اپنی بیٹی کو پستول کا لائسنس لے دوں؟


گھر سے باہر تھا، بیٹی کا برقی پیغام آیا کہ ”بابا میں سو نہیں پا رہی، مجھے واپس آکے سیلف ڈیفینس کا کورس لے کر دیں یا گن کا لائسنس۔ دماغ میں بہت کچھ چل رہا ہے، یہ معاشرہ رہنے کے قابل ہے؟“ اسے جھوٹی سچی تسلی دی اور اب میری نیند اڑی ہوئی ہے۔ ٹی وی دیکھنے سے تو منع بھی کیا جاسکتا تھا۔ لیکن خبر تو ہوا کے دوش پر ٹی وی اور اخبارسے آگے بڑھ کر فون اور کمپیوٹر پر دستیاب ہے۔ انفارمیشن کا سیلاب ہے کہ بچوں سے کوئی تازہ خبر ڈسکس کرنا چاہو تو ان کو اس کے اور پہلوؤں کا بھی آپ سے زیادہ پتہ ہوتا ہے۔

یوں تو کوئی چار سال قبل پاکستان آمد کے عوامل کچھ اور تھے لیکن جس نے بھی پاکستان واپسی کا سنا، زیادہ تر کا ردعمل یہی تھا کہ بہت اچھا کیا، بچیوں کے لئے خصوصاً خالص اسلامی ماحول بہت ضروری ہے ان کی تربیت یہاں پاکستان میں ایک خالص اسلامی ماحول میں ہو گی۔

اس وقت بھی ببانگ دہل کہا تھا کہ کس اسلامی ماحول کی بات کرتے ہیں۔ جہاں تک اسلامی ماحول کی بات ہے میری بیوی یا بچی رات دو بجے بھی ڈاؤن ٹاؤن سے پبلک ٹرانسپورٹ پر گھر آ رہی ہو تو خطرہ نہیں ہوگا کہ اس کی طرف کوئی انگلی بھی کر جائے گا۔ ہاں یہ ہے کہ اپنے اسلامی ملک میں میری بیٹی یا بیوی مغرب کے بعد اکیلی شاید آبائی گاؤں کے بازار میں بھی بلاخوف نہیں نکل سکے گی۔

یہ نہیں کہ مغربی ممالک میں جرم نہیں ہوتا، ریپ نہیں ہوتے، بیمار افراد ہر معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں لیکن معاشرہ بیمار نہیں ہوتا، ادارے طنز نہیں کرتے، ایمرجنسی نمبر پر فون کرو تو آگے سے جواب نہیں آتا کہ یہ علاقہ ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں۔ کوئی سی سی پی او یہ کہہ کر جان نہیں چھڑواتا کہ یہ عورت تھی یہ اس وقت اکیلی نکلی کیوں؟ اور اگر واقعہ ہو جائے تو منطقی انجام تک پہنچانے کی کوشش ضرور کی جاتی ہے۔

یہ خاکسار ٹین ایج سے مغربی ممالک میں مقیم رہا ہے، سکول، کالج، یونیورسٹی کی منزلیں وہیں طے کیں، گوروں، کالوں اور ایشائیوں سے سنگت رہی۔ بدی اور انسان کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ کون کہتا ہے کہ مغرب میں صرف اچھائیاں ہیں اور ایسا بھی نہیں کہ ہمارے ہاں سب ہی بدی میں لتھڑے ہیں۔ بہت حد تک مغربی معاشرے کی برائیوں کو آنکھ سے دیکھ رکھا ہے اور مشرق کی اچھائیوں کو بھی۔ لیکن جہاں فرق پایا وہ یہ کہ مغرب میں قانون کے علاوہ اخلاقیات اورانسانیت کی حکمرانی ہے جرم معاشرے اور قانون کی نظر میں صرف جرم ہے۔ مجرم وزیر ہو یا ایک عام آدمی، مجرم ہوتا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عدالتیں جرم کا تعین کرتے ہیں نہ کہ اس کی حیثیت کا۔ قانون حرکت میں پہلے آتا ہے ٹی وی پر توجیحات بعد میں دیتا ہے۔

ہاں مغرب ہوتا تو اب تک قانون کے ساتھ نفسیات کے ماہرین بھی حرکت میں آچکے ہوتے اور متاثرہ ملزم کی ذہنی حالت بہتر کرنے کی کوشش کرتے۔ یہاں جس طرح کے ریپ کی خبریں ہیں، ماں تو ایک طرف ان بچوں کی نفسیات کا کیا عالم ہوگا جنہوں نے اپنے سامنے ماں کے دامن کو تار تار دیکھا ہوگا۔ لیکن یہ کوئی پہلی دفعہ تھوڑی ہے ایسی ہی ایک سڑک پر ساہیوال میں معصوم بچے اپنے ماں باپ کو لہو لہو بھی تو دیکھ چکے ہیں۔ اور ماں کے جیسی ریاست قاتلوں کو باعزت بری کرچکی ہے۔

اس ٹریفک سارجنٹ کے بچوں کی نفسیات کا بھی عجب عالم رہا ہو گا جسے ایک سیاستدان نے کیمرے کی آنکھ کے سامنے کچل ڈالا اور اندھے قانون کو سزا دینے کے لئے شواہد نہ ملے۔ اور ہاں ایک ماں کی نفسیات کا بھی عجیب عالم ہوگا جس نے اپنے مرے بیٹے کا ہاتھ چومنے کے لئے اٹھایا تو کوئی ہڈی سلامت نہ پائی تھی۔ میرے وطن ترے دامان تار تار کی خیر، ان چند واقعات پہ ہی کیا موقوف، پوری قوم کو نفسیاتی ماہرین کی ضرورت نہیں جو روز ایسے واقعات سن سن کر بے حس ہوئی جاتی ہے؟ اور ہاں میری پندرہ سالہ بیٹی کو بھی کسی نفسیاتی ماہر کی ضرورت نہیں جو ابھی سے پستول کی ضرورت محسوس کرتی ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).