مولانا طارق جمیل، مخلوط تعلیم، پٹرول، آگ اور ریپ


سوشل میڈیا سے علم ہوا کہ مولانا طارق جمیل نے موٹر وے ریپ کیس پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ایسے واقعات کی وجہ مخلوط تعلیم ہے۔ ایک عام شخص یہ سنتے ہی آگ بگولا ہو جائے گا کیونکہ اس کے پاس علم کی دولت نہیں ہے یہ لفظ سنتے ہی عام لوگوں کے ذہنوں میں یہ خیال آتا ہے کہ مخلوط تعلیم کا مطلب ہے کہ ایسی تعلیم جس میں لڑکیاں بھی لڑکوں کے ساتھ پڑھیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ متذکرہ بالا لوگ لڑکی کے علاوہ کچھ سوچ ہی نہیں سکتے۔

لیکن صاحبان علم و حرفت مولانا سے اتفاق کریں گے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ لفظ مخلوط کا مطلب جانتے ہیں۔ ذرا رخش فکر کو دوڑائیں۔ کیا آپ نے کبھی کسی سوال کو خلط ملط کیا ہے؟ کیا آپ خلط مبحث کا شکار ہوئے ہیں؟ آسان اردو میں خلط کا مطلب ہے گڈمڈ ہونا یا کرنا۔ اشتباہ یا غلط فہمی کی بنا پر کسی مفہوم یا شے کو اس کے متضاد محل میں رکھنے کا عمل ؛ کسی روایت یا مضمون کے ساتھ دوسری باتوں کی آمیزش۔

اب ان معنوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچیں کہ مخلوط تعلیم کا کیا مطلب ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ مخلوط تعلیم کا مطلب ہے کہ گڈمڈ تعلیم۔ اشتباہ آمیز یعنی کنفیوز کرنے والی تعلیم۔ یعنی مولانا کے کہنے کا مطلب ہے کہ ہمارا ناکارہ اور ناکام نظام تعلیم ریپ کا ذمہ دار ہے۔

مولانا کے مکمل ویڈیو بیان کو سنا جائے تو وہ واضح طور پر یہ بات فرما رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”چائلڈ ابیوز بہت زیادہ، بچیوں پر زیادتی بہت زیادہ، یہ سامنے آ گیا اس لیے اس پر شور مچا، لیکن یہ واقعات تو روز ہو رہے ہیں۔ حکومت تو یہ نظام نہیں بنا سکتی کہ لوگ بدل جائیں۔ ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہو گا۔ سب سے پہلے سکول ہوتے ہیں۔ ہمارے سکول صرف کاروباری ادارے ہیں۔ تربیت ساز نہیں ہیں۔ ہمارے کالجز میں لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں۔ جب پٹرول اور آگ اکٹھا ہو گا تو آگ نہ لگے یہ کیسے ہو گا۔ کو ایجوکیشن، مخلوط تعلیم، اس نے بے حیائی کو پروموٹ کیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے۔ میں خود کالج لائف گزار کے اللہ کے راستے کی طرف آیا۔“

سب سے پہلے تو ہم مولانا طارق جمیل کو مبارکباد دیتے ہیں کہ وہ مخلوط کالج، اور وہ بھی میڈیکل مخلوط کالج، کی سنگین راہوں سے گزرنے کے باوجود بچ گئے۔ ہم نے سنا ہے کہ میڈیکل میں نہ صرف تعلیم مخلوط ہے، بلکہ نصاب بھی بسا اوقات نہایت فحش ہو جاتا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ ادھر برہنہ انسانی اجسام طلبہ و طالبات کو ایک ساتھ کھڑا کر کے دکھائے جاتے ہیں۔ پھر بھی مولانا اس نظام کی پکڑ سے بچ گئے۔

بہرحال یہ بات واضح ہے کہ معاشرے میں چائلڈ ابیوز اور ریپ کا سبب سکول کالج کی تعلیم ہے۔ تعلیم سے پیچھا چھڑا لیا جائے تو معاشرے سے یہ بے حیائی مٹ جائے گی۔ اس کے علاوہ ہمیں بے حیائی ماپنے کا پیمانہ بھی میسر آ گیا ہے۔ جب بھی ہمیں شرح خواندگی بتائی جائے تو ہم سمجھ جائیں کہ یہ شرح بے حیائی ہے۔

دوسری طرف یہ بھی واضح ہے کہ مدارس میں مخلوط تعلیم نہ ہونے کے سبب وہاں چائلڈ ابیوز کا کوئی کیس سامنے نہیں آتا۔ بلکہ بعض مدارس تو چائلڈ ابیوز روکنے کی خاطر چار پانچ برس کے بچوں کو بھی زنجیروں میں جکڑ کر رکھتے ہیں۔ نیز لڑکوں کے لیے مختص مدارس میں لڑکیوں کے ریپ کا کیس بھی ہم نے کبھی نہیں سنا۔ ہمیشہ چھوٹے لڑکوں کا ہی سنا ہے۔ اب پتہ نہیں ان میں سے کون پٹرول ہوتا ہے اور کون آگ۔

مدارس کے بعض فارغ التحصیل طلبا کا کیس بھی سننے میں آتا رہتا ہے کہ انہوں نے لڑکی کے ساتھ کچھ بدی کی لیکن اس میں بھی قصور ان کا نہیں ہوتا۔ جیسا کہ پیر محل کے مولوی انوار القمر نے ویڈیو وائرل ہونے پر بتایا تھا کہ سارا قصور اس تیرہ برس کی لڑکی کا تھا جس نے اسے اکسایا۔ مولانا طارق جمیل کی بات پر ہمیں یقین ہے، وہ لڑکی ضرور مخلوط سکول کی طالبہ ہو گی کیونکہ مولوی صاحب تو یک صنفی مدرسے کے پڑھے ہوئے تھے۔

اب موٹروے کے واقعے کے بارے میں بھی مولانا کی گواہی کے بعد یہ بات ہمارے نزدیک حق الیقین کے درجے کو پہنچ چکی ہے کہ تمام مجرم کسی مہنگے کالج یا یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ ہوں گے جہاں مخلوط تعلیم کی وجہ سے وہ بگڑ گئے۔ بظاہر تو وہ موٹر مکینک اور اس کے چھوٹے ہیں لیکن یہ بھیس انہوں نے اپنے جرائم چھپانے کے لیے بدلا ہو گا۔ درحقیقت وہ آٹو موبائل انجینئیر ہوں گے۔ اور جس حد تک وہ بگڑ چکے ہیں عین ممکن ہے کہ وہ امریکہ یورپ کی کسی یونیورسٹی سے پڑھے ہوں۔

تعلیم یعنی بے حیائی سے جان چھڑانے کے علاوہ ایک دوسرا طریقہ بھی مولانا طارق جمیل نے بتایا ہے۔ انہوں نے چنگیز خان کی بے حد تعریف کی کہ ایک غیر مسلم ہوتے ہوئے بھی اس نے ایسا زبردست نظام بنایا کہ کوئی زنا کرتا، اس کی گردن اڑا دی جاتی، کوئی قتل کرتا، اس کی گردن اڑا دی جاتی، کوئی چوری کرتا تو اس کی گردن بھی اڑا دی جاتی۔ اب یہ بات تو واضح ہے کہ کسی مجرم کی گردن اڑا دی جائے تو وہ آنکھوں سے بھی محروم ہو جائے گا، یوں وہ چوری اور قتل کرنے میں بہت دشواری محسوس کرے گا بلکہ عین ممکن ہے کہ تلاش میں ناکامی پر زنا کرنے کے بھی قابل نہ رہے۔ بہرحال چنگیز خان کے برخلاف وزیراعظم عمران خان کا ہدف گردن اڑانا نہیں ہے، وہ اعتدال پسند ہیں اور مڈل گراؤنڈ پر فوکس کر رہے ہیں۔ شکر ہے کہ انہیں مولانا کی راہنمائی میسر ہے۔

ویسے مولانا چاہتے تو ایک تیسرا حل بھی بتا سکتے تھے۔ یعنی سب لڑکوں کو پولیو کے قطرے پلا دیے جائیں جن کے بارے میں بہت سے مولانا حضرات کا یہ عقیدہ ہے کہ وہ قوت مردمی سے محروم کر دیتے ہیں۔ یوں نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar