برطانیہ میں جنسی حملوں کا شکار ایک پاکستانی لڑکی رپورٹ کیوں نہ کر سکی؟


برطانیہ میں ایشیائی باشندوں کے ہاتھوں مقامی بچوں کے ساتھ جنسی جرائم سے پردہ اٹھانے والی روتھر ہیم رپورٹ اور اقلیتی کیمونٹی میں جنسی جرائم کی کثرت اور پردہ پوشی کا معاملہ معاشرے کے تلخ رخ کی نشان دہی کرتا ہے۔ ایک پاکستانی نوجوان خاتون (ر) نے اپنی ذاتی زندگی سے پردہ اٹھاتے ہوئے برطانیہ میں مقیم بیشتر پاکستانی نژاد خاندانوں میں جنسی جرائم کے متعلق منفی سماجی رویے کی نشاندہی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسے دس سال کی عمر سے ایک ہمسائے نے جنسی حملوں کا نشانہ بنانا شروع کر دیا تھا جب اس نے دیکھا کہ اس کی برادری میں اس ظلم کا تذکرہ کرنے پر اسے ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے گا تو اس کے پاس خاموش رہنے کا کوئی چارہ نہ تھا۔

یہ ظلم آٹھ سال تک جاری رہا اور جب اٹھارہ سال کی عمر میں اسے آکسفورڈ یونیورسٹی سے اسکالر شپ ملا تو وہ زندگی میں پہلی دفعہ اپنی کرب ناک دنیا سے نکل پائی آکسفورڈ میں اس نے زندگی کے ہر پہلو پر توجہ دی اور اس کے مثبت رویے اور سماجی سرگرمیوں کے باعث وہ آکسفورڈ یونین کی صدر بھی بن گئی اس کے بعد اس نے مشہور ہارورڈ یونیورسٹی سے ایم بی اے بھی کیا۔ خاتون نے بتایا کہ جب اس کی زندگی کی کامیابیوں نے اسے اعتماد اور حوصلہ دیا تو اس نے جنسی حملے کرنے والے مجرم کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا لیکن اس کی سب سے زیادہ مزاحمت اس کے اپنے خاندان کی طرف سے ہی کی گئی۔

والدہ کا کہنا تھا کہ خاندان کی شرمندگی کا باعث بنے گا اس لیے خاموش رہو، خاتون کا کہنا تھا کہ یہی خاموشی اور شرمندگی کا کلچر ہے جو جنسی مجرموں کو تحفظ دیتا ہے بلکہ الٹا متاثر ہونے والی لڑکیوں کو ہی ذمے دار قرار دے دیتا ہے۔ اس خاتون نے حوصلے کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس مجرم کے خلاف گواہی دی، اس سے متاثر ہو کر ایک اور خاتون نے بھی اپنے ساتھ ہونے والی ظلم کی گواہی دی جس کے باعث مجرم کو آٹھ سال کی قید کی سزا سنا دی گئی۔

دراصل یہ وہ کلچر ہے جو عمومی طور پر پاکستانی معاشرے میں پایا جاتا ہے کہ شرمندگی اور معاشرتی خوف کے پیش نظر زیادتی کے واقعات کو رپورٹ نہیں کرتے اور ظلم کا نشانہ بننے والوں کو خاموش رہنے کا درس دیا جاتا ہے۔ خاموشی اس وقت ٹوٹ جاتی جب کوئی بچہ، بچی یا خاتون جنسی زیادتی کی وجہ سے قتل کردی جاتی ہے اور تلخ خبریں سوشل و الیکٹرانک میڈیا میں تشہیر کے بعد کچھ وقت کے لیے چلتی ہیں۔ ارباب اختیار اگر نوٹس لیتے ہیں، تو مجرم گرفتار ہو جاتے ہیں ورنہ انصاف کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایک درندہ بھی کسی جانور کے بچے کو کھاتے ہوئے ہزار بار سوچتا ہوگا لیکن انسانی کھال منڈھے جو درندے ہمارے درمیان ہیں وہ معصوموں پر رحم نہیں کھاتے۔ غلاظت سے بھرے انسان نما درندے ننھے فرشتوں سے اپنی ہوس کی آگ جلا دیتے ہیں اور ان کی پوری زندگی کھا جاتے ہیں۔

بیشتر اخبارات میں چھپنے والی زبان ہو یا بعض نیوز چینل یا تفریحی ڈراموں میں نشر ہونے والے الفاظ، لوگ انھیں معیار سمجھ لیتے ہیں اس لیے عمومی طور پر دیکھا گیا کہ ہماری بول چال رہن سہن تہذیب سے عاری ہوتے جا رہے ہیں۔ معاشرتی اقدار کی تباہی کا ایجنڈا ٹی وی چینلز یا انٹر نیٹ کے ذریعے گھر گھر بغیر دستک داخل ہوچکا ہے۔ عریانیت و فحاشی سے ہماری روایات و ثقافت کو بچانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔ فحش مواد پر مبنی ویب سائٹس مختلف نیٹ ورک منصوبہ بندی کے تحت کمپنیاں ڈیزائن کر رہی ہیں اور پاکستانی سنجیدہ سائٹس پر بھی (ڈیٹنگ سائٹس) کے اشتہار نوجوانوں کو ترغیب دیتے نظر آتے ہیں۔

فحاشی اور بے راہ روی پھیلانے والی ان ویب سائٹس پر جس قسم کی پابندی لگائی کہ اسے نام نہاد ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔ موبائل فون میں فحش ویڈیوز کی ڈاؤن لوڈنگ ہر گلی، بازار اور دکانوں میں برسرعام کی جاتی ہے لیکن انھیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ آزادی اظہار کے حیلے میں مادر پدر آزادی نے مغرب کو پاتال میں اتار دیا ہے، لیکن مسلم معاشرے سے تعلق رکھنے والے ممالک بھی اس وبا سے اسلامی تعلیمات سے آگاہ ہونے کے باوجود بچنے میں ناکام رہے ہیں۔

آزادی اظہار کے حوالے سے مغرب نے جنسی اختلاط کے لیے فریقین کی مرضی کو کافی قرار دیا بلکہ ہم جنس پرستی کے قوانین بھی رائج کیے جس سے ان کی اخلاقی تباہی و بربادی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں بھی بھارتی ثقافت سرکاری سر پرستی میں گھر گھر پہنچ چکی ہے۔ پاکستانی اپنے ملک سے محبت تو کرتا ہے لیکن بھارتی و مغربی منفی ثقافت کو جیب میں ڈالے پھرتا ہے۔ یہ جنسی ترغیبات ہی ہیں جو معاشرے میں بگاڑ کا سبب بنتی ہیں۔

مغربی اقدار پر بحث کا مقصد یہی تھا کہ ہم نقالی کے طور پر اپنے ہر عمل کو جدید بنانے کی روش میں مغرب کو ترجیح دیتے ہیں۔ روشن خیالی، آزاد رائے اور خود مختاری کے حوالے سے مغرب کی باتیں کرتے ہیں اس لیے ضروری ہے کہ ہم اس امر کو سمجھیں کہ معاشرتی انحطاط و بے روا روی کی جس روش پر جو بھی رواں ہے، اس کا منطقی نتیجہ بالآخر تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ اسلام ہمیں تہذیب اور اخلاقیات کے جو درس دیتا ہے اس سے ہم واقف ہونے کی زحمت بھی نہیں کرتے۔ اسلام ہمیں معاشرتی طور پر احترام آدمیت کا درس دیتا ہے تو اس کے ساتھ اپنے گھر میں داخلے کے لیے ”اسلام علیکم“ کہنے کی ہدایت بھی اس لیے دیتا ہے تاکہ ان کی محرم خواتین بھی اپنے اٹھنے بیٹھنے میں سمجھ داری کا مظاہرہ کریں۔

جنسی زیادتی و قتل کے بڑھتے واقعات پر سخت قانون سازی کے لئے مختلف آرا سامنے آئی ہیں اور وزارت داخلہ کی جانب سے ایک ڈرافٹ بھی تیار کیا جا رہا ہے۔ اس حوالے سے پارلیمنٹرین کے آرا منقسم ہے، کئی ممالک کے حوالے بھی دیے جا رہے ہیں، تاہم زمینی حقائق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جب تک سزاؤں کا خوف معاشرے میں غالب نہیں آئے گا اس وقت تک جرائم کسی نہ کسی لبادے میں ہوتے رہیں گے۔ سیاست دان، علما، اسکالر و معاشرتی اکائیوں پر مشتمل ایک ایسے پلیٹ فارم سے ان اسباب کو بھی دور کرنے کی ضرورت ہے، جو بالغ معاشرے کو بھی بانجھ بنا دیتے ہیں۔

ایسی سزائیں و قوانین بنائے جائیں جن پر عمل درآمد بھی ممکن ہو سکے، قانونی موشگافیوں کا سہارا لے کر مجرم مظلوم نہ بن جائے اور کوئی بے گناہ کسی انتقامی سازش کا شکار نہ ہو۔ قانون نافذ کرے والے ادارے اور اس پر فیصلہ صادر فرمانے والے، ایسی سزاؤں کو ترجیح دیں جو ہمارے دین اسلام میں بیان کی گئیں ہیں، نئے تجربات کے بجائے اسلامی اساس و قوانین کو معاشرے پر لاگو کرنے سے ہی سزاؤں کا ڈر و جرم سے خوف پیدا ہوگا۔

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا
مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ (حالی)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).