ہم مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں


اگرچہ اردو زبان بہت زیادہ پرانی نہیں ہے لیکن پھر بھی اردو زبان میں ادب کی ہر صنف میں لکھا گیا ہے اور خوب لکھا گیا۔ شاعری، ناول، افسانہ، سفر نامہ، مضمون اردو ادب کا دامن بیش بہا خزانوں سے بھرا ہوا ہے۔ مزاح بھی ادب کی ایک اہم صنف ہے۔ اور اردو زبان میں مزاح میں بھی بہت خوب لکھا ہے۔ اردو ادب کے نثر لکھنے والے معروف مزاح نگاروں میں کرنل شفیق الرحمان، کرنل محمد خان، پطرس بخاری، فرحت اللہ بیگ، شوکت تھانوی اور مشتاق احمد یوسفی کا نام نمایاں ہے۔ خاص طور پر یوسی صاحب اپنی عمر اور اپنی کتابوں کے باعث ہمارے معاشرے اور ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں۔

مشتاق احمد یوسفی کے آباواجداد قبائلی علاقے کے یوسف زئی پٹھان تھے۔ لیکن صدیاں پہلے وہ قبائلی علاقہ چھوڑ کر راجستان میں جا کر آباد ہو گئے۔ مشتاق احمد یوسفی کے والد عبدالکریم نے اپنا نام یوسف زئی سے بدل کر یوسفی کر لیا اور یہ نام ان کے 1923 میں پیدا ہونے والے بیٹے مشتاق احمد کو بھی ملا۔

مشتاق احمد یوسفی 4 ستمبر 1923 کو موجودہ بھارت کے شہر جے پور میں پیدا ہوئے۔ مشتاق احمد یوسفی نے راجپوتانہ سے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ بی اے کرنے کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فلسفہ اور وکالت کی ڈگری حاصل کی۔

1946 میں پی سی ایس کر کے مشتاق احمد یوسفی ڈپٹی کمشنر اور ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر مقرر ہو گئے۔ اسی سال ان کی شادی ادریس فاطمہ سے ہوئی جو خود بھی ایم اے فلسفہ کی طالبہ تھی۔ 1947 میں تقسیم کے بعد بھی یوسفی صاحب بھارت میں ہی رہے جب کہ ان کے خاندان کے لوگ ایک ایک کر کے پاکستان آنے لگے، تو 1950 میں یوسفی صاحب بھی کراچی آکر آباد ہوگئے۔ کہتے ہیں کہ بھارت کو تقسیم سے جو نقصان ہوا اس میں یوسفی صاحب کا ہجرت کر آنا بھی شامل ہے۔ 1950 میں مسلم کمرشل بینک میں ڈپٹی جنرل منیجر کے عہدے پر فائز ہوئے۔ 1965 میں الائیڈ بینک میں مینیجنگ ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ سنہ 1974 میں یونائیٹڈ بینک کے صدر اور 1977 میں پاکستان بینکنگ کونسل کے صدر بنے۔ بینکاری کے شعبے میں ان کی غیر معمولی خدمات پر انہیں قائداعظم میموریل تمغا عطا ہوا۔

اگرچہ یوسفی صاحب کی پیشہ ورانہ زندگی بھی خاصی کامیاب رہی مگر انہیں اصل شہرت ان کی ادبی زندگی کی وجہ سے ملی۔ اپنی شگفتہ تحریروں سے جو شہرت، عزت اور مقام یوسفی صاحب نے کمایا ہے وہ کسی بھی لکھاری کے لیے ایک اعزاز ہے۔ یوسفی صاحب کا پہلا مضمون ”صنف لاغر“ کے نام سے ایک ماہنامہ میں شائع ہوا۔ یوسفی صاحب کی پہلی کتاب ”چراغ تلے“ کے نام سے 1961 میں منظر عام پر آئی۔ خاکم بدہن 1969 اور زرگزشت 1976 میں شائع ہوئیں۔

1990 میں یوسفی صاحب کی سب سے مشہور کتاب ”آب گم“ شائع ہوئی۔ اور ان کی آخری کتاب شام شعر یاراں 2014 میں منظر عام پر آئی۔ مشتاق احمد یوسفی نے کم لکھا مگر خوب لکھا ان کی ہر کتاب نے شائقین کو حیران کر دیا اور ہر کتاب پر انہیں خوب داد وصول ہوئی۔ سوائے ان کی آخری کتاب شام شعر یاراں کے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یوسفی صاحب کے پڑھنے والے سوچ رہے تھے کہ یوسفی صاحب کی نئی کتاب ”آب گم“ سے بھی اعلیٰ ہو گی لیکن شاید یہ ممکن نہیں ہے۔

شام شعر یاراں میں یوسفی صاحب کی باقاعدہ تحریریں شامل نہیں ہیں بلکہ ان کی تقریریں، خطوط، مراسلے وغیرہ شامل ہیں جس کی وجہ سے مداحوں کو مایوسی ہوئی۔ یوسفی صاحب کو حکومت پاکستان کی جانب سے 1999 میں ستارہ امتیاز ملا۔ پھر سنہ 2002 میں پاکستان کا سب سے بڑا تعلیمی اعزاز نشان امتیاز دیا گیا۔ اس کے علاوہ ان کی کتاب ”خاکم بدہن“ اور ”زر گزشت“ کو آدم جی ایوارڈ اور ”آب گم“ کو سب سے بہترین کتاب کا اعزاز ملا۔

ظہیر فتح پوری نے یوسفی صاحب کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”ہم مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں“ ۔ یوسفی صاحب نے 20 جون 2018 کو کراچی میں وفات پائی۔ ان کی وفات پر کسی نے کہا کہ اب ہم عہد یوسفی میں نہیں رہے تو نامور ادیب اور کالم نگار عطاء الحق قاسمی نے کہا کہ یوسفی صاحب کا دور ان کی زندگی کے ساتھ ختم نہیں ہوا بلکہ ہم آج بھی مزاح کے عہد یوسفی میں جی رہے ہیں۔ اور جب تک اردو پڑھنے اور جاننے والے موجود ہیں یوسفی زندہ رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).