تھائی لینڈ کے شاہی خاندان کو چیلنج کرنے والی طالبہ


پنوسیا ستھجیراوتناکل کہتی ہیں کہ ’اس کا نتیجہ کیا ہو گا، اس بات کا شدید خوف میرے اندر تھا۔‘

اس کا حوالہ گذشتہ اگست کا ہے جب 21 سالہ پنوسیا تھائی لینڈ میں ایک سٹیج پر چڑھیں اور سرعام شاہی خاندان کو ایک چیلنج پیش کیا۔

تھائی لینڈ کی بہترین یونیورسٹیوں میں سے ایک کے ہزاروں طلبہ کے سامنے انھوں نے ایک دس نقاتی ایجنڈا رکھا جس میں بادشاہت کے نظام کی اصلاحات شامل تھیں۔

یہ ایک حیران کن اقدام تھا۔ تھائی لوگوں کو بچپن سے بادشاہت سے محبت سیکھائی جاتی ہے اور اس کے بارے میں بات کرتے کا خوف بھی ڈالا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تھائی لینڈ کے بادشاہ نے اپنی شاہی ساتھی کی حیثیت بحال کر دی

شہزادی کو وزیر اعظم کا امیدوار بنانے پر پارٹی ’تحلیل‘

تھائی ولی عہد تاج پوشی کے التوا کے خواہشمند

ابھی زندگی پہلے جیسی نہیں ہو سکتی‘

تھائی لینڈ ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں بادشاہت کے خلاف بات کرنے پر بھی سخت قوانین آپ کو سزا دے سکتے ہیں۔ صرف شاہی خاندان پر تنقید کرنے پر آپ کو 15 سال جیل ہو سکتی ہے۔

مگر گذشتہ چند ماہ میں جمہوریت حامی مظاہروں میں اضافہ ہوا ہے اور ان کے پیچھے پنوسیا جیسے طلبہ ہیں۔

بی بی سی تھائی سے بات کرتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ ’میں جانتی تھی کہ میری زندگی اب پہلے جیسی کبھی نہیں ہو سکتی۔‘

A protester holds a sign while doing a three-fingered salute during a demonstration to demand the release of activist leaders in Bangkok, Thailand August 8, 2020

Reuters
</figure>پنوسیا کو یہ 10 نقاتی ایجنڈا ان کے سٹیج پر پڑھنے سے صرف چند گھنٹے پہلے ہی دیکھایا گیا تھا۔ اس میں شاہی خاندان کو منتخب اداروں کے آگے جوابدہ ہونے یا ان کا احتساب ہونے کی بات کی گئی ہے۔ اس میں شاہی بجٹ میں کمی اور شاہی خاندان کے سیاست میں مداخلت کو روکنے کی بھی تجاویز ہیں۔ یہ سب بیشتر تھائی لوگوں کے لیے انتہائی حیران کن ہے۔ 

’انھوں نے وہ مجھے دے دیا اور پوچھا کہ کیا تم اسے استعمال کرنا چاہو گی۔ اس وقت سب یہی سمجھ رہے تھے کہ یہ مواد بہت مضبوط ہے۔ اور میرا بھی یہی خیال تھا۔ پھر میں نے سوچا کہ میں ہی وہ شخص بننا چاہتی ہوں جو یہ جا کر لوگوں میں کہے۔‘

پنوسیا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے ساتھی طلبہ کا ہاتھ پکڑا اور ان سے پوچھا ’کیا ہم یہاں یہ سب ٹھیک کر رہے ہیں؟ اور اس کا جواب تھا ہاں یہی راہ حق ہے۔ میں پھر بیٹھ گئی اور میں نے ایک سگریٹ پیا۔ پھر میں سٹیج پر گئی اور میرے دماغ میں جو تھا میں نے بول دیا۔‘

اور اس سٹیج پر کھڑے ہو کر انھوں نے کہا ’سب انسانوں کا خون لال ہوتا ہے۔ ہم کوئی مختلف نہیں ہیں۔ اس دنیا میں کوئی نیلے خون کے ساتھ پیدا نہیں ہوتا۔ کچھ دوسروں سے بہتر حالات میں پیدا ہوتے ہیں مگر کوئی کسی سے زیادہ معظم پیدا نہیں ہوتا۔‘

پنوسیا کی تقریر نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔ آزاد خیال لبرل پروفیسروں نے تالیاں بجائیں اور بادشاہت حامی میڈیا نے تنقید کی۔ مگر زیادہ تر تھائی عوام حیرانی کے عالم میں چلی گئی۔

اپنے ہی ملک سے نفرت کرنا ایک بیماری ہے‘

اس ریلی کے بعد آنے والے دنوں میں بادشاہت حامی کارکنان کے فیس بک صفحات پر پنوسیا کے خلاف حملوں کی بوچھاڑ تھی۔ ان میں سے بہت ان پر الزام لگا رہے تھے کہ انھیں سیاستدانوں نے اکسایا ہے۔ اس الزام کی وہ تردید کرتی ہیں۔

تھائی لینڈ ایک ایسا ملک ہے جہاں بنیادی طور ابھی بھی فوج کا کنٹرول ہے۔ ملک کے ایک طاقتور جنرل اپیرت کونگ سومپونگ نے کہا کہ مظاہرین ’چنگ چارٹ‘ میں مبتلا ہیں۔ یہ ایک تھائی محاورہ ہے جس کا مطلب ملک سے نفرت ہوتا ہے۔

جنرل کا کہنا تھا کہ یہ بیماری دنیا میں جاری کورونا وبا سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’اپنے ملک سے نفرت کرنا ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج کوئی نہیں۔‘

A person holds a picture of Thai King Maha Vajiralongkorn with Queen Suthida as members of Thai right-wing group "Thai Pakdee" (Loyal Thai) attend a rally in support of the government and the monarchy and in opposition to the recent anti-government protests, in Bangkok, Thailand August 30, 2020

Reuters
</figure>مگر پنوسیا کہتی ہیں کہ بچپن میں بھی انھیں یاد ہے کہ ان کے ذہن میں شاہی خاندان کے تھائی طرزِ زندگی پر سوال آتے تھے۔

ایک دفعہ ان کے گھر پر ایک حکومتی اہلکار آیا اور ان کو کہا کہ گھر سے نکلو اور فٹ پاتھ پر جا کر بیٹھو۔ وہاں سے شاہی گاڑیوں کا قافلہ گزرنے والا تھا۔

’ہمیں صرف شاہی قافلہ دیکھنے کے لیے آدھا گھنٹا جا کر دھوپ میں بیٹھنے کی کیا ضرورت ہے۔ مجھے نہیں پتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے مگر میں نہیں چاہتی تھی کہ میں جا کر ہجوم میں بیٹھوں۔‘

پنوسیا اپنی تین بہنوں میں سب سے چھوٹی ہیں اور سیاست میں ان کی دلچسپی شروع سے ہی واضح تھی۔ ہائی سکول میں وہ اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ سیاست پر بات چیت کرتی تھیں۔ 2014 میں جب ملک میں بغاوت ہوئی تو ان کے والد نے ان کی حوصلہ افزائی کی کہ وہ اور زیادہ معلومات اکھٹی کریں۔

Thai Prime Minister Prayut Chan-o-cha gestures during a press conference after a weekly cabinet meeting at the Government House in Bangkok, Thailand, 18 August 2020

EPA
</figure>مگر پنوسیا بچپن میں شرمیلی تھیں اور سکول میں ان کو ہراساں کیا جاتا تھا۔ مگر امریکہ میں ایک ایکسچینج پروگرام میں پانچ مہینے گزارنے کے بعد وہ مکمل طور پر تبدیل ہوگئیں۔ 

’میں جب گھر لوٹی تو میں ایک مختلف انسان تھی جو آواز اٹھانے سے ڈرتی نہیں تھی۔‘

تھائی لینڈ کی معروف یونیورسٹی تھماسات یونیورسٹی میں داخلے کے بعد وہ اور زیادہ سیاسی طور پر سرگرم ہوگئیں۔ دو سال قبل انھوں نے ’ڈوم ریولوشن‘ نامی ایک طلبہ یونین سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔

فروری میں انھوں نے جمہوریت حامی فلیش موب مظاہرے منعقد کروائے۔ نوجوان ووٹروں میں مقبول ایک اصلاحاتی فیوچر فارورڈ پارٹی کو ختم کیے جانے کے بعد یہ پہلے جمہوریت حامی مظاہرے تھے۔ پارٹی کو ختم کیے جانے کے پیچھے ایک متنازع عدالتی فیصلہ تھا جس کے تحت پارٹی نے غیر قانونی قرضے لیے تھے۔

اس پارٹی نے 2019 کے انتخابات میں کافی اچھی کارکردگی دیکھائی تھی اور ان کے حامیوں نے پارٹی کو ختم کیا جانا بطور اس کی مقبولیت کو ختم کرنے کی کوشش دیکھا۔

بس یہی وجہ نہیں کہ تھائی لینڈ کے نوجوان جمہوریت حامی ہوتے جا رہے ہیں۔ 2016 میں اقتدار سنبھالنے والے بادشاہ ماہا وجیرا لانگ کورن عوام میں شازو نادر ہی نظر آتے ہیں۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت ملک سے باہر گزارتے ہیں اور خاص طور پر کورونا وائرس کی وبا کے دوران ایسا کرنے سے تھائی سوشل میڈیا پر ان پر کافی تنقید کی گئی۔

تھائی لینڈ میں حال ہی میں متعدد کرپشن سکینڈل بھی سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے سب سے متنازع ریڈ بل انرجی ڈرنک کے مالک کے خلاف 2012 کے ایک ملحقہ ٹریفک حادثے میں مقدمہ خارج کرنا بھی تھا۔

تھائی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ آزادیِ اظہارِ رائے کی عزت کرتی ہے اور تنقید برداشت کرتی ہے تاہم ان طلبہ کو اپنے حقوق قانون کے دائرہ میں رہ کر استعمال کرنے چاہیئں اور قومی سلامتی کو خطرہ نہیں بننا چاہیے۔

مگر طلبہ اپنی سیکیورٹی کے حوالے سے فکر مند ہیں۔ کم از کم نو ایسے کارکنان کو 2014 میں فوجی بغاوت کے بعد غائب کر دیا گیا تھا، ان میں سے دو کی لاشیں بعد میں ایک دریا کے قریب ملیں۔

تھائی حکومت کا کہنا ہے کہ ان کا ان طلبہ کے غائب ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مگر پنوسیا کہتی ہیں کہ جب سے انھوں نے وہ تقریر کی ہے ان کی نقل و حرکت پر حکام کی جانب سے رات دن نگرانی رکھی جا رہی ہے۔ ’اگرچہ وہ سادہ لباس میں ہوتے ہیں مجھے پتا لگ جاتا ہے کہ یہ پولیس والے ہیں کیونکہ ان کا ہمیشہ وہی کرو کٹ ہیئر سٹائل ہوتا ہے اور وہ عوامی مقامات پر میری تصاویر لے رہے ہوتے ہیں۔‘

انھیں ابھی تک گرفتار نہیں کیا گیا ہے تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ کبھی بھی حکام کے آگے ہتھیار نہیں ڈالیں گی۔

مگر ان پر بادشاہت کے خلاف بات کرنے کا مقدمہ بھی درج نہیں کیا گیا ہے۔ شاہی خاندان کے کہنے پر ان قوانین کو گذشتہ کچھ برسوں میں کم استعمال کیا گیا ہے۔

پنوسیا کو گھر پر بھی مشکلات ہیں۔ ان کی والدہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں جو کہ ان کے فیصلے پر بہت نالاں ہیں اور انھوں نے اپنی بیٹی کو بہت مجبور کرنے کی کوشش کی وہ ریلی میں نہ جائیں۔

اس ریلی کے بعد پانچ دن تک انھوں نے ایک دوسرے سے بات نہیں کی۔ اور اب پنوسیا 19 ستمبر کو ایک ریلی کی تیاری کر رہی ہیں۔ مگر ساتھ ساتھ وہ خود کو ذہنی طور ہر جیل کے لیے بھی تیار کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’میری والدہ کو یہ سمجھنا ہو گا کہ ہم جو کر رہے ہیں وہ مزے کے لیے یا شوق سے نہیں کر رہے، ہمیں ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp