ممتازمفتی کی یاد میں


گیارہویں جماعت میں سب روایتی نوجوانوں کی طرح ڈاکٹر بننے کی کوشش میں چار و ناچار جتی ہم کچھ دوستوں کے ہاتھ لبیک لگی تھی۔ جس پر ہم سب کا گروپ ایمان لے آیا تھا۔ کالے کوٹھے پر براجمعان سفید نورانی چہرے کے ساتھ نمزدہ آنکھیں لیے بیٹھا اپنا اپنا سا لگتا رب دیکھ کرہماری محفل میں اک طوفان برپا ہو گیا تھا۔ ایف ایس سی کے دو سال فزکس کیمسٹری اور باییو کو رٹا لگانے کی بجائے ہم نے ممتاز مفتی سٹایل کے عشق حقیقی پر بحث کرتے گزار دییے۔

نتیجہ یہ ہوا کہ ڈاکٹر کوئی نہ بنا، کوئی فلاسفر بنا، کوئی مفکر، کوئی آنے والے دنوں میں کالے کوٹھے والا بابا ڈھونڈنے میں مگن رہا اور کوئی ممتاز مفتی کے بنائے پیمانوں پر پورا اترنے کی کوشش کرتا رہا۔ سولہوں سال کی میٹھی عمر کی پہلی تحریک ممتاز مفتی کی لبیک نے دی۔ جس نے آنے والے کئی برسوں تک ہماری زندگیوں کے رخ بدل کر ہمیں ہمارے گھر والوں اور والدین کے لیے انجان سا کر دیا۔ سیدھے سیدھے سبق سکھانے والوں کو مشکل مشکل جواب ملنے لگے۔ حلقہ احباب میں ایک رب بچاؤ مہم شروع ہو گئی اور ہم سب کسی نہ کسی طرح اس اداس رب کو منانے، اس کے دل کو گرمانے اور ہونٹوں پرمسکراہٹ لانے کی کوشش میں جت گئے تھے۔

یہ اثر صرف ہم پر نہ تھا۔ کالے کوٹھے پر سفید گھنی داڑھی اور نورانی چہرے والا رب بٹھائے ممتاز مفتی نے کئی علماے کرام کو للکارا، معززان ادب کو حیران وششدر کیاتو کتنے ہی عاشق و مجزوب لوگوں کو عشق کی نئی ادا سے متعادف کروایا۔ وہ سچی اود فطری ادا جو کہے اور بتائے بغیر ہر دل کے اندر خود بخود بنتی اور بکھرتی رہتی ہے۔ لبیک سا اپنی مثال آپ سفرنامہ حج نہ ممتاز مفتی سے پہلے لکھا گیا نہ اس کے بعد۔ مزاحمت تصادم، عشق آگہی کے جذبات و تصورات سے بھری یہ کتاب ممتاز مفتی کا مکمل تعارف تو نہیں ہو سکتی مگر اس کی ایک منفرد اور اہم پہچان ضرور ہے۔

بقول ممتاز مفتی ان کا قلم مروجہ قوانین و روایات کے خلاف ایک بغاوت تھا تو لبیک اس بغاوت کا کھلم کھلا ثبوت تھا۔ جس دور کے سفرناموں میں کعبہ کے دروازوں کی تعداد اس میں آنے والے حاجیوں کی گنتی، گنبدوں کی اونچائی اور گہرائی کا تذکرہ ہوتا تھا اس دور میں ممتاز مفتی نے اپنے رب کو کعبہ کے کالے کوٹھے پر نم زدہ آنکھوں سے بیٹھے اور اپنے پجاریوں کو کعبہ کے گرد گھومتے دیکھ کر تنہا ہوتے دیکھا۔ حج کے دوران جب حاجی حضرات رٹی ہوئی دعاؤں کی تکرار کرتے اور سجدوں کی گنتی کرنے میں مصروف عمل ہوتے، متاز مفتی کے اندر کا باغی اور عاشق کعبہ پہ نظر جماے اس کو آنکھوں میں اتارنے میں محو رہتا۔ ہر فرض نفل اور رسم کو نظرانداز کرتا، معلموں کے بتائے سبق کو بھول کر اپنے دل کی مانتا اور سنتا دکھائی دیتا ہے۔

جس کے ہاتھ میں بھی لبیک آئی، اسے اسی لہر میں بہتے دیکھا۔ گمبھیر زبان کے ثقیل ادب کے درمیاں ممتاز مفتی کی سادہ زبان میں گہری بات کی چھینٹ جہاں تک پہنچی، لوگوں کو شرابور کرتی گئی۔ کعبہ کے گرد ہر سال ہزاروں لاکھوں لوگ طواف کرتے ہیں پر کالے کوٹھے والے رب نے اور کسی کو آنکھ نہ ماری۔ کتنے ہی لوگ کالے کوٹھے کے گرد گھوم گھوم کر اس پر بیٹھا غمزدہ رب ڈھونڈنے لگے۔ کئیوں نے عشق حقیقی کے چوکور ڈبے کو بجا بجا کر دیکھا مگر ممتاز مفتی کے سروں تک کوئی نہ پہنچ سکا۔

ممتاز مفتی ایک ادیب اور ایک شخص کا نام نہ تھا۔ وہ ایک نئی روایت، نئی رسم اور ایک فیشن تھا۔ ممتاز مفتی ایک بالکل نیے رواج کا باپ بن کر ابھرا۔ کلف زدہ لباس پہنے، واسکٹ اوڑھے، سر پر کلہ رکھ کر بیٹھا رہنے والاعزت ماب اردو ادب، ایک دم سے ہیکری ڈیکری اور اینکر اینڈی ماباوں کے گیت گانے لگا۔ گمبھیر زباں کے ادب میں چوگانوں اور کالے کوٹھے کو لے گھسنے والے ممتاز مفتی نے اردو ادب کو خواص میں سے نکال کر عوم الناس کے لیے عام کر دیا۔

اسی لیے آج بھی اس کی تحریر اتنی ہی پسند کی جاتی ہے جتنی اس کے عروج پر کی گئی جبکہ آج اردو کے اصل رنگ کو جاننے والے محض چند ایک ہی رہ گیے ہیں۔ ادب، عبادت اور زندگی کے مروجہ طریقوں اصولوں کے خلاف قدم اٹھاتا ممتاز مفتی اپنے پیچھے پیچھے اپنے پیروکاروں کا جہاں لیے چلتا۔ ہزاروں نوجواں اس کے خیالات کا سرا پکڑے جواں ہوئے اور جب زندگی کو دریافت کرنے نکلے تو سب سے اہم علم جو ان کے ہاتھوں میں تھا، ممتاز مفتی کا دیا بغاوت کا علم تھا۔

آپ نے بھی بہت لوگوں کو ممتاز مفتی کے الفاظ میں بولتے، اس کے انداز و خیالات کے ساتھ ادب اور عبادت پر گفتگو کرتے دیکھا ہو گا۔ ممتاز مفتی کے ساتھ ایک نسل پروان چڑھی جس نے رسموں کو توڑنے اور نئے راستوں کو دریافت کرنے کی ہمت پکڑی۔ عقل و شعور اور روایتی داستانوں سے ہٹ کر ممتاز مفتی کا سا باغی اپنی مرضی اور انداز کے عشق کی بانسری لیے لبیک کی پکار کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے۔ تو دانش اور دانش کدوں کو للکارتا ہوا، روایتوں اور رسموں کا باغی ”تلاش“ کے سفر میں عقل و دانش کے موتیوں کو پرکھتا، جانچتا غارت کرتا نظر آتا ہے۔

لیکن اگر آپ ممتاز مفتی کو صرف لبیک، الکھ نگری اور تلاش کے حوالے سے جانتے ہیں تو آپ نے ممتاز مفتی کو ادھورا جانا۔ علی پور کے ایلی کو جانے سمجھے اور اس کو اپنائے بغیر آپ کی تلاش ادھوری ہے۔ مذہب اور عقل سے پہلے جنس، عورت اور اینکراینڈی ماباوں کی غلام گردشیں ممتاز مفتی کی پہچان رہ چکی تھیں۔ ارجمند ’شہزاد‘ شریف، اجمل اور سادی کے پڑھائے ہوئے اسباق پڑھتے آپ ایلی کے ساتھ جی سکیں تو ممتاز مفتی کے سب افسانے اور نظریات آپ پر واضح ہو جاتے ہیں۔

بھائی جان، سجو اور بدو کی مشکلیں آپ کے لیے مشکلیں نہیں رہتی۔ ممتاز مفتی کے افسانوں کے سب کردار ہمارے اس پاس بسنے والے عام انسان ہیں، جن کی نفسیاتی الجھنیں ہمارے لیے تب تک پیچیدہ رہتی ہیں جب تک ممتاز مفتی کا قلم ان کو بیان نہیں کرتا۔ شعور اور لاشعور کی جھڑپیں، جنس اور محبت کے تضادات، فرائیڈ اور رسل سے لتھڑی دانش سے بھرے ممتاز مفتی کے مشکل کردار آسان زبان کے ساتھ عام فہم ہو جاتے ہیں۔ زباں کے الفاظ کس طرح اپنی ہی تردید کرتے ہیں اور انکار کی کس قدر تہوں کے اندر سے کتنا اقرار نکلے گا، محبت کے نام پر نفرت، نفرت اوڑھ کر چھپی محبت، لفظوں کی پکار میں سناٹا اور سکوت کے پردے میں گفتگو یہ ممتاز مفتی کے بیشتر افسانوں کا موضوع رہا ہے۔

سوتیلی ماؤں اور رنگین مزاج باپ کے آنگن میں چھوٹے چھوٹے محلوں کی چوگان میں پل کر جوان ہونے والا ممتاز مفتی کوئی غیر آفاقی شخصیت نہ تھا۔ عام انسانوں کی طرح خوف اور اندیشوں میں گھرا اور بچپن کی محرومیوں کی عنایت سے احساس کمتری میں ڈوبا ہوا ایک عام سا شخص تھا۔ چھتی گلی، چوگان اور ڈیوڑھیوں کی غلام گردشوں میں پلنے بڑھنے والا ممتاز مفتی چھوٹی عمر سے ہی شخصیت سازی کی پیچیدگیوں میں الجھ کر رہ گیا تھا۔ باپ کی رنگین مزاجی، ماں کی محرومی اور اپنی اور بہن کی بے اوقاتی پر کڑھنے والا ممتازمفتی، ایلی کی صورت میں باپ کی عیاش طبیعت سے باغی ہو گیا۔

نتیجتاً فطری میلان اور قدرتی تبدیلیوں سے اس کے دل میں خوف نے جنم لیا۔ ماحول میں عیش پرستی کی بہتات نے مفتی کا مزاج پراگندہ کر کے اسے انتہاؤں کے بیچ پھنسا کر رکھ دیا۔ اور وہ ایسا پھنسا کہ آخر اپنی شخصیت کی گنجھلوں کو کھولنے کے لیے ناول کے عنوان میں چھپا کر کتھارسس کی خاطر آپ بیتی لکھنی پڑی اور ایلی کے پردے میں ممتاز کو عیاں کرنا پڑا۔ دل میں کسی زخم کی طرح چھپا کر رکھا جانے والا ماضی جب کتاب کی شکل میں شہرت کی حدوں کو چھونے لگا۔ تو ممتاز مفتی میں یہ حوصلہ پیدا ہوا کہ سر اٹھا کر اپنی زندگی کی کہانی کے سرورق پر اپنا نام لکھ کر اپنا سکے

علی پور کا ایلی وہ شاہکار کتاب ہے جو ہار کر جیت گئی۔ آدم جی ایوارڈ نہ پا سکی مگر آدم جی ایوارڈ کا نام آج تک اس کتاب کے ساتھ جڑا ہے کہ اس کی شہرت اس ایوارڈ کا نہ ملنا ٹھہری۔ سارے حلقے اس نا انصافی کے خلاف اس طرح کھڑے ہو گیے کہ ایوارڈ کہ شہرت سمٹ کر ایلی کے دامن میں سما گئی۔ سالوں تک شعور اور لاشعور کی جنگ میں پھنسے ایلی کے ساتھ زندگی گزارتے ممتاز مفتی کی زندگی کا ایک دوسرا درخ لازم تھا۔ ایک انتہا دوسری انتہا کو جنم دیتی ہے۔

سو مفتی صاحب کا اینکراینڈی ماباوں آخر اسے کھینچ کر مصلے پر لے آیا۔ کھو جانے کے بعد تلاش کرنا ایک ضروری امر ہے۔ مفتی صاحب بھی خود اپنی تلاش میں نکلے۔ دنیا سے جی بھرا تو رب کی طرف متوجہ ہوئے۔ آنکھوں کو نظارے کی عادت رہی سو یہاں بھی نظارہ خوب کیا۔ بت پرستی اور محبوب کے چرنوں سے لپٹنے کی پرانی عادت تھی سو اس کام کے لیے بھی کالا کوٹھا ڈھونڈا گیا۔ اس طرح ایک انتہا کے بعد دوسری انتہا، لبیک، الکھ نگری اور تلاش کی صورت میں سامنے آئی۔

اپنے والد صاحب سے ملی محرومیاں اپنی اولاد کو نہ دینے کی قسم کھاتے مفتی اگر خود اپنے باپ سے میلوں کے فاصلے پر تھے تو دوسری انتہا پر جاتے اپنے ہی بیٹے کو دوست بنا بیٹھے۔ باپ جیسی شہرت سے نفرت کرتے، اسی سے محبت کرتے رہے۔ ماں کو محروم اور اولاد کو متنفر کرنے والی جنس سے محبت بھری نفرت کا سلسلہ طویل عرصے تک جاری رہا۔ فطری تقاضوں کو گناہ سمجھنا اور ان سے بچنے کی کوشش میں ان کی طرف لپکنا جاری رہا۔

ممتاز مفتی نے ایلی کے روپ میں، افسانوں کے کرداروں میں چھپ کر، تخلیق کے سفر میں اپنے قارئین سے ایسی محبت بھری سرگوشیاں کیں کہ پڑھنے والے اسے اپنا ان داتا مان بیٹھے۔ لوگ ممتاز مفتی سے اپنی مشکلات کے حل کے لیے رجوع کرنے لگے۔ کسی کو ذہنی الجھنوں نے ستایا یا کوئی دنیا کے ہاتھوں زخم کھا کر آیا، ممتاز مفتی نے اپنا در ہر کسی کے لیے کھول رکھا تھا۔ کوئی پیر سمجھتا اور کوئی استاد، کوئی دوست اور کوئی بابا رشتہ ہر ایک کے ساتھ بنا رکھا تھا۔

مفتی صاحب کے کرداروں اور کہانیوں کی عالمگیریت تھی کہ لوگ ممتاز مفتی کو کئی حوالوں سے چاہنے پر مجبور تھے۔ کسی کو عشق حقیقی کی چاہ تھی، کوئی جنس کے کاروبار میں مگن تھا، کسی سے آنکھوں کے اشارے نہ سمجھے جاتے اور کسی کے دل کا غم نہ جاتا، ممتاز مفتی صاحب کی حکمت میں سب کے لیے شفا تھی۔ ہر طرح کے قارئین کو دینے کے لیے ممتاز مفتی کے پاس بڑا کھلا دل اور اس سے بھی بڑا ظرف تھا۔ یہ بھی ایک وجہ تھی کہ مفتی صاحب کے انتقال پر پر نجانے کہاں کہاں سے انجان لوگ دھاڑیں مار تے پہنچے۔ بیٹے عکسی مفتی کو دلاسا لینے کی بجائے لوگوں کو دلاسے دینے پڑے۔ یہ ایسے رشتے تھے جو مادی ضرورتوں سے ماورا تھے۔ تھپکیوں، تسلیوں اور الفاظ کی فیاضی سے جیتے گئے یہ سب رشتے ممتاز مفتی کا اثاثہ بھی تھے اور ان کی وراثت بھی جس کو عکسی مفتی نے قبول کیا۔

ممتاز مفتی کے الفاظ اور کردار آج بھی ہمارے درمیاں اسی طرح زندہ ہیں۔ ان کی سادہ زبان نے ان کی تخلیقات کو لمبی عمر عطا کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب اردو کا قحط سا پڑتا جا رہا ہے پڑھنے کے شوقین خواہ جواں ہوں یا بوڑھے متاز مفتی کے ویسے ہی دلدادہ ہیں جیسے لوگ دہائیوں پہلے ان کے عروج میں تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).