باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں


مجھے نہیں پتا ماں زیادہ قابل احترام ہے یا باپ۔ دونوں کی حثیت بہت سی کتابوں کہانیوں میں مختلف دیکھی گئی ہے۔ فرمان الہی ہے کہ جنت ماں کے قدموں کے نیچے ہے۔ لیکن فرمان رسول بھی ہے کہ قبولیت میں باپ کی دعا کو اولیت حاصل ہے۔ لہٰذا کوئی ترازو ان دونوں کی محبت کو تول نہیں سکتا اور نا ہی کوئی حتمی فیصلہ دے سکتا ہے۔

لیکن شاعر اور ادیب ماں کی محبت میں محبوب کی محبت جیسے ہی گرفتار ملے۔ مدرز ڈے پہ بھی ویلنٹاینز جیسی ہی رونق ملی اور باپ کی حثیت درجے کم ہی رہی۔ کوئی ماں کو اتنے اعلی درجے پہ رکھتا ہے تو لگتا ہی نہیں کہ باپ ساری عمر وہاں اس درجے پہ پہنچ بھی سکتا ہے اور ماں کے قصیدے اتنے ہیں کے لگتا ہی نہیں باپ نام کی مخلوق بھی گھروں میں پائی جاتی ہے۔ اور کبھی کوئی باپ پہ چار سطریں لکھ دے توپڑھنے والوں کو نیچے کمینٹس میں باپ سے پیار امڈ ہی آتا ہے۔ اور کبھی کبھار سننے کو مل ہی جاتا ہے کے باپ جنت کی کنجی ہے۔ جسے منافقت تو نہیں کہا جا سکتا۔ لیکن انصاف بھی نہیں کہا جا سکتا۔

اگر ماں کے قدموں تلے جنت ہے تو گھر میں سارا دن کا تھکا ہارا جو شخص داخل ہوتا ہے کبھی بڑھ کر اس کے پاؤں کے نیچے دیکھو تو پھٹا پرانا جوتا ہو گا اور نہ جانے کتنی ہی خواہشیں وہ کچل کے بچوں کی پسند کے کھلونے اور کپڑے لایا ہو گا اور پھر بھی آتے ہی سب کی نئی فرمائشیں سن کے اگلے دن زیادہ جوش سے کام پہ جائے گا۔

خیر باپ تو بیچارہ اتنے میں بھی راضی رہا، وہ ماں بچوں کے بیچ نہ آیا اور نہ کبھی اس بات کا گلہ کیا۔ یہ دنیا کی وہ واحد مخلوق ہے جس سے ماں بچوں کو ڈراتی بھی رہتی ہے اور گھر آنے پہ پٹواتی بھی ہے اور آہستہ آہستہ اس کا امیج ایک ظالم تھانے دار سے بڑھ کر نہیں رہ جاتا، ماں خود صرف دھمکا کے اپنا کام چلاتی ہے اور باپ بیٹے کے درمیان بھی حائل رہتی ہے اور باپ کو کسی سازش کا بھی گمان نہیں گزرتا۔ لیکن باپ گھر میں ایک درخت کے مانند ہوتا ہے جس کی شاخیں پورے گھر کو لپیٹ میں لئے رکھتی ہیں اور کوئی مصیبت بھی گھر میں نہیں داخل ہونے دیتا۔

اسے اپنے بیٹے کے بڑھتے قد سے نہ مسئلہ ہوتا اور نہ ہی کوئی جلن۔ جب چلتے ہویے باپ کا سایہ بڑا ہو اور بچا اچھل اچھل کر اسے پار کرے تو تب بھی باپ خوش ہی ہوتا ہے کے میرا بیٹا میرے سے اگے ہی بڑھے گا۔ باپ کی باتیں بعض اوقات کڑوی ہوتی ہیں مگر بچوں کی اصلاح کے لئے۔ جس میں فائدہ ہی ہوتا ہے۔ ایک انسان کو با اعتماد ہونے کے لئے یہ حقیقت کافی ہے کے اس کا باپ اس کے سر پہ موجود ہے۔ اور وہ مضبوط بھی تب تک ہوتا ہے جب تک اس کے باپ کا ہاتھ کندھے تک آ جائے۔

لیکن محبت تو نشیب کی طرف بہتی ہے یہ بات سب سے پہلے باپ ہی سمجھتا ہے اور مجھے بھی اس دن سمجھ آیا جب میرا ہاتھ تمھارے کندھے تک نہ پہنچا۔ اس دن سے باپ بیٹے کو ڈانٹنے سے کترانے لگتا۔ وہ بچوں کی خواہشیں پوری کرتے جو اپنی ادھوری خواہشیں پوری نہیں کر پاتا تو ان کو دفنانے لگتا ہے کہ اب تو میرے بیٹے کی بہت بڑی بڑی خواہشیں ہیں اور پھر سے ان کو پورا کرنے کی سعی کرنے لگتا ہے اور اولاد یہ شکایت کرتی کہ ہمارے دل کو کوئی نہیں سمجھتا اور جو بنا کہے سب سمجھ جاتا تھا، وہ ایک دن بیٹے کی عدالت میں نہ سمجھ ہو جاتا ہے۔ وہ ٹوٹ سا جاتا ہے اور اسی دوران میں اس کی کشتی کسی کنارے ٹھہر سی جاتی ہے اور وہ اضافی چیز (بوجھ ) بن جاتا ہے۔ پرانے گرنے والے درخت کے مانند۔

باپ بوجھ نہیں ہوتے، درخت ہوتے ہیں۔ اور سارے درخت پھل نہیں دے پاتے، کچھ کا صرف سایہ اس کے پھل سے بڑھ کے ہوتا ہے، کیا پتا اس کا پھل بہت کڑوا ہو لیکن سایہ بہت گھنا ہو، (جیسا کے برگد کا درخت)۔ اسی طرح کچھ والد بچوں کی ضروریات اور خواہشات پوری کرنے کی سکت نا بھی رکھتے ہوں، ڈھال ضرور ہوتے ہیں۔ اس لئے والد کا سایہ ضرور رہنا چاہیے یہ ہر طرح کے حالات میں انسان کی ڈھال ہوتا ہے۔ اور باپ کی دولت سے بڑھ کر اس کا سایہ ہی کافی ہوتا ہے۔ میرے خیال سے اب ہمیں سمجھنا ہی ہو گا کہ والد کی دھن دولت ہمارا اثاثہ نہیں بلکہ تعلیم و تربیت، شعور، سمجھ، معاشرے سے مطابقت، اور سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ۔

ان کے سائے میں بخت ہوتے ہیں
باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).