جنسی آسودگی کا خواہشمند شاعر: میرا جی


”بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ زندگی کا محض جنسی پہلو ہی میری توجہ کا واحد مرکز رہا ہے، لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے، جنسی فعل اور اس کے متعلقات کو میں قدرت کی بڑی نعمت اور زندگی کی سب سے بڑی راحت اور برکت سمجھتا ہوں، جنس کے گرد جو آلودگی تہذیب و تمدن نے جمع کر رکھی ہے، وہ مجھے ناگوار گزرتی ہے، اس لئے رد عمل کے طور پر میں دنیا کی ہر بات کو جنس کے تصور کے آئینہ میں دیکھتا ہوں، جو فطرت کے عین مطابق ہے، اور میرا آدرش ہے“

مذکورہ بیان سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ میراجی کا تصور جنس تہذیب و تمدن کی، کھوکھلی، عارضی اور غیر ضروری روایات کے خلاف ضرور ہے، مگر فطرت کے عین مطابق ہے۔ دوسرا یہ کہ میراجی کی شاعری مکمل طور پر جنس کی ترجمان نہیں ہے، اس لئے میراجی کی فنکارانہ اور غیر معمولی شخصیت کے متعلق، تصور قائم کر لینا کہ میراجیؔ صرف جنس کے شاعر ہیں، بالکل غلط ہے، انہوں نے انسان کی زندگی کے دوسرے گوشوں کو بھی اپنے مشاہدے کے آئینہ میں دیکھا ہے اور پھر تخلیقی تجربہ کا حصہ بنایا ہے، یہ ضرور ہے کہ میراجی کا جنس اور نفسیاتی الجھنوں کے متعلق بیشتر کلام ان کے ابتدائی تخلیقی سفرکی میراث ہے، غالباًاسی وجہ سے ابتداء میں تفہیم کی آسانی کے لئے جنس کے متعلق ان کا نظریہ بعض نظموں میں ابہام اور علامتی پیرائے میں نظم نہیں ہوا ہے، بلکہ اس طرح کی نظموں میں ان کا طرز بیان بالکل سادہ اور خطابیہ ہے، یہ مثالیں دیکھئے

1 انداز نظر کی الجھن کو تم شرم و حیاکو کیوں کہتے ہو

جنسی چاہت کی برکت کو ملعون خدا کیوں کہتے ہو

فعلوں کے نشے میں بہتے ہو جب آشائیں اکساتیں ہیں

اور بن جاتے ہو تنگ نظر لفظوں کی جو بحثیں آتی ہیں

”اے ریاکارو“

2 جنسی عکس خیالوں کا

چاند رات میں ڈالوں گا

ان آنکھوں کی جھیلوں میں!

جنسی خلوت جسموں کی

مرد عورت کی قسموں کی

دیکھوں گا دکھلاؤں گا

”جنسی عکس خیالوں کا“

مگر مذکورہ مثالوں کی تعداد بہت کم ہے، کیونکہ میراجی کی شعری کائنات کی علامتی فضا میں تصور / خواب/ خیال/ اور یاد کا جال پھیلا ہوا ہے میراجی کے ناقدین اور ادیب خصوصاً جمیل جالبی، رشید امجد، وزیر آغا اور سلیم احمد سبھی اس بات سے متفق بھی ہیں کہ میراجی کی شاعری میں جنس کا پہلو محض اکہری شکل میں عیاں نہیں ہوتا، اور اس کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے میراجی تکمیل آرزو کا احساس بھی نہیں ہونے دیتے، ان کی خواہش اس طرح سے نامکمل رہ جاتی ہے کہ جیسے ابھی آگے کچھ اور ہونا باقی ہے۔ بعض جگہ میراجی تکمیل وصال کے ارادہ کو ہی نظم کے ابتداء سے اختتام تک دہراتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ مثلاًیہ مثالیں دیکھئے۔

1 آج رات/ مرادل چاہتا ہے تو بھی میرے پاس ہو/ اور سوئیں ساتھ ساتھ/۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ / آبھی جا/

2 لے گھٹائیں آ رہی ہیں بے نشاں رفتار سے / اور ان کالی گھٹاؤں میں ہے سرمستی خمار/ اور پانی کے تار/ تو بھی آ/ مل کے ہم/ آج رات / گاہی لیں چاہت کا گیت / جسم بھی تیرا مجھے مرغوب ہے / اور تیری پرا ہر ادا اور یہ چہرہ ترا/ محبوب ہے ) سرگوشیاں (

3 ارادہ ہے کہ لے کر آج ان جذبوں کو میں تاریک غاروں / میں بنوں گا ہم سفر تیرا/ چل آ رنگیں کہانی کو / شروع عشق کی منزل سے لے بھاگیں / وہاں پر مل کے پہنچادیں / جہاں ہے گوہر مقصود پوشیدہ نگاہوں سے / سہانی گرم آہوں میں (سنگ آستان)

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments