آپریشن جبرالٹر سے سیز فائر تک


یہ بات 1965 کی ہے۔ 1965 کے آغاز میں متنازع صدارتی انتخاب ہوئے جس میں ایوب خان کامیاب ہوئے اور مادر ملت فاطمہ جناح کو شکست ہوئی۔ کچھ دنوں کے ہنگامے کے بعد حالات معمول پر آنے لگے۔ اب اپریل 1965 ہے۔ سر کریک پر پاکستان اور بھارت کا تنازعہ تھا اور ادھر دونوں ملکوں میں جھڑپیں شروع ہو گئیں۔ پاکستان نے رن آف کچھ کے علاقے میں پیش قدمی کی اور بھارتی پسپائی ہوئی۔ پھر برطانوی وزیر اعظم اور دیگر عالمی رہنماؤں نے دونوں ملکوں کو جھڑپیں روکنے کا کہا اور اس تنازعے کے لئے عالمی ٹربیونل بنوا دیا۔ 9100 مربع کلومیٹر کے علاقے میں سے صرف 910 مربع کلو میٹر کا حصہ 1968 میں ٹربیونل کے فیصلے سے ہمارے حصے آیا۔

پاکستانی حکومت نے رن آف کچھ میں کامیابی کے بعد سمجھا کہ بھارتی فوج کمزور ہے اور ہم مقبوضہ کشمیر میں در اندازی کر کے قبضہ کریں گے اور بھارت کو مذاکر ات کے لئے مجبور کروا لیں گے۔ ویسے بھی بھارت 1962 میں چین سے جنگ کے بعد ایک کمزور پوزیشن میں تھا۔ حالانکہ اس وقت چین نے پاکستان کو حملہ کرنے کا کہا تھا مگر جب صدر ایوب خان نے امریکی صدر کینیڈی سے بات کی تو انہوں نے منع کر دیا تو پاکستان نے 1962 میں حملہ نہیں کیا۔

یہ جولائی 1965 کی بات ہے۔ آپریشن جبرالٹر پلان کیا گیا کہ 5000 فوجی سادہ کپڑوں میں مقبوضہ کمشیر میں دراندازی کر کے وہاں کشمیری عوام کو ساتھ ملا کر بھارتی حکومت کے خلاف بغاوت کرے گی۔ اس کے بعد پاکستانی فوج سیز فائر لائن کراس کر کے مقبوضہ کشمیر میں قبضہ کر لیں گے۔ اس وقت حکومت کو اس پلان کی سو فیصد کامیابی کا یقین تھا۔ تب بات ہوئی کہ اگر بھارت نے جوابی کارروائی کی تو؟ مگر تب وزیر خارجہ بھٹو صاحب اور دیگر نے کہا مقبوضہ کمشیر متنازعہ علاقہ ہے۔ اسی لئے بھارت عالمی سرحد عبور نہیں کرے گا۔

5 اگست 1965 کو آپریشن جبرالٹر شروع ہوا۔ فوجی سادہ کپڑوں میں سیز فائر لائن عبور کر گئے۔ مگر وہ نا تو بغاوت کر سکے بلکہ وہ گرفتار ہو گئے۔ بھارت کو اس بات کی اطلاع ملی تو انہوں نے آزاد کشمیر میں حاجی پیر پر قبضہ کر لیا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے آپریشن گرینڈ سلام کرنے کا فیصلہ کیا۔ پلان یہ تھا کہ پاکستانی فوج سیالکوٹ سے جموں سیکٹر میں واقع اکھنور پر قبضہ کر لیں گے۔ اکھنور بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے لئے سارا اسلحہ اور بارود اکھنور میں تھا۔

پاکستان بھارتی فوج کی سپلائی لائن کاٹ دے گی اور یوں بھارت ہم سے بات کرے گا۔ میجر جنرل تجمل حسین ملک آپریشن کے روح رواں تھے۔ آپریشن گرینڈ سلام بھارت کے لئے ایک سرپرائز تھا۔ پاکستان کی پیش قدمی جاری تھی مگر صدر ایوب نے یحییی خان کو اس آپریشن کی کمانڈ سونپ دی۔ اس وجہ سے 24 گھنٹے آپریشن رک گیا۔ بھارت نے اور فوجی دستے بلا لیے اور پھر آپریشن گرینڈ سلام ناکام ہو گیا۔

پاکستان کو امید تھی بھارت عالمی سرحد عبور نہیں کرے گا۔ حالانکہ 4 ستمبر کو بھارت میں ہائی کمشنر نے اطلاع اسلام آباد بھجوائی کہ بھارت 6 کو لاہور پر حملہ کرے گا۔ مگر حکومت نے اسے سنجیدہ ہی نہیں لیا۔ 6 ستمبر 1965 کو صبح ساڑھے پانچ بجے بھارت نے عالمی سرحد عبور کر کے لاہور پر حملہ کر دیا۔ یہ پاکستان کے لئے سرپرائز تھا۔ پاکستان نے تو تیاری ہی نہیں کی تھی۔ بھارت نے برکی پر قبضہ کر لیا۔ اب آگے پیش قدمی کے لئے بی آر بی نہر عبور کرنی تھی۔ یہاں پاکستانی فوجی آ گئے اور انہوں نے دفاع کیا۔ میجر عزیز بھٹی کی جرات کو کون بھلا سکتا ہے۔ 17 دن بھارت بی آر بی نہر عبور نہیں کر سکا اور بھارت کا لاہور پر قبضہ کرنے کی کوشش ناکام ہو گئی۔

اس کے بعد بھارت نے قصور اور سیالکوٹ سیکٹر پر حملہ کیا۔ چونڈہ کے مقام پر دوسری جنگ عظیم کے بعد ٹینکوں کی لڑائی ہوئی۔ یہ چونڈہ کے محاذ پرجوانوں نے اپنے جسموں کے ساتھ بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کو تباہ کیا اور جام شہادت نوش فرمایا۔ قصور پر فیروز پور کی برف سے حملہ ہوا۔ مگر وہ دفاع بھی ہم نے کیا۔

کشمیر میں اکھنور اور دیگر علاقوں کے اوپر پیش قدمی نہیں کر سکے۔ ہم نے صرف چمب اور جوڑیاں سیکٹر میں کامیابی حاصل کی۔ لاہور سے ہم نے کھیم کرن پر قبضہ کر لیا۔ امرتسر اور جالندھر پر حملہ نہیں کر سکے کیونکہ مادھوپور نہر میں بھارت نے شگاف ڈال دیا اور ہم آگے پیش قدمی نا کر سکے اور کھیم کرن میں ہمارے کئی ٹینک تباہ ہو گئے۔

پاکستان فضائیہ کے لئے یہ ایک اہم وقت تھا۔ انہیں تو نا آپریشن جبرالٹر کا علم تھا اور نا ہی آپریشن گرینڈ سلام کا۔ مگر فضائیہ ہائی الرٹ تھی اور جس طرح پاکستانی فضائیہ نے بھارت پر فضائی برتری کی کم وسائل کے باوجود وہ ایک ناقابل فراموش کامیابی ہے۔ بحر میں کوئی جنگ لڑنے کا پروگرام نا تھا مگر ہم نے آپریشن دوارکا کیا اور وہاں بھارتی نیول بیس تباہ کردی۔ اگر دیکھا جائے تو ویسے اس کی ضرورت نہیں تھی مگر کیا گیا۔

جنگ چلتی رہی مگر اب عالمی طاقتیں کود ہڑیں۔ امریکہ نے اسلحہ دینے سے انکار کر دیا۔ سوویت یونین بھارت کی حمایت میں آ گیا۔ ہم نے چین سے مدد لی اور اسلامی دنیا نے ہماری مدد کی۔ مگر اب دونوں ممالک کے پاس اسلحہ کم ہوتا جا رہا تھا۔ پاکستان اگر جنگ اور چلتی تو 3 ہفتوں بعد اسلحہ ختم ہو جانا تھا۔ دونوں ملک کچھ نہیں کر سکے۔ بھارت نے راجستھان کی طرف سے سندھ پر حملہ کر کیا مگر ناکام رہا۔ مناباؤ پر ہم نے قبضہ کر لیا۔ مگر اختتام تک بھارت نے کمشیر سیکٹر میں کئی علاقے فتح کر لیے۔

پاکستان کو امید تھی کہ چین بھی لداخ سے حملہ کرے گا مگر ایسا نا ہو سکا۔ پھر سلامتی کونسل میں جب معاملہ آیا تو پھر 22 ستمبر کو دونوں ممالک نے سیز فائر پر اکتفا کیا اور 23 ستمبر کو جنگ بندی ہوگئی۔

اس جنگ کی ایک بات یہ اہم تھی کہ بھارت نے مغربی سرحد پر حملہ کیا مشرقی سرحد پر نہیں۔ اگر وہ 1965 میں حملہ کر دیتا تو شاید تب ہی ہم ہار جاتے کیونکہ وہاں کوئی ڈویژن یا آرمڈ بریگیڈ نہیں تھی اور صرف 16 جہاز مشرقی پاکستان میں تھے۔ اسلام آباد میں خیال تھا کہ مغربی پاکستان میں فوج رکھو کیونکہ مغربی حصے سے ہی مشرقی حصے کا دفاع ممکن ہے۔ یہ خام خیالی 1971 میں بڑی بھیانک طریقے سے غلط ثابت ہوئی۔

اس جنگ کا نتیجہ یہ ہوا کہ کشمیر پر تو قبضہ کرنے کا پلان ناکام ہوا۔ جب تاشکنت معاہدہ ہوا تو واپس فوجیں 5 اگست 1965 کی پوزیشن پر آ گئی۔ صدر ایوب نے معاہدے پر دستخط کردیے۔ اس پر وزیر خارجہ بھٹو صاحب مستعفی ہوئے اور پھر پیپلز پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ جنگ کا معیشت پر بہت نقصان ہوا۔ دوسرے پانچ سالہ منصوبے کی کامیابی ریورس ہو گئی۔ تیسرا پانچ سالہ معاشی منصوبہ مکمل ناکام ہوا۔ یہ جنگ کوئی نہیں جیتا۔ پاکستان نے اپنا کامیاب دفاع کیا۔ اور اسی لئے تو 6 ستمبر کو یوم دفاع مناتے ہیں کیونکہ ہم نے کامیاب دفاع کیا۔

قوم کا جذبہ قابل دید تھا۔ پوری قوم یک جان ہو کر لڑی۔ جوش و جذبہ دیدنی تھا اور مل کر اس مشکل وقت سے نکلے۔ لاہور کے رہائشی تو گھروں کی چھتوں پر کھڑے ہو کر فضا میں فضائی مقابلہ دیکھتے۔ اسی لئے تو لاہور کو زندہ دلان لاہور کہا جاتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ 1965 میں آپریشن جبرالٹر کی ناکامی کے صورت میں کوئی متبادل پلان ہی نہیں تھا۔ ناکامی کو پلاننگ کے دوران خاطر خواہ میں ہی نہیں لایا گیا۔ تینوں افواج میں آپس میں ربط نہیں تھا۔ پاکستان نے یہ سوچا ہی نہیں کہ بھارت عالمی سرحد عبور کرے گا۔ مگر وہ عالمی سرحد عبور کر گیا اور ہم نے اس کا دفاع کیا۔ بھارت نے تین شہروں پر حملہ کر کے ہمیں کشمیر سے نکال کر سیالکوٹ، لاہور اور قصور کے دفاع پر لگا دیا اور جو کشمیر میں گھسنے کی کوشش ناکام ہوگئی۔ اس کے بعد 1999 میں بھی کارگل کی دفعہ ایسے ہی پلاننگ کی گئی اور اس کا نقصان بھی سوچ سے بہت زیادہ ہوا۔

درخواست یہ ہے کہ خدارا قوم کو جنگ 65 کے بارے میں اصل حقائق بتائیں۔ وہ مطالعہ پاکستان والے حقائق نا بتائیں۔ ایئر مارشل نور خان کا بیان سن لیں جو انہوں نے کہا کہ بھارت کو لاہور پر حملہ کرنے کا موقع پاکستان نے مہیا کیا اور پھر کشمیر سے وہ ہمیں نکالنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسی لئے یہ اہم ہے کہ ہم 65، 71 اور کارگل کی غلطیوں سے سبق سیکھیں۔

اس وقت کی اہم ضرورت ہے کہ فوج اور عوام میں رشتہ مضبوط ہو مگر اب اس ملک میں تمام اداروں کو آئینی حدود کے تحت کام کرنا ہوگا۔ اپنے آئینی حدود سے تجاوز نا کریں۔ اور مضبوط معیشت سے ہی مضبوط دفاع ممکن ہے۔ اور پوری قوم اس دھرتی ماں پر قربان ہونے والوں کی قربانیوں پر فخر کرتے ہیں اور ان کے لہو کے مقروض ہیں۔ اللہ تمام شہدائے وطن کے درجات بلند فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).