حکومت سے توقعات پوری ہو سکتی ہیں


عمران خان سے بعض معاملات میں اختلاف کیا جا سکتا پے مگر آن کی نیت پر شک نہیں کیا جاسکتا کہ وہ وطن عزیز کو بام عروج تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسی لئے وہ سخت فیصلے کر رہے ہیں مگر ان سے عوام متاثر ہو رہے ہیں۔ ادھر مافیا کے اودھم مچانے سے ان پر اور بھی برا اثر پڑ رہا ہے، لہذا ان کے بارے میں یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ وہ عوامی محاذ پر غیر مقبول ہوتے جا رہے ہیں۔ کیونکہ جب عام آدمی کو مہنگائی بے روزگاری اور نا انصافی ادھ موا کریں گے تو وی یقیناً اچھا نہیں کہے گا۔ لہذا وہ ایسے فیصلے کرنے کی جانب بڑھیں جن سے عوام براہ راست متاثر نہ ہوتے ہوں۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہیں پچھلی حکومتوں کی غیر عوامی پالیسیوں اور منصوبوں کی وجہ سے بے حد و حساب مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جس کا اندازہ باشعور عوام کو بخوبی ہے مگر وہ انتظامی امور جس کے متعلق ہم متعدد بار عرض کر چکے ہیں کہ وہ انہیں بہتر بنا سکتے ہیں کم از کم دو صوبوں میں قانون کی عمل داری کو ممکن بنانا ان کے لئے آسان ہے مگر ابھی تک اس حوالے سے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے، لہذا مافیاز اپنی من مانی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ ان پر شاید اہنی ہاتھ اس لئے نہیں ڈالا جا رہا کہ کہیں یہ نظام زندگی تلپٹ نہ کر دیں لہذا دھیرے دھیرے ان کو راہ راست پر لانے کی حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے۔

چند روز پہلے پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان سے ممتاز صحافی ایثار رانا کے گھر جب ملاقات ہوئی تو انہوں نے یہی کہا کہ مافیا مکمل طور سے فعال ہیں اور اپنے تئیں حکومت کو ناکام بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں وہ حیران ہیں کہ ہر شعبے میں ایک مافیا موجود ہے۔ دکاندار سے لے کر ریڑھی بان تک ملوں فیکٹریوں سے لے کر ذخیرہ اندوزوں تک سب میں حکومت سے پرخاش رکھنے والے پائے جاتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ پچھلے ادوار میں موجیں کرتے رہے ہیں۔ حکمران جہاں انہیں نوازتے وہاں اپنی تجوریاں بھی بھرتے مگر عمران خان ان کے لیڈر بد عنوانی کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ انہیں اس کی کوئی پروا نہیں کہ کوئی کیا کہے گا اور اگران کے ساتھیوں میں سے کسی نے بھی بدعنوانی کا ارتکاب کیا تو اسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا۔

ایک سوال یہ کہ کیا نواز شریف آ رہے ہیں، کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ جدھر بھی ہوں گے اب ہسپتال میں رہیں گے لہذا وہ آ بھی جاتے ہیں تو اس سے حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک دوسرے سوال پر کہ وہ جارحانہ انداز کیوں اختیار کرتے ہیں کہا کہ یہ جارحانہ اس لئے لگتا ہے کہ میں سچ بولتا ہوں حقائق سامنے رکھتا ہوں اور صحتمند تنقید کو ضروری سمجھتا ہوں جس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے۔ اس سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ایک کھرے انسان ہیں ان کے لہجے میں تندی بھی اسی لئے ہے جو ان کے سیاسی حریفوں کو گراں محسوس ہوتی پے۔

بہرحال عمران خان ایک دیانت دار وزیر اعظم ہیں مگر دو برس گزرنے کے بعد بھی وہ صورت حال پر اپنی گرفت مضبوط نہیں بنا سکے، مگر یہ کہنا بھی نامناسب نہ ہو گا کہ انہوں نے ملک کو درست سمت کی طرف بڑھا دیا ہے۔ معیشت کو پٹڑی پر چڑھا دیا ہے۔ خارجہ پالیسی بھی مسحکم ہونے جارہی ہے۔ اب اس کا رخ ایک ایسے دوست اور مخلص ملک کی جانب ہے جس نے ہمیں کبھی بھی مایوس نہیں کیا یہ الگ بات ہے کہ ہم اسے بار بار مایوس کرتے رہے ہیں۔ اس کے باوجود وہ ہمارے ساتھ کھڑا رہا ہے جبکہ امریکا سے دوستی کر کے ہمیں بے حد نقصان پہنچا مگر اب عالمی سیاسی منظر نامہ تبدیل ہوچکا ہے۔ سوچ کا زاویہ بھی بدل گیا ہے لہذا امریکا موجودہ حکومت کو ناپسند کرتے ہوئے اپنے مہروں کو آگے لانے کی خواہش رکھتا ہے جو کہ نا ممکن ہے۔

اب عمران خان ایسے ہی حکمران اقتدار میں آئیں گے کہ ڈکٹیشن لینے والی حکومتوں کا دور ختم ہو گیا۔ اس دوران میں جو زخم عوام کو لگے ہیں، وہ ابھی تک مندمل نہیں ہو سکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشی ڈھانچا تڑخ چکا ہے، جسے ٹھیک کرنے کی بھر پور کوششیں ہو رہی ہیں۔ مگر عوام کو اپنے مسائل سے غرض ہوتی ہے، وہ دور رس منصوبوں کو نہیں دیکھتے۔ لہذا وہ حکومت کو مہنگائی و بے روزگاری کا ذمہ دار گردانتے ہیں۔ جبکہ حکومت ناقابل برداشت اقدامات نہیں کر رہی، مگر مافیاز از خود ہر شے کی قیمت بڑھا دیتے ہیں انہیں سختی سے نمٹنے کا عندیہ دیا جائے تو وہ مصنوعی قلت پیدا کر صورت حال خراب کر دیتے ہیں۔

حکومت یہ سب دیکھ رہی ہے۔ وہ عوام کو ان کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑ سکتی۔ کیونکہ وہ اپنے دل میں عوام کا درد رکھتی ہے۔ عمران خان وزیر اعظم انہیں پریشان نہیں دیکھنا چاہتے مگر گزشتہ حکمرانوں کی سیاہ کاریوں کے اثرات کو ذائل کرنے کے لئے انہیں بعض غیر عوامی فیصلے بھی کرنا پڑ رہے ہیں اور ایسا ایک روز کرنا ہی تھا تاکہ آنے والے دنوں کو روشن اور خوشگوار بنایا جا سکے۔ مگر ان کی حکمت عملیوں کو دیکھتے ہوئے ان کے سیاسی حریف بے چین ہو چکے ہیں۔ عالمی اسٹیبلشمنٹ نے بھی کان کھژے کر لئے ہیں وہ آئے روز کوئی نہ کوئی حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس سے وہ تسکین حاصل نہیں کر سکے گی کیونکہ دنیا مغربی طرز فکر و عمل کو اچھی طرح سے جان چکی ہے۔ اسے اب ایک نئے دور میں داخل ہونا ہے جہاں وہ امن و پیار کی زندگی بسر کر سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).