چیخ – جنوبی افریقہ کی ایک کہانی


تخلیق۔ ۔ ۔ سی جے ڈرائیور۔ ۔ ۔ جنوبی افریقہ
ترجمہ۔ ۔ ۔ خالد سہیل

یونیورسٹی کی چھٹیوں کے دوران میں کچھ عرصہ کام کیا کرتا تھا تا کہ اپنی فیس ادا کر سکوں۔ ایک مرتبہ مجھے مشرقی ٹرانزوال میں آٹے کے گودام میں ملازمت ملی۔ وہ گودام جوہانس برگ سے دو سو میل دور میرے والد کے کھیتوں سے دو میل کے فاصلے پر تھا۔ مجھے دو مہینوں کے لیے ملازمت ملی تھی۔ میری تنخواہ تیس پونڈ تھی اور میرا کام تیس سیاہ فام مقامی مزدوروں پر نگاہ رکھنا تھا۔ میں وہاں کا فورمین تھا۔ وہ مزدور عمر میں مجھ سے بڑے تھے۔ ان کا کام ریل گاڑیوں سے آٹے کی بوریوں کو خالی کرنا تھا، انہیں گودام میں بھرنا اور بعد میں ٹرکوں میں منتقل کرنا تھا۔

جب میں نے وہاں کام شروع کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ وہاں ایک سیاہ فام فورمین پہلے سے کام کر رہا تھا جو تجربہ کار بھی تھا اور مزدوروں میں مقبول بھی۔ اس کی تنخواہ مجھ سے آدھی تھی۔ عمر تقریباً چالیس برس ہوگی۔ سب لوگ اسے جون کہہ کر پکارتے تھے۔ جب مجھے پتہ چلا کہ مجھے اس سے دگنی تنخواہ ملے گی تو مجھے اچھا نہ لگا۔ میں نے اسے بتایا کہ وہ اپنا کام باقاعدگی سے پہلے کی طرح کرتا رہے میں اس کے کام میں مخل نہیں ہوں گا۔ میں نے اسے بتایا کہ میں مزدوروں کے ساتھ کام کروں گا اور اس کی اطلاع سفید فام مالک کو بھی نہ دوں گا۔

اگرچہ مجھے اخلاقی بددیانتی کا احساس ہو رہا تھا کہ کام تو مزدوروں کا کروں لیکن تنخواہ فورمین کی لوں لیکن مجھے اپنی تعلیم کے لیے ساٹھ پونڈ کی اشد ضرورت تھی اور جون کو بھی اعتراض نہ تھا کہ مجھے اس سے دوگنی تنخواہ مل رہی تھی۔ اسے یہ بات البتہ ناگوار گزری تھی کہ جب وہ کام تسلی بخش کر رہا تھا تو کسی کو اس پر نگاہ رکھنے پر کیوں مامور کیا گیا تھا۔ اسے اس بات پر اعتراض نہیں تھا کہ مجھے سفید فام ہونے کی وجہ سے اس سے دوگنی تنخواہ مل رہی تھی۔ وہ ان حالات کو تسلیم کر چکا تھا۔

اس طرح میں آٹے کی بوریاں اٹھانے والا مزدور بن گیا۔ کام مشکل تھا۔ ہر بوری تقریباً 180 پونڈ کی تھی اور اسے تیس گز لے کے جانا تھا۔ ان بوریوں کو اٹھانا بھاری بوجھ اٹھانے کی طرح ایک خاص طریقے اور تکنیک کا متقاضی تھا۔ کمر جھکا کر گردن کو اکڑا کر ایک مخصوص زاویے سے کھڑا ہونا پڑتا تھا۔ جب دو آدمی ایک جھٹکے کے ساتھ بوری کو مزدور کے سر پر رکھ دیتے تھے تو بوری کے سر پر ٹکتے ہی بھاگنا پڑتا تھا اور پھر منزل پر پہنچ کر ایک مخصوص انداز سے بوری کو زمین پر پھینکنا پڑتا تھا تا کہ وہ زمین پر ہموار گرے۔ اگر غلطی سے کہیں کونہ زمین پر لگتا تو بوری کے پھٹنے کا خدشہ تھا۔ اگر وہ بوری پھٹ جاتی تو اس کی قیمت تنخواہ سے وصول کی جاتی جس کے اکثر مزدور متحمل نہ ہوتے۔

موسم بہت گرم تھا اور کام کافی سخت۔ آٹا اتنا باریک تھا کہ وہ بوریوں میں سے نکل نکل پڑتا اور سر، گردن اور جسم پر گرتا۔ اکثر مزدوروں کی آنکھیں اس دباؤ کی وجہ سے سرخ رہتیں اور یہ سرخی مزدوری کے سالوں کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی۔ ایک ڈاکٹر دوست کا کہنا تھا کہ اتنا مشکل کام صرف زندگی کے دس سال کرنا ہی ممکن ہے یہ علیحدہ بات کہ وہاں چند مزدور بیس سال سے یہ کام کر رہے تھے۔

وہ مزدور جسمانی طور پر بہت طاقتور تھے۔ میں نے ایک کوتاہ قد افریقی بش مین کو جس کا قد بمشکل پانچ فٹ اور وزن سو پونڈ تھا دو بوریاں بیک وقت اٹھاتے دیکھا۔ وہیں پر ایک سوازی قبیلے کا پیٹر نامی باشندہ کام کرتا تھا جس کا قد چھ فٹ اور وزن ایک سو ساٹھ پونڈ تھا۔ وہ وہاں کا چیمپین تھا۔ وہ تھا تو دبلا پتلا لیکن اس میں بلا کی توانائی اور پھرتی تھی۔ وہ کہتا تھا کہ وہ تین بوریاں سر پر رکھ کر ناچتا ہوا منزل کی طرف بڑھ سکتا ہے۔ وہ اکثر اوقات ایک ہی بوری اٹھاتا، اٹکھیلیاں کرتا ہوا منزل کی طرف بڑھتا اور سوازی زبان میں ایک چیخ مار کر بوری زمین پر پھینک دیتا تھا۔

پیٹر اور وہ افریقی جسے ہم بش مین کہتے تھے قریبی دوست تھے۔ آہستہ آہستہ میں بھی ان کے قریب ہو گیا اتنا قریب جتنا جنوبی افریقہ میں ایک سفید فام کالے مزدوروں کے قریب ہو سکتا ہے۔ بش مین مجھ سے قدرے کھنچا کھنچا رہتا لیکن پیٹر کی دوستی کی وجہ سے اس نے مجھے قبول کر لیا تھا۔ پیٹر کا کہنا تھا کہ وہ سوازی قبیلے کے ایک چھوٹے سردار کا بیٹا تھا اور پیسے بنانے کے لیے وہاں کام کرتا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ ایک امریکی کار کا مالک بن سکے۔

ایسی امریکی کار جس کی پچھلی سیٹ اتنی بڑی ہو کہ وہ اپنی محبوبہ سے ہمبستری کر سکے۔ اس کا خیال تھا کہ میری اسپورٹس کا کا مالک بننے کی خواہش دیوانہ پن تھی۔ سارے مزدور اس کی زندگی میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔ ہر صبح وہ اپنے شام اور رات کے قصے مزے لے لے کر سناتا اور وہ سب خوشی سے سنتے اور قہقہے لگاتے۔ وہ کہانیاں ان کی تفریح کا سامان تھیں۔ پہلے تو میں ان کہانیوں کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کی درخواست کرتا لیکن جب پیٹر کو اندازہ ہوا کہ مجھے بھی اس کی جنسی زندگی میں دلچسپی ہے تو وہ کہانیاں انگریزی میں سنانے لگا سوائے ان حصوں کے جن میں وہ عورت کے جسم کے مختلف حصوں کی تفاصیل پیش کرتا۔

اس کی کہانیاں شاید من گھڑت تھیں کیونکہ اسے مجمع لگانے کا شوق تھا۔ ہر دفعہ جب میں ان چیخوں کی تفاصیل پوچھتا جو وہ بوری پھینکتے ہوئے لگاتا تو وہ مجھے ایک نئی کہانی سناتا۔ اس کی محبوب چیخ کی آواز۔ ۔ ۔ سلاباہوسجان۔ ۔ ۔ کی طرح ہوتی جس کا مطلب وہ۔ ۔ ۔ جنگلی گھوڑے کو مار ڈالو۔ ۔ ۔ بتاتا۔ اس نے مجھے ایک چیخ کے بارے میں تین کہانیاں سنائیں اور مجھے ان تینوں پر یقین آ گیا۔ چونکہ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا اس لیے یا تو اس نے وہ کہانیاں اوروں سے سنی تھیں اور یا وہ اس کے اپنے ذہن کی اختراع تھیں۔

اس کی چیخوں میں سے وہ چیخ سب سے جداگانہ اور عجیب تھی جا کا ترجمہ یا تو وہ کرنا نہیں چاہتا تھا یا کر نہیں سکتا تھا۔ اس کو وہ چیخ میں نے صرف ایک دفعہ مارتے سنا تھا۔ یہ اس شام کی بات ہے جب ہم کو ایک پانچ ٹن کا ٹرک بھرنا تھا جو گودام میں بہت دیر سے پہنچا تھا۔ ایک طوفان آنے والا تھا اور اگر ہم وہ مال گاڑی خالی کر کے ٹرک نہ بھرتے تو اناج گیلا ہو کر ضائع ہو جاتا۔

ہمارے پاس صرف ایک گھنٹہ تھا۔ ہم نے تندہی سے کام شروع کر دیا۔ ہمارے گورے مالک نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ اگر ہم نے وہ کام ختم کر دیا تو وہ ہر شخص کو دس شلنگ زیادہ دے گا اور ان لوگوں کے لیے جن کی ہفتے بھر کی کمائی پانچ شلنگ تھی دس شلنگ ایک اہم رقم تھی۔ ہم نے پندرہ پندرہ منٹ کی شفٹ مقرر کی۔ آدھے لوگ کام کرتے اور آدھے آرام۔ کیونکہ کام بہت سخت تھا۔ پیٹر واحد شخص تھا جس نے آرام کرنے سے انکار کر دیا۔ جب کہ باقی لوگ پسینے سے شرابور ہو کر ہانپ رہے تھے وہ متواتر کام کرتا رہا۔

وہ باقی کارکنوں سے دگنا وزن اٹھاتا۔ وہ بیک وقت دو بوریاں لے کر بھاگتا۔ ہم سب اناج کی وجہ سے سفید نظر آ رہے تھے اور ہماری جلدوں پر پسینے کی وجہ سے سیاہ نہریں نظر آ رہی تھیں۔ پیٹر کی جدوجہد ہماری ہمت بندھا رہی تھی۔ ہم آہستہ آہستہ تھکنے لگے۔ ہماری ہمت جواب دینے لگی۔ دس شلنگ بھی غیر اہم دکھائی دینے لگے لیکن پیٹر کی ثابت قدمی قابل رشک تھی۔

چار و ناچار ہم نے طوفان سے پہلے کام ختم کر لیا۔ ہمارا گورا مالک اور ہم سب خود بھی حیران تھے۔ ہمارا مالک کام ختم کرنے سے چند منٹ پہلے آ پہنچا۔ اس وقت کام اپنے عروج پر تھا۔ ہم نے آخری تین بوریاں پیٹر کے لیے چھوڑ دیں۔ دو مزدوروں نے یکے بعد دیگرے تینوں بوریاں اس کے سر پر رکھیں جس سے اس کے سر پر ایک دیوار سی کھڑی ہو گئی۔ مجھے امید نہ تھی کہ وہ اتنا زیادہ وزن ٹرک تک لے جا سکے گا۔ وہ لڑکھڑاتا ہوا کھڑا ہوا اور چلنے لگا۔

پندرہ گز کے فاصلے پر وہ پھر لڑکھڑایا۔ میں نے سوچا کہ وہ گرنے والا ہے اور اس کی مدد کے لیے آگے بڑھا لیکن باقی سب مزدور اپنی جگہ پر کھڑے رہے۔ وہ ایک نئی توانائی سے اٹھا اور ناچتا ہوا اور ایک ہیبت ناک جانوروں کی طرح چیخ مارتا ہوا منزل تک پہنچ گیا۔ وہی چیخ جس کا وہ ترجمہ نہ سکا تھا۔ وہ بوریاں پھینک کر زمین پر گر پڑا اور سب مزدور اس کے گرد جمع ہو گئے۔ وہ اسے اٹھا کر چھت کے نیچے لے آئے۔ ہم سب اس کی ہمت کی داد دے رہے تھے۔ جونہی ہم اسے اندر لائے طوفان شروع ہو گیا۔

پیٹر کو اپنی طبیعت بحال کرنے میں آدھا گھنٹہ لگا وہ اپنی تعریف سن کر بہت خوش ہوتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس نے ایک کارنامہ انجام دیا ہے اور اسے اس پر فخر تھا جب اس کی طبیعت پوری طرح سنبھل گئی تو میں نے اس سے چیخ کا مطلب پوچھا۔

وہ کہنے لگا کہ وہ چیخ پشت در پشت سپاہی جنگ کے آخر میں مارا کرتے تھے۔ وہ چیخ اس بات کا اعلان ہوتا تھا کہ یا تو وہ جنگ ہار چکے اور یا دشمن بھاگ گئے چونکہ وہ چیخ صدیوں پرانی تھی اس لیے کسی کو اس کے صحیح معنی معلوم نہ تھے۔ اس نے بتایا کہ وہ چیخ سب سے پہلے اس کے آبا و اجداد کے ایک قبیلے نے استعمال کی تھی جو دوسرے قبیلے سے جان بچا کر بھاگ جانا چاہتے تھا۔ صرف پچاس سپاہی دشمن کو روکے ہوئے تھے۔ وہ جنگ دو دن جاری رہی۔ تیسرے دن صرف ایک سپاہی بچا تھا۔ وہ گارے سے نکل کر دشمن کے سامنے آیا اور جب اس نے تیر اور ڈھال دشمنوں کے سر پر فضا میں اچھالے تو اس وقت اس نے یہ چیخ ماری تھی۔ ۔ ۔ وہ چیخ اتنی لرزہ خیز تھی کہ اس کی ہیبت سے دونوں طرف کے پہاڑ اس سپاہی اور دشمن پر گر پڑے تھے۔

میرے لیے یہ جاننے کا کوئی طریقہ نہ تھا کہ وہ کہاوت درست تھی یا من گھڑت لیکن اس چیخ کی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا تھا جسے میں نے پیٹر سے سنا تھا۔ مجھے اتنا پتہ تھا کہ سوازی قبیلہ اتنا پرانا نہیں تھا اور زولو جنگوں کے بعد وجود میں آیا تھا لیکن میں پیٹر سے یہ سوال نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس موقع پر یہ بات غیر اہم تھی کہ وہ کہانی درست تھی یا نہیں۔

چھٹیوں کے بعد جب میں یونیورسٹی چلا گیا تو پیٹر سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ جب میں اگلے سال آیا تو گودام کی سیر کرنے گیا۔ میری ملاقات جون اور بش مین سے ہوئی۔ پیٹر کہیں نظر نہ آیا۔ وہ کہنے لگے پیٹر کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ ایک دن وہ کام پر شراب میں دھت آیا اور ایک دوسرے ملازم کی بیوی کو بھی چھیڑا تو سفید فام مالک نے اسے غصے میں آ کر رخصت کر دیا۔ ان لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سے میری ملاقات ایک ایسے افریقی ٹاؤن شپ میں ہو سکتی ہے جو ہمارے گھر سے چند میل دور تھا۔ میں اپنے باپ کی کار لے کر اس سے ملنے گیا۔ پیٹر ایک جھونپڑی سے نکل کر مجھ سے ملنے آیا۔ اس کی حالت بہت ناگفتہ بہہ تھی۔ اس کے کپڑے میلے اور پھٹے ہوئے تھے اور پاؤں میں جوتے نہ تھے۔ اس کے چہرے اور آنکھوں میں بھوک اور نقاہت کی وجہ سے زردی چھائی ہوئی تھی۔

چونکہ میرے پاس بھی پیسے زیادہ نہ تھے اور میرے والد کے کھیتوں میں بھی کسی مزدور کی ضرورت نہ تھی اس لیے میں پیٹر کی زیادہ مدد نہ کر سکا۔ میں نے اسے ایک پونڈ دیا اور اگلے دن ملنے کا وعدہ کیا۔ میں اس کے لیے ایک خاکی قمیص جو مجھے کرسمس پر تحفے میں ملی تھی، ایک سرمئی سوٹ جو مجھے چھوٹا ہو گیا تھا، جوتے، نیکر اور موزے لے گیا۔ وہ میرا بہت ممنون تھا۔ یہ علیحدہ بات کہ مجھے خیرات دیتے شرم آ رہی تھی۔ میرا دل تو چاہتا تھا کہ اسے ملازمت دلوا دوں لیکن چونکہ میں اس علاقے میں زیادہ لوگوں کو نہ جانتا تھا اور میرے والد کا کاروبار مندا تھا میں اپنی اس خواہش پر عمل نہ کر سکا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail