سانحہ موٹر وے اور پولیس نظام!


دوران سفر خاتون کے ساتھ پیش آنے والے المناک موٹر وے سانحہ پر قوم غمزدہ ہے وزیر اعظم عمران خان کے اس واقعہ پر نوٹس کے بعد تا دم تحریر سفاک ملزمان پنجاب پولیس کی دسترس سے باہر ہیں جس معاشرے میں امتیازی رویوں اور قوانین کا راج ہو وہ معاشرے درندگی اور وحشت کی آمجگاہ بن جاتے ہیں۔ سانحہ موٹروے نے جہاں قانون نافذ کرنیوالے اداروں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھا کرسرخ دائرہ لگا دیا ہے وہیں یہ اندوہناک واقعہ معاشرے کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت بھی ہے۔

بنت حوا کے ساتھ اولاد کے سامنے ملزمان نے جس درندگی کا مظاہرہ کیا اس واقعہ کی جزئیات بیان کرنے سے یہ قلم قاصر ہے۔ متاثرہ خاتون کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعہ پر سی سی پی او لاہور عمر شیخ کا متنازع بیان تنقید اور تردید کے مراحل طے کرتا میڈیا اور عوامی حلقوں میں زیر بحث ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معاشرے میں ماوؤں ’بہنوں‘ بیٹیوں اور بچوں کی بیحرمتیوں کے واقعات جس تسلسل کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حکومتی اقدامات عملی طور پر کس حد تک مفلوج ہو چکے ہیں اس واقعہ نے انسانیت کی دھجیاں بکھیر کر رکھ دی انکوائریاں ’کمیٹیاں‘ جے آئی ٹی اور کمیشن بنانے والی طرز سیاست اور پولیس نظام کی بنیادوں میں ماوؤں ’بہنوں‘ بیٹیوں معصوم بچوں اور بچیوں کی بیحرمتی کے ذخم مدفن ہیں۔

سانحہ موٹر وے کے بعد جنوبی پنجاب کے ضلع بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ میں ایک با اثر ملزم نے گھر میں گھس کر بارہ سالہ نا بالغ بچی کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالاحکومتی اقدامات اور قوانین کا موثر نہ ہونا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ درندے کس دیدہ دلیری کے ساتھ بنت حوا کی عصمتوں کے ساتھ گھناؤنا کھیل کھیل رہے ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ ہم آئندہ نسل کو کیا ڈیلیور کر کے جا رہے ہیں دنیا اکیسویں صدی میں محو سفر ہے اور ہم ابھی تک تہتر سالوں میں اس قوم کو ایسا موثر نظام بنا کر نہیں دے سکے جس کا سایہ معاشرے کو امن و امان کی ضمانت فراہم کر سکتا ہو کسی بھی حکومت کا اس حوالے سے تعمیری کردار دیکھنے میں نہیں آیا۔

ایک جمہوری ریاست کی ذمہ داری میں یہ شامل ہے کہ وہ ایک مضبوط و مربوط نظام تشکیل دے کر معاشرے میں بسنے والے افرادکے جان و مال کی محافظ بنے۔ پنجاب میں دو سال کے دوران پانچ آئی جی تبدیل کیے گئے لیکن صد افسوس تھانہ کلچر تبدیل نہ ہو سکا عوام کو اس بات سے غرض نہیں کہ حکومت ان تقررو تبادلے کے پس پردہ کون سے اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنا رہی ہے عوام کو تو اس بات سے غرض ہے کہ حاکم وقت قانون ساز اداروں کے ذریعے ان کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے۔

تھانہ کلچر میں تبدیلی ماضی کی حکومتوں کے دعوؤں کی فہرست بھی عوام کو اچھی طرح ازبر ہے اگر ماضی کی حکومتیں اس کلچر کو تبدیل نہیں کر سکی تو تبدیلی سرکار کے دعوؤں میں بھی دم خم نظر نہیں آ رہا جس سے اندازہ ہو سکے کہ اس کلچر کو تبدیل کرنے کی بنیاد رکھ دی گئی ہے۔ محکمہ پولیس میں اچھی اور بری کارکردگی کے حامل اہلکار اور افسران موجود ہیں لیکن جہاں پولیس کی مجموعی پرفارمنس سائل کو میرٹ پر انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہو وہاں محنتی ’ایماندار اہلکاروں اور افسران کی کارکردگی بھی عوام کو اعتماد نہیں بخش سکتی۔

نئے آئی جی پنجاب انعام غنی کی تعیناتی ہوتے ہی سانحہ موٹر وے پیش آ گیا اس دلخراش واقعہ نے پوری قوم کے دلوں میں چھید کر کے رکھ دیا خواتین اور بچے بچیوں کی بیحرمتی کے واقعات کے تسلسل سے ایسا محسوس ہو رہا ہے جیسے پورے ملک کو یہ بے لگام درندے قصور بنا دیں گے یہ واقعہ نئے آئی جی اور سی سی پی او لاہور کی قابلیت و اہلیت کا پیمانہ طے کرنے کے لئے کافی ہے۔ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں درندگی اور وحشت کا ناچ اور انسانیت کا جنازہ نکل رہا ہے حوا کی بیٹی کی عزت کو اس کی اولاد کے سامنے انسان نما درندوں نے تار تار کر دیا قوم پر سوگ کی چادر تنی ہے اور پوری قوم کی آنکھیں اس لرزہ خیز واقعہ پر انصاف کی متلاشی ہیں۔

لیکن اس پولیس نظام کو سمجھنے کے لئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد کا پولیس نظام میں سیاسی مداخلت پر اٹھتا اور چبھتا سوال ہی اس نظام کو انصاف سے عاری قرار دینے کے لئے کافی ہے جو نظام شفافیت سے عاری ہو گا وہ میرٹ پر انصاف فراہم کرے دیوانے کے خواب کے مترادف ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ایک ایس ایچ او سے لے کر پولیس افسر ز کی تعیناتی تک پسند نا پسند کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے فیور ازم کو فروغ دینے والے حکمران جب اس نظام میں تبدیلی کی بات کرتے ہیں تو ان کی طرز سیاست سے روایتی سیاست کی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔

پولیس کے عمومی رویوں کے باعث پولیس اور عوام کے درمیان عدم رابطے کی ایک خلیج قائم ہے جب تک پولیس کو عوام دوست نہیں بنایا جاتا تب تک جرائم پر قابو نہیں پایا جا سکتا اور یہ حقیقت ہے پولیس میں موجود کریمنل مائنڈ کے اہلکار اور افسران موجود ہیں جن کے باعث نہ صرف محکمہ پولیس پر عوام کا عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے بلکہ محکمہ پولیس کی کارکردگی بھی شکوک و شبہات کے پلڑے میں تل رہی ہے۔ پولیس کلچر میں تبدیلی کے دعویداروں کو اس نظام کی گرہیں کھول کر ان میں اصلاحات لانی چاہیے جو ٹھوس اور عملی پیمانے پر پورا اترتی ہوں محکمہ پولیس کی کارکردگی آج بھی سوالات کی زد میں ہے جدید ٹیکنالوجی اور اختیارات سے لیس پولیس فورس کو عوام دوست بنانے میں کون سے محرکات حائل ہیں محکمہ کی استعداد کار میں اضافہ‘ فلاح و بہبود ’اصلاحات‘ امن عامہ کے قیام ’اور سائل کو بلا تعطل انصاف کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے ہر سال بجٹ میں خطیر رقم مختص کی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود پولیس کا نظام عوام کو اعتماد نہیں دے سکا۔

ماضی کی حکومتوں کی پولیس کلچر میں اصلاحات کے حوالے سے کارکردگی انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ سے عیاں ہے رپورٹ کے مطابق جنوری 2014 ء سے 2018 ء تک جتنے پولیس مقابلے ہوئے ان میں 3345 افراد کو ہلاک کیا گیا جن کی سالانہ اوسط تعداد 669 بنتی ہے یہ سوال آج بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ یہ مقابلے اصلی تھے یا جعلی۔ پولیس آرڈر 2002 کا مقصد پولیس کو جوابدہ‘ خود مختار ’پیشہ ور اور سیاسی مداخلت سے پاک بنانا تھا لیکن یہ آرڈر بھی غیر موثر ہو گیا۔

پولیس اور سیاستدانوں کے ملاپ کے باعث مظلوم سائل سے انصاف کوسوں دور ہے جب تک پولیس کے واچ اینڈ وارڈ اور انویسٹی گیشن نظام کو جدید خطوط پر استوار کر کے محکمہ پولیس کو فعال اور بھرتی کے عمل کو شفاف نہیں بنایا جاتا تب تک معاشرے میں امن و امان کے قیام کو ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ کوئی بھی فرد جس کا رشتہ جرم سے جڑا ہے وہ کسی بھی مہذب معاشرے کے لئے ناسور سے کم نہیں لیکن اس کی سزا کے لئے قانون اور عدالتی نظام موجود ہے جس پر عمل درآمد کی اشد ضرورت ہے۔ بہر حال پولیس نظام میں اصلاحات کی اینٹ درست طور پر چننے کی ضرورت ہے اگر موجودہ حکومت پولیس نظام کی درست سمت کا تعین کرنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر معاشرے میں امن و امان کے خواب کا قیام شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).