس حقیقت کا اعتراف اسے عمل میں بھی ان کے ساتھ لاکھڑا کر دے گا جس طرح ضیاء کی آمریت میں نصرت بھٹو اور مشرف کی آمریت میں بیگم کلثوم نواز تاریخ کا حصہ بنی۔ میرا گمان کہتا ہے کہ وہ خلائی مخلوق کے اس آمرانہ دور میں نئے پاکستان کی نئی لیڈر ہو گی۔ میرا دعوی ہے کہ تبدیلی ضرور آئے گی۔ جناح، ڈاکٹر قدیر اور بھٹو کا پاکستان نیا پاکستان بن کر ضرور ابھرے گا اس نئے پاکستان کی محرک اور علامت وہی ہو گی جو مرد بن کر نامساعد حالات کا سامنا کر رہی ہے۔ صنف نازک اب جری مردوں کا کردار اپنائے ہے اور یہ سہرا اسے جاتا ہے جو مریم نواز ہے۔ نیک تمناؤں کے ساتھ میری اتنی دعا کہ سیاست میں وہ مریم کی طرح معصوم اور مقدس رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).