کورونا وائرس: کیا عقیدے اور دعا کی طاقت نے پاکستان کو کورونا سے محفوظ رکھا؟


خیبر پاس

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے دو گھنٹے کی مسافت پر واقع چھوٹا سا شہر منگھا پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ ہے۔ کئی دہائیوں کی پُرتشدد انتہا پسندی کے بعد اب یہ علاقہ نسبتاً پُرامن ہے۔

موٹر وے کی وجہ سے اب منگھا جانا کافی آسان ہے۔ ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد جب گاڑی موٹر وے سے اتری تو ہرے بھرے کھیت سامنے تھے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ چھوٹی چھوٹی سی دکانیں ہیں جن کے باہر بچے کھیل رہے ہیں۔

چائے کے ڈھابوں پر پگڑیاں پہنے باریش مرد بغیر کسی ماسک اور سماجی فاصلے کے بیٹھے نظر آئے۔ لیکن منگھا تک راستے میں کوئی بھی خاتون دکھائی نہیں دی۔

رواں برس فروری میں منگھا کے رہائشی 55 سالہ سعادت خان عمرے پر گئے تھے۔ وہ کورونا وائرس کی وجہ سے سعودی عرب کی سرحدیں بند ہونے سے پہلے وہاں عمرے کی ادائیگی کے لیے داخل ہونے والے عازمین کے آخری گروپس میں شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیے

پاکستان کی نوجوان آبادی کورونا کے بدترین اثرات سے بچاؤ کی اہم وجہ ہے؟

کیا پاکستان میں کورونا وائرس کے اعداد و شمار قابل بھروسہ ہیں؟

پاکستان میں سکول کھلنے پر کیا احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں گی؟

تین ہفتے سعودی عرب میں گزارنے کے بعد نو مارچ کو سعادت خان اسلام آباد واپس پہنچے تو خاندان کے لگ بھگ ایک درجن افراد اُن کا استقبال کرنے کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔

میں سعادت خان کے بیٹے نواز خان سے ملاقات کے لیے منگھا آئی ہوں۔ نواز اپنے والد کے انتقال کے بعد ان کی فارمیسی چلا رہے ہیں۔

نواز خان

نواز خان: میرا چھوٹا بھتیجا اُن کی گود میں بیٹھا تھا، میرے والد ٹھیک ٹھاک تھے بس انھیں ہلکا سا بخار اور فلو تھا

سعادت خان کے بیٹے نواز خان نے بتایا کہ ایئرپورٹ سے واپسی پر وہ کار چلا رہے تھے اور اُن کے والد سامنے کی سیٹ پر اُن کے ساتھ ہی بیٹھے تھے۔

’میرا چھوٹا بھتیجا اُن کی گود میں بیٹھا تھا، میرے والد ٹھیک ٹھاک تھے بس انھیں ہلکا سا بخار اور فلو تھا۔ لیکن جو شخص بھی حج یا عمرے سے واپس آتا ہے عام طور پر اُن میں یہ علامات ہوتی ہیں۔‘

گھر پہنچنے پر سعادت خان کی اہلیہ، بیٹیوں اور پوتیوں سمیت دیگر افراد نے اُن کا استقبال کیا۔ عمرہ کرنے کی خوشی میں چند روز بعد سعات خان نے اپنے گھر پر ضرورت مندوں اور رشتےداروں کے لیے ایک بڑی دعوت کا اہتمام کیا جس میں منگھا اور نواحی علاقے کے لگ بھگ ایک ہزار افراد نے شرکت کی۔

کورونا سے موت شہادت

گیارہ روز بعد سعادت خان کا انتقال ہوگیا۔ اور اُن کی موت کے بعد اُن میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔ سعادت خان پاکستان میں کورونا کے ہاتھوں جان کی بازی ہارنے والے پہلے شخص تھے۔

اُن کی وفات کے بعد ان کے خاندان کے افراد کے کیے گئے 46 ٹیسٹوں میں سے 39 مثبت آئے۔ نواز، ان کی والدہ، اہلیہ ، بہنیں اور یہاں تک کہ اُن کے بچوں میں بھی کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی۔

حکام خوفزدہ ہوگئے اور منگا کی ناکہ بندی کر دی گئی اور متاثرہ علاقے کے اِردگرد پولیس چیک پوسٹس قائم کر دی گئیں اور فوج کے دستے سڑکوں پر گشت کرنے لگے۔

نواز خان کا گھر

سعادت خان کا گھر

نواز خان نے وہ کمرہ دکھایا جہاں اُن کے والد نے اپنے آخری دن گزارے تھے۔

سادہ سے کمرے میں صرف ایک لکڑی کا پلنگ اور میز رکھی تھی جس کے اوپر دیوار پر اللہ اور پیغمبر اسلام کے نام لکھے تھے، جبکہ ایک دوسرے کونے میں جائے نماز بچھی تھی۔

نواز نے بتایا کہ ’میرے والد بہت ہی مذہبی آدمی تھے۔ انھوں نے ساری زندگی اِسی جائے نماز پر گزاری۔ اُن کا ایمان مضبوط تھا اور وہ موت سے خوفزدہ نہیں تھے۔‘

نواز خان کے مطابق اُن کے والد کی ہمیشہ خواہش تھی کہ وہ حج کے دوران وفات پا سکیں تاکہ وہ سعودی عرب کی مقدس سرزمین میں دفن ہو سکیں۔

’میرے والد شہید ہیں۔ ہم بس اس بات پر شکرگزار ہیں کہ وہ واپس پاکستان آئے اور ہم ان سے انتقال سے پہلے ملاقات کر سکے۔‘

نواز کو اس بات کا کوئی افسوس نہیں ہے کہ اس کے والد کورونا وبا کے دوران مکہ گئے اور اس سفر کی قیمت انھیں اپنی جان سے چکانی پڑی۔ نواز اس بات پر مطمئن ہیں کہ ان کے والد اپنے آخری سفر (وفات سے قبل) پر جانے سے پہلے گناہوں سے آزاد تھے۔

نواز کہتے ہیں کہ عمرہ کرنے والے زائرین چالیس دن تک ہر طرح کی ناپاکی سے محفوظ رہتے ہیں۔

’اگر کسی کا وقت ختم ہو جائے تو ہم کسی کی تقدیر نہیں بدل سکتے نہ ہی وقت بڑھا سکتے ہیں اور نہ ہی کسی کو واپس لاسکتے ہیں۔ میرے والد کا بس وقت ختم ہو گیا تھا۔‘

نماز

مصر کی ویڈیو

اس واقعے کے پاکستان میں مکمل لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا اور دیگر بہت سے حفاظتی اقدامات کے علاوہ مذہبی اجتماعات منعقد کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی لیکن ملک بھر میں لوگوں نے گھروں میں جمعہ پڑھنے سے انکار کر دیا۔

حکومت نے لوگوں کو سمجھانے کے لیے جامعہ الازہر اور متحدہ عرب امارات کی فتوی کونسل سے فتوے بھی جاری کروائے لیکن بے سود۔

یہی وجہ ہے کہ جب رمضان میں سعودی عرب، ایران اور ترکی جیسے مسلم ممالک نے سب سے مقدس ترین مقامات کو بند کیا، پاکستان میں مساجد کو کھلا رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔

مذہبی امور کے وزیر نورالحق قادری کہتے ہیں کہ حکومت اس معاملے پر بالکل واضح موقف رکھتی تھی کہ لوگوں کو زبردستی طاقت کا استعمال کر کے مسجدوں سے دور نہیں رکھا جائے گا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’انھی دنوں مجھے مصر سے ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں پولیس ایک امام مسجد کا پیچھا کر رہی تھی اور وہ گرفتاری سے بچنے کے لیے آگے آگے بھاگ رہے تھے۔ اُن کا جرم یہ تھا کہ انھوں نے لاک ڈاؤن کے دوران مسجد میں جمعے کی نماز کی امامت کی تھی۔‘

نورالحق قادری کہتے ہیں کہ انھوں نے وہ ویڈیو وزیراعظم عمران خان اور صدر عارف علوی کے ساتھ بھی شیئر کی۔

عید

’ہم اس معاملے پر واضح ذہن رکھتے تھے کہ ہم دینی لوگوں پر زبردستی نہیں کریں گے۔ ہم اپنی پولیس اور فوج کو لوگوں کو مسجدوں میں جانے سے روکنے کے لیے استعمال نہیں کریں گے۔ ہمارے لیے ضروری تھا کہ یہ ادارے کورونا وبا کو روکنے کے لیے استعمال کیے جائیں نا کہ اپنے لوگوں کے خلاف۔‘

عوامی اور مذہبی حلقوں کی جانب سے ردعمل دیکھتے ہوئے حکومت نے علما کے ساتھ ایک سمجھوتے پر دستخط کیے اور کچھ ایس او پیز طے کیے گئے لیکن ملک کی لاکھوں مساجد میں ان ایس او پیز کے اطلاق کے لیے نہ تو کوئی نظام تھا اور نہ ہی ان کی خلاف ورزی پر سزا جزا کا کوئی اطلاق۔

رمضان کے بعد پاکستان میں کورونا وائرس کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی۔

دعا اور عقیدے کی طاقت

سعادت کی وفات کے بعد سے پاکستان میں چار بڑے مذہبی تہوار منائے جا چکے ہیں جن میں محرم بھی شامل ہے۔

گل زہرہ رضوی محرم کی مجالس میں رضاکار کے طور پر خدمات سرانجام دیتی ہیں تاکہ اجتماعات کے دوران سکیورٹی اور سماجی دوری کو یقینی بنایا جا سکے۔ وہ کہتی ہیں کہ جب بات ایمان کی ہو تو پاکستان میں لوگ منطق سے زیادہ جذبات کی سنتے ہیں۔

انھوں نے وضاحت کی کہ کورونا وبا کی وجہ سے اس بار مجالس پہلے سے محدود ہیں۔ لیکن گل زہرہ کے مطابق محرم کی روایتوں کا تقاضا گھر بیٹھ کر پورا نہیں ہو سکتا، اگرچہ رواں برس لوگ گھروں میں رہ کر اپنے خاندانوں کی حد تک عزاداری کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں، لیکن تنہا بیٹھ کر کربلا کے بارے میں سوچنے یا سننے سے مقصد پورا نہیں ہوتا۔

مجلس

وہ کہتی ہیں کہ ’کربلا کی لڑائی جو کہ حق اور باطل کی لڑائی تھی جوظالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی علامت ہے اس کو اجتماعات کے ذریعے ہی زندہ رکھا جا سکتا ہے۔‘

گل زہرہ سمجھتی ہیں کہ آزمائش کی اس گھڑی میں مذہب طاقت کا ایک ذریعہ ہے۔

’امام حسین کا نام معاشی اور معاشرتی بحران میں لوگوں کے لیے امید کی کرن ہے۔ اب جبکہ لوگ خود کو تنہا سمجھ رہے ہیں امام حسین کا نام لوگوں کو یقین دیتا ہے کہ صورتحال کتنی ہی تاریک کیوں نہ ہو روشنی ضرور ہو گی۔‘

نواز خان اور گل زہرہ کی طرح پاکستان میں ایک بڑی اکثریت کا ماننا ہے کہ وبا کے دوران مذہب ان کے لیے مضبوطی کا باعث ہے اور اس بحران میں مذہبی اجتماعات اور عبادات پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہیں۔

لیکن دنیا کے لیے حیران ُکن یہ امر بھی ہے کہ لوگوں کی لاپرواہی اور حکومت کی نرمی کے باوجود پاکستان میں کورونا کا پھیلاو کافی محدود رہا۔

دنیا یہ پتا لگانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ایسا کیونکر ممکن ہوا؟ ابھی تک اس کا کوئی ٹھوس سائنسی جواز تلاش نہیں کیا جا سکا اور وبا کی نئی لہر کے بادل بھی افق پر موجود ہیں لیکن پاکستان کے لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ عقیدے اور دعا کی طاقت ہے جس نے پاکستان کو کورونا سے نسبتاً محفوظ رکھا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp