جنسی آسودگی کا خواہشمند شاعر: میرا جی


مذکورہ مثالیں اس اعتبار سے بھی لائق توجہ ہیں کہ ان میں عورت کی حیثیت مرکزی ہے، میراجی اس کی جسمانی خوبصورتی کو بیان کرتے ہیں، اس کے جسم کے حصول کے بھی آرزو مند ہیں، اس کے باوجود کہیں بھی زبان اور طرز اظہار میں فحش گوئی کا احساس نہیں ہونے دیتے، یہاں تک کے وہ جب طوائف کے قریب بھی ہوتے ہیں، مثلاً یہ بند دیکھئے جس میں میراجی نے طوائف کو پیشہ ور کے طور پیش کیا ہے، یہاں بھی دیگر نظموں کی طرح جنسی خواہش کی تکمیل کا ارادہ نظم کا موضوع بنا ہے۔

ایک ہی پل کے لئے پاس آؤ/ لیکن افسوس مجھے عمر کا ہی ساتھ پسند آتا ہے / جانی پہچانی کسی بات سے رغبت ہی نہیں تم کو/ تمہیں ہر راہ میں انجان ملا کرتے ہیں / کیا نگاہوں میں تمہاری آکاش/ کوئی تاریک نہاں خانہ ہے / جس کی تاریکی میں اک پل کے لئے / چاند ستارے بادل/ ایسے آتے ہیں، چلے جاتے ہیں /

”دوسری عورت سے“

مذکورہ بند یک طرفہ مکالمے کی شکل میں ہے، شاعر نے لفظوں کی دروبست اور مصرعوں کی ترتیب سے جو فضا قائم کی ہے، اس میں ”تمہیں“ لفظ ہی نہیں بلکہ اس سے وابستہ پورے مصرعہ ”تمہیں ہر راہ میں انجان ملا کرتے ہیں“ سے یہ مفہوم بالکل صاف ہو جاتا ہے کہ شاعر اپنے مخاطب سے اس وقت بہت قریب ہے، اور یہ مخاطب ایک طوائف ہے، علاوہ ازیں مخاطب میں طوائف کی زندگی کے علاوہ اس کا نظریہ جنس بھی شاعر نے نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے، نظم کا آخری بند ملاحظہ کیجئے۔

اور یہ پل بھی چلا جائے گا

پیرہن سچ پہ رکھ دو در استادہ سے باہر آؤ

اک گھڑی درد کے تاریک نہاں خانے میں

تم سے مل کر ہی بسر کر لوں گا

میں تمہیں چاند سمجھ لوں گا لچکتا ہوا چاند

اور پھر دل کو یہ سمجھاؤں گا

تو بادل ہے

ایک ہی پل کو برستا بادل

تجھے اک پل میں برستے ہوئے مٹ جانا ہے

” دوسری عورت سے“

صرف نظم کا عنوان ہی نہیں نظم میں برتے گئے استعارے بھی نظم کی تفہیم کو مشکل نہیں بناتے۔ مثلاً چاند میراجی کے یہاں محبت کے استعارے کے طور پر بہ کثرت استعمال ہوا ہے لیکن مذکورہ بند میں طوائف کو صرف چاند ہی نہیں، بلکہ لچکتا ہوا چاند قرار دیا ہے، شاید شاعر کے نزدیک لچک کردار کی ملاحیت اور پیشہ کے اعتبار سے جھکنے کی علامت بھی ہے، جبکہ بند میں دوسرا استعارہ ”برستا بادل“ ہے، وہ بھی ایسا بادل جس کے برسنے کا مقدر فطری اور دائمی نہیں، بلکہ پل بھر کے لئے برسنا ہے اور پھر مٹ جانا ہے، یعنی کے شاعر کے نزدیک طوائف سے تعلق کی حیات صرف پل بھر کی ہے، وہ اسی پل میں جیتی اور تعلق کے وقفہ کے خاتمے کے بعد مٹ جاتی ہے، گویا کہ وصال کے وقفہ تک ہی تعلق کی حیات ہے، بند کی فضا ڈرامائی ہے۔ لیکن یہاں بھی میراجی کی دیگر نظموں کی طرح روح اور جسم کے سنجوگ کی خواہش ہی تخلیقی تجربہ کا موضوع بنی ہے۔

میراجی نے اپنے شعری سفر کے ابتدائی دور کی نظموں کو جنسی حسیّت کی ترجمان نظمیں قرار دیا ہے، اس طرح کی نظموں میں جن کا تعلق صرف اور صرف جنس ہے۔ ان میں میراجی جنسی خواہش کی تکمیل/ روح کے وصال کی خواہش کو نظم کی شکل میں عیاں کرتے ہیں۔ یہ نظمیں چاہے میراجی کے جنسی بے راہ روی یا فطری تعلق بنانے کی خواہش کی ترجمان ہوں یا استمنابالید کی کیفیات کی عکاس، لیکن کہیں بھی یہ نظمیں دو شخصیتوں کے باہم اتصال، تکمیل وصال کے دوران کی کیفیت کو نمایاں نہیں کرتیں۔ یہ بہت دلچسپ بات ہے کہ میراجی وصال کے خواہشمند ہیں۔ بہ کثرت اس موضوع کے گرد اپنی نظمیں تخلیق کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ لیکن روح کے سنجوگ کی خواہش سے بات آگے نہیں بڑھ پاتی۔ صرف ایک نظم میں میراجی نے تخیل میں وصال کی کہانی سنائی ہے۔

1 آؤ اپنے باغی وحشی تخیل کی/ دھندلے اندھے نغموں میں / سن لو کہانی راتوں کی/ خلوت میں پھیلی تھی ہلکی ہلکی خوشبو صندل کی/ بوجھل رقصاں جھونکوں میں / بہتی تھی۔ بہتی جاتی تھی نّدی میٹھی/ باتوں کی/ شرم، جھجھک تھے کھوئے ستارے وسعت کے / سازدل/ میں تا ر ہلے تھے رغبت کے / خاموشی تھی، باتیں تھیں، پھر خاموشی تھی/ پھر باتیں / ننھے ننھے، میٹھے میٹھے لفظوں کی دل کو سہلاتی برساتیں / شیریں رنگ تھا بستر کا/ آہ! اچانک سویا نغمہ اٹھا، بھڑکتا، جھنجھلاتا/ اونچی، تیکھی، دل میں چبھتی، پار ہوئی جاتی تانیں / سازدل کے قابو سے / باہر نکلی جاتی تانیں / وقت مصور تھا/ اک پل میں رنگ ہی بدلا منظر کا/ جیسے سینہ چیرے لاوا/ اونچے ضدی پربت کا/ ( اس کے دل پہ نشہ چھائے حرکت کا/ اور دامن کی وادی کا نقشہ بدلے / میں نے دیکھا کلیا پھول بنی ویسے

”مدھوری بانی“

یہی میر اجی کے تخلیقی طریقہ کار کا امتیاز ہے کہ وہ نظم میں موضوع کی مناسبت سے جو مناظر تشکیل دیتے ہیں۔ قاری کے لئے وہی مناظر موضوع اور شاعر کے مقصود کی تفہیم میں معاون ہوتے ہیں۔ مذکورہ نظم کا خاصہ بھی یہی ہے کہ نظم کی تنظیم میں مناظر کہیں بھی اپنے غیر موزوں ہونے کا احساس نہیں کراتے۔ بلکہ مناظر کی تبدیلی کیفیت میں لمحہ بہ لمحہ آئی ہوئی تبدیلیوں کی توضیح معلوم ہوتی ہے۔ نظم میں تشبیہی اور علامتی پیکروں کی خوبصورتی لاجواب ہے۔ ابتدائی تین مصرعے کہانی سنانے کی فضا قائم کرنے میں شاعر کے معاون ہیں۔ جبکہ آخری چار مصرعوں میں نظم کے مفہوم کو مزید واضح کرنے کے لئے جو تشبیہ تراشی ہیں۔ وہ اپنی تازگی کا احساس کراتی ہیں۔ اور موضوع کے عین مطابق بھی معلوم ہوتی ہیں۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ جو فن پارے جنس اور نفسیاتی کیفیات کے ترجمان ہیں انہیں یہ کہ کر نظرانداز نہیں کر سکتے کہ یہ فحش ہیں یا کسی بیمار ذہن کی اختراع۔ ان میں مرکزی موضوع بنی جنسی خواہش یاجنسی عمل بقائے انسان کا ضامن ہے۔ یہ انسان کی ذات کا فطری اور لازمی جذبہ ہے۔ جس پہ بھلے ہی گندہ سمجھ کر تہذیب کے موٹے غلاف چڑھا دیے جائیں لیکن یہ سچہ جذبہ ہے۔ اور اس فطری حقیقت سے فنکار، ادیب یا تخلیق کار بے اعتنا نہیں ہوسکتے۔

مستبشرہ ادیب مسلم علی گڑھ یونیورسٹی میں اردو ادبیات کی استاد ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments