چینگ لی: آسٹریلوی ٹی وی اینکر چین میں زیرِ حراست کیوں ہیں؟


شینگ لی

لاکھوں ناظرین کے لیے چینگ لی چین کے ریاستی انگریزی خبر رساں ادارے کا چہرہ تھیں جنھیں انتہائی مخصوص انداز میں چین کی کہانی دنیا کو سنانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

وہ بزنس کے شعبے کی ایک معروف صحافی تھیں اور آسٹریلوی شہریت رکھتی تھیں۔ بیجنگ سے وہ چینی ٹی وی چینل ’سی جی ٹی این‘ کے لیے کام کرتی تھیں اور ایک تفریحی کُکنگ شو بھی کر رہی تھیں۔

گذشتہ ماہ چینگ لی ٹی وی سکرین سے غائب ہو گئیں اور انھوں نے اپنے تمام عزیز و اقارب سے رابطہ منقطع کر لیا۔ ان کے انٹرویوز اور پروفائل بھی سی جی ٹی این کی ویب سائٹ سے ہٹا لیے گئے۔

پیر کے روز آسٹریلوی حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ چینگ لی کو چین میں کسی نامعلوم مقام پر نظر بند کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

دنیا بھر کی مخالفت کے باوجود چین جارحانہ رویہ کیوں اختیار کیے ہوئے ہے؟

بحیرۂ جنوبی چین کے مصنوعی جزیرے آباد، امریکی جواب کیا ہو گا؟

چین: ترقی کی شرح تیس برسوں میں سب سے کم سطح پر

کیا کورونا وائرس کی وبا سی پیک منصوبے کو بھی متاثر کر سکتی ہے؟

اب تک ان کے خلاف کوئی فردِ جرم عائد نہیں کی گئی ہے اور انھیں حراست میں لیے جانے کی کوئی وجہ بھی سامنے نہیں آئی ہے۔

آسٹریلوی سفارت کاروں کو ویڈیو لنک کے ذریعے چینگ لی سے بات کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ چینی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ اس وقت وہ کوئی معلومات نہیں دے سکتے تاہم اس معاملے سے چینی قوانین کے مطابق نمٹا جائے گا۔

مگر چین کی جانب سے ایک اور مغربی شہری کو حراست میں لیا جانا پریشان کُن ہے۔ ان کی شہریت کی وجہ سے یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ شاید انھیں چین اور آسٹریلیا کے درمیان بڑھتی کشیدگی کی وجہ سے حراست میں لیا گیا ہو۔

دو ثقافتوں کا پس منظر

چین

کئی لوگوں کے لیے چینگ لی کسی ریاستی ٹی وی سٹیشن کے لیے بہترین اینکر تھیں جو اپنی حدود کا خیال رکھتی تھیں۔ بزنس پروگرام کرنے کی وجہ سے وہ سیاست سے دور ہی رہتی تھیں تاہم اہم سیاسی موقعوں پر انھیں یہ ذمہ داری دی جاتی تھی۔

چونکہ انھوں نے چینی ریاست کے خلاف کوئی بات نہیں کی ہے اس لیے ان کی حراست سے ان کی فیملی اور دوست سبھی پریشان ہیں۔ اس کے علاوہ چینی قانون کے مطابق تو کسی کو بھی طویل عرصے تک بغیر فردِ جرم عائد کیے زیر حراست رکھا جا سکتا ہے۔

چینگ لی چین میں پیدا ہوئی تھیں مگر ان کا خاندان میلبرن میں اُس وقت منتقل ہو گیا تھا جب وہ دس سال کی تھیں۔ ان کے والد آسٹریلیا میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے آئے تھے۔ گذشتہ سال ایک انٹرویو میں انھوں نے بتایا کہ ابتدا میں آسٹریلیا میں وہ جس سکول میں گئی تھیں وہاں پر انھیں انگریزی نہ آنے کی وجہ سے تنگ کیا جاتا تھا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے جلد ہی زبان کے ساتھ ساتھ آسٹریلوی مزاح بھی اپنا لیا اور اب وہ آسٹریلیا ہی کو ترجیح دیتی ہیں جہاں ان کے والدین اور دو بچے اس وقت مقیم ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اقتصادیات میں اپنے ابتدائی کیریئر سے تنگ آ کر انھوں نے سنہ 2000 میں چین آنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ وہ دونوں زبانیں، ثقافتیں جاننے کا فائدہ اٹھا سکیں۔

انھوں نے صحافت سی ٹی جی این سے سنہ 2003 میں شروع کی اور پھر سی این بی سی چائنا کے لیے نو برس تک نامہ نگار رہیں۔ بعد میں پھر وہ سی جی ٹی این چلی گئیں۔ (سنہ 2013 سے قبل اس چینل کو سی سی ٹی وی کہا جاتا تھا)۔

’سمجھدار صحافی‘

ان کے پرانے دوست اور چین میں آسٹریلوی سفیر جیف رابی کا کہنا ہے کہ وہ ایک تجربہ کار صحافی ہیں جنھوں نے یہ کام کافی عرصے سے چین میں کیا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ایک انتہائی غیر جانبدار صحافی تھیں اور ریاستی میڈیا کی حدود میں رہتے ہوئے جتنی منصفانہ وہ ہو سکتی تھیں ہوتی تھیں۔

چینگ لی نے چین کی اقتصادی ترقی اور عالمی ترقی میں چینی حصہ ڈالنے کی کہانی کو دنیا تک پہنچایا۔ انھوں نے ٹوئٹر پر خود کو ’چین کی کہانی‘ بتانے والوں میں سے ایک انسان کے طور متعارف کروا رکھا ہے۔ مگر وہ چین میں آمرانہ نظام کے خلاف بھی بات کر لیتی تھیں۔

شینگ لی

AUSTRALIA GLOBAL ALUMNI
سنہ 2014 میں ایک آسٹریلیوی چینل پر انھوں نے چین میں میڈیا پر پاپبندیوں کے بارے میں بے تکلف انداز میں گفتگو کی تھی۔

مگر وہ غیر ملکی صحافیوں اور تجزیہ کاروں پر بھی تنقید کرتی تھیں کہ یہ لوگ چین کے داخلی حالات کو مکمل طور پر نہیں سمجھتے۔

جیف رابی کہتے ہیں کہ یہ سوچنا مشکل ہے کہ انھوں نے ایسا کیا کیا ہو گا جو ان کی حراست کی وجہ بنا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس طرح کسی کو حراست میں لے جانا کوئی عام بات نہیں اور چینی حکام نے ایسا غلطی سے نہیں کیا ہو گا۔

سیاسی مہرہ؟

حالیہ برسوں میں چین کے دنیا میں بااثر ہونے کے ساتھ ہی اس کے آسٹریلیا کے ساتھ روابط میں بھی سرد مہری پیدا ہوئی ہے۔

سنہ 2018 میں آسٹریلوی حکومت نے چینی کمپنی ہواوے پر ملک میں فائیو جی نیٹ ورک نصب کرنے کے ٹینڈر میں شرکت کرنے سے پابندی لگا دی تھی۔ حکومت کی جانب سے غیرملکی مداخلت روکنے کے لیے ایسے قوانین کا نفاذ کیا تھا جنھیں چین کی جانب سے مبینہ مداخلت کو روکنے کا باعث سمجھا جا رہا ہے۔

اس سال دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ اپریل میں آسٹریلیا کی جانب سے کورونا وائرس کی عالمی وبا کی ابتدا کے حوالے سے تحقیقات کرنے پر زور ڈالا گیا تھا۔ چین کا مؤقف تھا کہ اس کے ذریعے چین کو غیر منصفانہ طور پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اس کے ردِ عمل میں چین کی جانب سے مبینہ طور پر کئی آسٹریلوی برآمدی مصنوعات جن میں آسٹریلوی گائے کے گوشت، شراب اور جو پر پابندیاں عائد کی گئیں۔

آسٹریلوی حکام اس معاشی دھچکے کو سیاسی تناؤ کے ساتھ جوڑنے سے کتراتے دکھائی دیتے ہیں اور آسٹریلوی وزیرِ خارجہ مریز پین نے منگل کے روز ایک صحافی کی جانب سے کیے گئے اس دعوے کی تردید کی کہ چین شینگ کو آسٹریلیا پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک مہرے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

’میں اس معاملے کو اس طرح بیان نہیں کروں گی۔ اس طرح کی بات سوچنا میرے نزدیک قیاس آرائی کرنے کے مترادف ہے۔ ہمارا کام ہے کہ ہم ان کی ہر ممکنہ مدد کریں۔‘

آسٹریلوی سفارت کار پہلے ہی چین کی جانب سے اپنے ایک اور شہری لکھاری ینگ ہینگجن کے حراست میں لیے جانے کے حوالے سے صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں جن پر جنوری 2019 میں حراست میں لیے جانے کے بعد جاسوسی کا مقدمہ بنایا گیا تھا۔

آسٹریلوی حکام نے متعدد مرتبہ چین کی جانب سے ینگ کو حراست میں رکھنے اور اس دوران ’سخت حالات‘ پر بارہا تنقید کی ہے۔

دو کینیڈیئن شہریوں کے کیسز پر بھی عالمی تشویش پائی جاتی ہے۔ گذشتہ برس چین نے سابق سفارت کار مائیکل کوورگ اور کاروباری شخصیت مائیکل سپیور پر جاسوسی کے الزامات میں فردِ جرم عائد کی تھی۔

چین اس بات کی تردید کرتا رہا ہے کہ ان کی جانب سے کی جانے والی گرفتاریاں کینیڈا کے ایک سینیئر مینیجر کی گرفتاری سے جڑی ہیں تاہم متعدد ماہرین کے مطابق چین کی جانب سے یہ دراصل بدلہ ہی لیا گیا ہے۔

اس وقت چینگ لی کے کیس میں متعدد باتیں واضح نہیں ہیں جن سے یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ صحافی کو حراست میں کیوں لیا گیا لیکن جیف رابی کے مطابق اس حوالے سے ٹائمنگ کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ایسا سوچنا بیوقوفی ہو گی کہ اس معاملے میں باہمی تعلقات کا کوئی کردار نہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp